یحییٰ سنوار: کیا حماس اسرائیل سے سات اکتوبر کے ’ماسٹر مائنڈ‘ کی لاش حاصل کر پائے گا؟

اب جب اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ ہو رہا ہے تو یحییٰ سنوار کی لاش کی بازیابی کے امکان کے بارے میں کیا توقع ہے؟ کیا ایسا مستقبل قریب یا بعید میں ہونے کا امکان ہے، یا پھر یہ ممکن ہی نہیں؟
سنوار
Getty Images
7 اکتوبر 2023 کو سنوار اور اُن کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کیا

جیسے جیسے حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل آگے بڑھا، حماس کے سابق سربراہ یحییٰ سنوار کی لاش کی قسمت کے بارے میں بھی بات ہو رہی ہے۔

سعودی العربیہ چینل نے ’مذاکرات کے عمل کے قریبی ذرائع‘ کے حوالے سے بتایا تھا کہ حماس نے معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں سنوار کی لاش کے حصول کے لیے مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی۔

اسرائیلی میڈیا کے دعوؤں کے مطابق حماس کی اس کوشش کو اسرائیل نے مسترد کر دیا تھا تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیل اور حماس نے ابھی تک اس معاملے پر سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اب جب اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ ہو رہا ہے تو یحییٰ سنوار کی لاش کی بازیابی کے امکان کے بارے میں کیا توقع ہے؟ کیا ایسا مستقبل قریب یا بعید میں ہونے کا امکان ہے، یا پھر یہ ممکن ہی نہیں؟

اسرائیل کے پاس موجود یحییٰ کا ڈینٹل ریکارڈ اور ڈی این اے کے نمونے

یحییٰ سنوار کو اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے۔

سنوار ایک سال سے زیادہ عرصے سے روپوش تھے تاہم وہ روپوشی کے دوران اسرائیلی حملے میں ہی مارے گئے جو دراصل اسرائیل کے لیے بھی ایک سرپرائز تھا۔

اکتوبر 2024 میں اسرائیلی ڈرون کے ذریعے فلمائی گئی فوٹیج میں ڈرون غزہ میں مصر کی سرحد سے قریب رفح کے علاقے میں ایک تباہ حال عمارت کے سامنے چکر لگا رہا ہے جب اسے تباہ حال عمارت کی اوپری منزل میں صوفے پر ایک نقاب پوش عسکریت پسند جنگی لباس پہنے نظر آتا ہے۔

ڈرون کھڑکی سے عمارت کے اندر داخل ہوتا ہے۔

قریب جانے پر دیکھا جا سکتا ہے کہ صوفے پر بیٹھا شخص بظاہر زخمی ہے مگر اس حالت میں بھی وہ حرکت کرتا ہے اور ڈرون پر چھڑی جیسی چیز مارتا ہے جس سے ڈرون کو لڑکھڑاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے رفح میں فرار کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ اور ٹینک سے گولہ باری کی جس کے نتیجے میں صوفے پر بیٹھا عسکریت پسند بھی ہلاک ہو گیا۔

اس وقت تک اسرائیلی فوجیوں کو اس جھڑپ کے بارے میں کوئی غیرمعمولی بات دکھائی نہیں دی۔

تاہم اگلے دن صبح جب فوجی اس مقام پر واپس گئے اور لاشوں کا معائنہ کیا جا رہا تھا تو ان میں سے ایک شخص حماس کے سربراہ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا تھا۔

اس لاش کو بارودی مواد کی ممکنہ موجودگی کی وجہ سے اس مقام سے تو نہیں ہٹایا گیا تاہم ان کی ایک انگلی کاٹ کر اسرائیل بھیجی گئی تاکہ ڈی این اے سے تجزیہ کیا جا سکے۔

پھر تصدیق ہو گئی یہ لاش حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہے۔

اسرائیل کے پاس ان کے دانتوں کا ریکارڈ اور ڈی این اے کے نمونے تھے جس کی بدولت انھوں نے سنوار کی میت کی شناخت کی۔

سنوار کے پوسٹ مارٹم کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹر کے مطابق ’حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کی ہلاکت سر میں گولی لگنے سے ہوئی تھی۔‘

لیکن حماس کے دیگر رہنماؤں کے برعکس جنھیں اسرائیل ڈھونڈ کر نشانہ بناتا رہا ہے، یحییٰ سنوار جس حملے میں ہلاک ہوئے وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ٹارگٹڈ آپریشن یا ایلیٹ کمانڈوز کی طرف سے کی گئی فوجی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس علاقے میں جاری معمول کی ایک فوجی کارروائی تھی۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ سنوار کسی بھی یرغمالی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ نظروں میں آئے بغیر وہاں سے نکلنا چاہتے تھے یا ان کے زیادہ تر محافظ مارے جا چکے تھے۔

یحییٰ السنوار کون تھے؟

یحییٰ السنوار 61 برس کے تھے اور انھیں عرف عام میں ’ابو ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں خان یونس کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔

السنوار کو سنہ 1982 میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ 19 برس کے تھے۔ انھیں ’انتہا پسند سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کی پاداش میں سنہ 1985 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔

السنوار نے سنہ 1988 سے سنہ 2011 تک یعنی لگ بھگ 22 سال اسرائیلی جیلوں میں گزارے۔ وہاں اُن کا کچھ وقت قیدِ تنہائی میں بھی گزرا جس کے باعث ان میں عسکریت پسند عنصر مزید شدت پکڑ گیا۔

سنہ 2013 میں انھیں غزہ میں حماس کے سیاسی بیورو کارکن منتخب کیا گیا جس کے بعد سنہ 2017 میں انھیں اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔

سنوار اُن ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں میں سے تھے جنھیں سنہ2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔

جیل سے رہائی کے بعد، سنوار نے آہستہ آہستہ حماس میں مختلف ذمہ داریاں سنبھال لیں، یہاں تک کہ وہ 2017 میں غزہ میں تحریک کے جنرل کمانڈر کے طور پر منتخب ہوئے اور 2021 میں ان کی مدت ملازمت کی تجدید کی گئی۔

7 اکتوبر 2023 کو سنوار اور اُن کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جو اسرائیل کی بدترین ناکامی ثابت ہوئے۔

یہ صدمہ آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ 1200 اسرائیلیوں کی ہلاکت اور درجنوں کو یرغمال بنائے جانے نے کئی اسرائیلیوں کے لیے ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کر دی تھی۔

7 اکتوبر کے حملے کے بعد یحییٰ السنوار کو یورپی یونین کی ’بین الاقوامی دہشت گردوں‘ کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ اس سے پہلے امریکہ اور اسرائیل نے انھیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں رکھا تھا۔

سنوار
Getty Images
اسرائیلی مظاہرین سنوار کی موت پر جشن منا رہے ہیں

’لاش کی حوالگی پر اسرائیل کی جانب سے مزاحمت‘

ہم نے ان رپورٹس پر تبصرہ کرنے کے لیے حماس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ سنوار کی لاش کی بازیابی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا حصہ ہے لیکن ہمیں ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم استنبول سے تعلق رکھنے والے فلسطینی محقق مامون ابو عامر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جنگ بندی کے مذاکرات کے پہلے مرحلے میں سنوار کی لاش کے بارے میں بات ہوئی تھی لیکن اسرائیلی مزاحمت تھی، شاید اس شخصیت کی حیثیت اور قیادت کی پوزیشن کی وجہ سے، یا اس خیال سے متعلق دیگر سیاسی تحفظات کی وجہ سے کہ یہ معاہدہ ایک اعلیٰ درجے کے مرحلے پر تھا۔‘

ابو عامر نے اس بات پر زور دیا کہ حماس نے خاص طور پر سنوار کی لاش کی درخواست نہیں کی، جیسا کہ تحریک کی باقی ماندہ لاشوں کی طرح حماس ’ان سب کو اسلامی قانون کے مطابق دفنانا چاہتی ہے‘ تاہم، سنوار کی لاش کو حوالے کرنا بنیادی نقطے کی نمائندگی نہیں کرتا اور معاہدے کی بنیادی شرائط میں شامل نہیں ہو گا اور نہ ہی اس پر کوئی اثر پڑے گا۔‘

ابو عامر نے اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی باقیات (حماس کے مرنے والوں کی) کہاں ہیں، وہ جہاں دفن ہیں، انھیں دفن کیا جاتا ہے اور ان کے لیے علامتی ماتمی مجلس منعقد کی جاتی ہے۔‘

تاہم ابو عامر اس امکان سے انکار نہیں کرتے کہ حماس مستقبل میں دوبارہ سنوار کی لاش کی درخواست کرے گی۔

انھوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ اسرائیل اس وقت حماس کے مطالبے کو پورا کرے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’اس میں تاخیر ہو سکتی ہے اور میں توقع کرتا ہوں کہ لاش کی تقدیر ان حالات کے مطابق طے کی جائے گی جو غزہ کے معاہدے کے مراحل کو ظاہر کرتے ہیں۔‘

’بہت اہم پریشر کارڈ‘

اس کے برعکس ایک سابق اسرائیلی سفارت کار میئر کوہن نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’میں اس معاہدے کی نوعیت کے بارے میں نہیں جانتا جو سنوار کی میت کے تبادلے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم صرف سنوار کا نام ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر حماس کا نام مٹانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے ہمارے ساتھ ہمارے یرغمالیوں کا سودا کیا اور کئی مواقع پر ہماری لاشیں برسوں تک اپنے پاس رکھی ہیں، اور یہ اس کی روایات میں سے ایک ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل ’2014 میں غزہ کی پٹی میں پکڑے جانے کے بعد سارجنٹ اورون شال کی باقیات کو بازب نہیں کر سکا اور اسے اسرائیلی فوج کے ایک خصوصی خفیہ آپریشن کے ذریعے حاصل کیا گیا۔‘

میئر کوہن کہتے ہیں کہ اس کے بعد لیفٹیننٹ گولڈن کی لاش نہیں ملی، جسے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے غزہ سے واپس نہیں لیا گیا اور اسرائیل اسے بازیاب کرنے کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔‘

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل سنوار کی لاش کو کس طرح اور کب استعمال کر سکتا ہے؟ مسٹر کوہن نے اس کے جواب میں کہا کہ ’اس کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس بارے میں تفصیلات کا عام طور پر اعلان نہیں کیا جاتا لیکن امکان ہے کہ انھیں کسی نامعلوم جگہ پر دفن کیا گیا ہو، سنوار کی لاش کو محفوظ رکھنا بلاشبہ ایک بہت اہم پریشر کارڈ ہے۔‘

غزہ میں حالیہ جنگ اور پچھلے تنازعات میں اسرائیل اور حماس نے ’دشمن کی لاشیں‘ رکھنے کی پالیسی اپنائی تھی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ایسی سیٹلائٹ تصاویر اور فوٹیج موجود ہیں جن میں مبینہ طور پر اسرائیل کو اپنے مرنے والوں کی لاشوں کی تلاش میں کچھ قبروں سمیت غزہ کی زمین کھودتے ہوئے دیکھا گیا۔

امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے کیے جانے والے سوال کا جواب نہیں دیا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے سیاسی اور سفارتی نامہ نگار ٹل شنائیڈر نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ سنوار کی لاش کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جا رہی۔

انھوں نے مزید کہا کہ غزہ میں پھنسی اسرائیلی لاشوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے پہلے سنوار کی لاش کی قسمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن وہ اس بات کو مسترد کرتے ہیں کہ سنوار کی باقیات کے حوالے کرنے کے اقدام کو کوئی قابل ذکر عوامی حمایت حاصل ہو گی۔

سنوار
Getty Images
ماہرین اس امکان سے انکار نہیں کرتے کہ حماس مستقبل میں سنوار کی لاش کی درخواست کرے گی

لاش کے تحفظ کا یہودی قانون

بی بی سی نے یروشلم لیگل ایڈ اینڈ ہیومن رائٹس سینٹر کے ڈائریکٹر عصام اروری سے بات کی، جو فلسطینیوں کی لاشوں کی بازیابی پر کام کر رہ ہیں۔

عروری کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے لاشوں کی رہائی کے لیے متعدد مقدمے دائر کیے ہیں، جن میں زیادہ تر فلسطینی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے جن کیسز کو نمٹایا، ان میں کچھ عام شہری تھے، باقی عسکریت پسند یا خودکش بمبار تھے۔ مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی لاشیں تھیں، باقی غزہ کی پٹی یا اسرائیل کے اندر سے لاشیں تھیں۔‘

یہ ادارہ حالیہ جنگ سے قبل عدالتی طریقہ کار کے ذریعے قبروں سے 700 سے زائد لاشوں کو نکالنے میں کامیاب ہوا، جن پر کوئی نام نہیں بلکہ صرف نمبر ہیں۔‘

انھوںنے کہا کہ ’یہ ایسا ہی ہے جیسے وہاں پڑا ہوا شخص صرف ایک عدد ہے حالانکہ یہودی قانون لاش کے تحفظ اور اس کی تدفین کے تقدس کے لحاظ سے بہت سخت ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.