اسلامی بینکاری کے فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے

image

اسلامی بینکاری کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ یہ روایتی بینکاری (کنونشل بینکنگ) کی ہی ایک شکل ہے، جب کہ حقیقت میں اسلامی بینکاری کا اپنا الگ نظام ہے، جو اسلامی قانون (شریعت) پر مبنی اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے۔ پاکستان کے مالیاتی منظرنامے اور بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اسلامی بینکاری نے گزشتہ چند دہائیوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلامی بینکاری کے طریقے روایتی بینکاری کے طریقوں کی ہی طرح ہیں۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی بینکاری واقعی مختلف ہے یا یہ صرف مذہبی لبادے میں روایتی بینکاری ہی ہے؟

اسلامی بینکاری کا فلسفہ

اسلامی بینکاری کی بنیاد شریعت کے اصولوں پر ہے، جو اسلام کے اخلاقی اور قانونی فریم ورک پر کام کرتی ہے۔ شریعت سود (رِبا)، غیریقینی مالی معاملات (غرار) اور حرام کاموں (ناجائز سرگرمیوں) کی ممانعت کرتی ہے۔ سود حاصل کرنے کے بجائے اسلامی بینک ایکویٹی شراکت داری کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، جس میں بینک قرض لینے والے کے منصوبے میں نفع و نقصان کا شراکت دار ہوتا ہے۔ اس انتظام کو ”مضاربہ“ کہا جاتا ہے۔

نظریاتی طور پر یہ اصول اسلامی بینکاری کو روایتی بینکنگ سے الگ کرتے ہیں، جو بنیادی طور پر سودی ماڈل پر کام کرتی ہے۔ کنونشنل بینک قرض دیتے ہیں اور قرض لینے والے کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر سود وصول کرتے ہیں۔

اسلامی بینکاری میں صرف اصطلاحات کا فرق نہیں

یہ غلط فہمی کہ اسلامی بینکاری روایتی بینکاری ہی ہے جس میں اسلامی لیبل لگے ہوئے ہیں۔تاہم ایسا کہتے ہوئے دونوں نظاموں کے کام کرنے کے طریقہ کار میں بنیادی اور عملی فرق کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ روایتی بینک کو عام طور پر کسی منصوبے کی کامیابی یا ناکامی سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطمع نظر صرف سود وصول کرنا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ سارا خطرہ قرض لینے والے کو منتقل کردیتے ہیں۔ دوسری جانب اسلامی بینکاری میں رسک شیئرنگ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بینک کے منافع کا انحصار سرمایہ کاری کی حقیقی کارکردگی پر ہوتا ہے، جو بینک اور صارف کے درمیان زیادہ متوازن اور منصفانہ تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔

روایتی بینکاری میں قرضوں پر مقررہ شرح سے سود وصول کیا جاتا ہے، جس کے باعث قرض لینے والا مالی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسلامی بینکاری میں لین دین کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ دونوں فریق منافع اور نقصان میں حصہ دار ہوں، جس سے مالی استحکام اور باہمی تعاون کا تصور فروغ پاتا ہے۔ اسلامی بینکاری کو روایتی بینکاری سے ممتاز کرنے والی دو نمایاں خصوصیات اثاثوں کی بنیاد پر فنانسنگ اور رسک شیئرنگ ہیں۔

اثاثہ جات پر مبنی فنانسنگ (مرابحہ)

اسلامی بینکاری میں لین دین کے لیے ٹھوس اثاثے ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر مرابحہ (لاگت پلس فنانسنگ) جیسے معاہدوں میں بینک کسی اثاثے کو خود خرید کر صارف کو منافع کے ساتھ فروخت کردیتا ہے، بجائے اس کے کہ رقم قرض دے کر سود وصول کیا جائے۔ یہ شرط اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اسلامی بینک حقیقی معاشی سرگرمیوں سے جڑے رہیں۔ برخلاف روایتی بینکاری میں پائے جانے والے قیاس آرائی پر مبنی مالیاتی مارکیٹوں کے۔

پاکستان میں اسلامی بینکاری

پاکستان کے مالیاتی شعبے میں اسلامی بینکاری نے نمایاں ترقی کی ہے، جہاں میزان بینک، البرکہ بینک اور بینک اسلامی جیسے ادارے شریعت کے مطابق بینکاری خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری کی تبدیلی کی کامیاب مثال فیصل بینک کی ہے، جو ملک کا دوسرا بڑا اسلامی بینک ہیاور اس کا نیٹ ورک پاکستان کے 253 شہروں / قصبوں میں تقریباً 700 اسلامی برانچوں کے ساتھ پھیلایا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر ایک روایتی بینک کے طور پر قائم ہونے والا فیصل بینک مکمل طور پر اسلامی بینکاری ماڈل میں منتقل ہوچکا ہے۔ یہ تبدیلی بینک کی جانب سے اپنے آپریشنز کو شریعہ کمپلائنٹ اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے عزم کی عکاس ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ اسلامی بینکاری صرف روایتی بینکنگ کا نیا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام ہے، جو انصاف، شفافیت اور مالی استحکام کو اس انداز میں فروغ دیتا ہے، جو روایتی بینک نہیں کرسکتے۔ اسلامی بینکاری کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ روایتی ماڈلز سے خود کو الگ رکھتے ہوئے شرعی اصولوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے تجارت کریں۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.