سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے؟۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
تمام 5 ججز متفق تھے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا ، جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس محمد علی مظہر نے سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹ سے کتنے لوگ رہا ہوئے؟۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ 105 ملزمان تھے، جن میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 20 کے بعد 19 مزید رہا ہوئے، اس وقت جیلوں میں 66 ملزمان ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکا میں رواج ہے دلائل کے اختتام پر فریقین کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے، کورٹ مارشل کا بھی متبادل ہے۔
ٹو ون ڈی ون کے تحت سویلینز آرمی ایکٹ کے انڈر آتے ہیں یا نہیں؟ عدالت
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جرم کسی نے بھی کیا ہو سزا تو ہونی چاہیے، ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو کیا فرق پڑتا ہے؟۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ٹرائل میں زمین آسمان کا فرق ہے، ایک ٹرائل آزاد ہے دوسرا ملٹری میں ہے، جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو وہاں سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے، 9 مئی واقعات میں کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہو گئے جبکہ درخواستگزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے اپیل کا حق دینے کی قانون سازی کا بتایا گیا تھا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو گی ، سپریم کورٹ
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل ایسی انڈر ٹیکنگ دے سکتے ہیں جو قانون میں نہ ہو، عابد زبیر نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے ہی عدالت میں مؤقف اپنایا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔