پاکستان کی سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز کی تعیناتی کی جوڈیشل کمیشن نے منظوری دے دی ہے۔اس سے پہلے 13 رکنی جوڈیشل کمیشن کی صدارت کمیشن کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی نے کی۔ اجلاس سپریم کورٹ کی عمارت میں منعقد ہوا۔تاہم رپورٹس کے مطابق کمیشن ممبران میں سے دوججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کارروائی کا حصہ بننے سے معذرت کر لی۔اسی طرح تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے دو ممبران بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر علی ظفر نے بھی اجلاس کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔سپریم کورٹ کے باہر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی سینیارٹی لسٹ مرتب ہونے تک اس اجلاس کو موخر کرنے کی جو درخواست دی گئی تھی وہ اس پر ابھی بھی قائم ہیں۔
تاہم کمیشن کا اجلاس 9 اراکین کے ساتھ دو گھنٹے تک جاری رہا جس میں سپریم کورٹ میں چھ نئے ججز تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ سے چیف جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعیناتی جب کہ آرٹیکل 181 کے تحت اسی ہائی کورٹ سے جسٹس گل حسن کے نام کو سپریم کورٹ کے قائم مقام جج کے طور پر منظور کیا گیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ سے چیف جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس صلاح الدین پنہور جبکہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس اشتیاق ابراہیم اور چیف جسٹس بلوچستان جسٹس ہاشم کاکڑ کو بھی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی۔تاہم اس اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کی نامزدگی کو منظور نہیں کیا گیا۔ ابتدائی طور پر کمیشن کے سامنے آٹھ ججز کی تقرری کے لیے ہر ہائی کورٹ سے ناموں کی منظوری ایجنڈے میں شامل تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججز سے متعلق فیصلہ اگلے اجلاس تک موخر کردیا گیا ہے۔سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی سے قبل تین ہائی کورٹس سے تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے بھی کیے گئے جس سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججز کی سنیارٹی لسٹ بھی تبدیل ہو گئی۔سیاسی مبصرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد بننے والے نئے جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کی منظوری دے کر اس ترمیم پر مہر ثبت کر دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے میاں گل حسن کی سپریم کورٹ کے قائم مقام جج کے طور پر تقرری کی منظوری دی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیال رہے کہ اس سے پہلے حکومت نے قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 16 سے بڑھا کر 35 کر دی تھی۔
سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آفتاب باجوہ کہتے ہیں کہ ’نئے ججز کی تعیناتی سے 26ویں ترمیم مضبوط ہو گئی ہے۔ اور اس سے یہ بھی واضع ہو گیا ہے کہ اس سے آگے سسٹم کیسے چلے گا۔‘’میں یہ کہوں گا کہ ان ساری چیزوں کا سیاسی اثر بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ حکومت کی مخالف سیاسی قوت جن چیزوں کو ذہن میں رکھ کر عدالتی ریلیف کا سوچ رہی تھی وہ اب مشکل تر ہو گیا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’26 ویں ترمیم پر فل کورٹ بنانے کی جو بات ہو رہی تھی اب فل کورٹ بن بھی گئی تو ترمیم کے خلاف فیصلہ آنے کی توقع نہیں ہے۔ تو اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔‘چند وکلا تنظیمیں جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار، لاہور ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار نے جوڈیشل کمیشن کے اس اجلاس کے خلاف ہڑتال کی کال دے رکھی تھی۔ تاہم پنجاب میں بظاہر یہ ہڑتال غیر موثر رہی کیونکہ عدالتوں میں کام جاری رہا جبکہ اسلام آباد میں وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔دوسری طرف وکلا کی فیصلہ ساز تنظیمیں جن میں پاکستان بارکونسل، اور چاروں صوبائی بار کونسلز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس ہڑتال کی کال کو سیاسی کال قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔