دشمن سے ’دو عام پڑوسی‘: بنگلہ دیش کی پاکستان سے بڑھتی قربت اور انڈیا کی ’سلامتی کا مسئلہ‘

کئی دہائیوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد گذشتہ ماہ بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں ممالک نے پہلی بار براہ راست تجارت شروع کی اور اس کے تحت ڈھاکہ نے پاکستان سے 50,000 ٹن چاول درآمد کیا۔

بنگلہ دیش میں گذشتہ سال جو ڈرامائی سیاسی پیش رفت ہوئی اس کے بعد بہت سی انہونیاں سامنے آئی ہیں۔ اس میں پہلے ملک کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ایک لمبی مدت کے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور انھیں انڈیا میں پناہ لینی پڑی۔ اس کے بعد ڈھاکہ کی اپنے ایک وقت کے دشمن پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت دیکھنے میں آ رہی ہے۔

کئی دہائیوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد گذشتہ ماہ دونوں ممالک نے پہلی بار براہ راست تجارت شروع کی اور اس کے تحت ڈھاکہ نے پاکستان سے 50,000 ٹن چاول درآمد کیا۔

ان دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازوں اور فوجی رابطوں کو بھی بحال کیا گیا ہے۔ ویزا کے حصول کو آسان بنایا گیا ہے، اور سکیورٹی کے معاملات پر تعاون کی اطلاعات ہیں۔

ان دونوں ممالک کے درمیان انڈیا خغرافیائی طور پر حائل ہے اور کبھی ایک ہونے کے باوجود ان کے گہرے، دردناک تاریخی تعلقات رہے ہیں۔ ان کے درمیان دشمنی کی ابتدا سنہ 1971 میں اس وقت نظر آتی ہے جب بنگلہ دیش (جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا) نے اسلام آباد سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ انڈیا نے نو ماہ کی جنگ کے دوران بنگالی باغیوں کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے بنگلہ دیش وجود میں آیا۔

اگر چہ اس دور کے زخم کے نشانات گہرے ہیں تاہم ڈھاکہ کے اسلام آباد کے ساتھ سنہ 2001 سے 2006 کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے اور اس وقت ملک میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی کے اتحاد کی حکومت تھی۔

اس رشتہ میں ایک بار پھر تبدیلی سنہ 2009 سے شروع ہونے والے شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور حکومت میں آئی جس دوران شیخ حسینہ کو دہلی کی بھرپور حمایت حاصل رہی اور انھوں نے پاکستان سے دوری برقرار رکھی۔ لیکن جب وہ اپنی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد انڈیا بھاگنے پر مجبور ہوئيں تو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جمی برف پگھلتی نظر آنے لگی ہے۔

بنگلہ دیش نے پاکستان سے چاول برآمد کیا ہے
Getty Images
بنگلہ دیش نے حال ہی میں پاکستان سے چاول برآمد کیا ہے

سابق سینیئر بنگلہ دیشی سفارت کار ہمایوں کبیر کہتے ہیں کہ ’گذشتہ 15 سالوں سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات قدرے مشکل نہج پر تھے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اب تعلقات ’دو عام پڑوسیوں‘ کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

ان کے درمیان ہونے والی پیش رفت پر قریب سے نظر رکھی جارہی ہے، بطور خاص انڈیا میں کیونکہ اس کی پاکستان کے ساتھ دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے۔

شیخ حسینہ کے جانے کے بعد سے ڈھاکہ اور دہلی کے درمیان کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ انڈیا نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے مطالبات پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو ان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کریں۔ شيخ حسینہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔

بعض ماہرین کے خیال میں ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کی بحالی سٹریٹجک پیش رفت ہے۔

پاکستانی ماہر تعلیم اور لندن کے کنگز کالج کی سینیئر فیلو عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اس وقت حکمت عملی پر مبنی تعلقات ہیں۔ وہ ایک ساتھ مل کر انڈیا کے تسلط کو پیچھے دھکیلنے کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘

ان کے درمیان براہ راست تجارت شروع کرنے کے علاوہ دیگر پیش رفت بھی ہوئی ہیں۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے حالیہ مہینوں میں متعدد بار پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے کثیرالجہتی فورمز پر ملاقات کی ہے۔

اور پھر ان دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات پر بھی انڈیا کی نظر ہے۔

بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان 1971 کی جنگ ایک بڑی خلیج ہے
Getty Images
بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان 1971 کی جنگ ایک بڑی خلیج ہے

بنگلہ دیش کے ایک اعلیٰ سطحی فوجی وفد نے جنوری میں پاکستان کا غیر معمولی دورہ کیا اور بااثر آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بات چیت کی۔ بنگلہ دیشی بحریہ نے فروری میں کراچی کے ساحل پر پاکستان کی طرف سے منعقد کی گئی ملٹی نیشنل بحری مشق میں بھی حصہ لیا۔

وینا سیکری سنہ 2003 سے 2006 کے درمیان بنگلہ دیش میں انڈیا کی ہائی کمشنر تھیں۔ انھوں نے ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو 'ڈیجا وو' یعنی دیکھے دیکھے سے لمحہ سے تعبیر کیا۔

انھوں نے کہا کہ ڈھاکہ میں ان کے دور میں انڈیا نے بار بار 'بنگلہ دیش کے اندر انڈین باغیوں کو آئی ایس آئی (پاکستان کی خفیہ ایجنسی) اور بنگلہ دیشی فوج کے ایک حصے کی مدد سے تربیت دیے جانے کے مسئلے کو اٹھایا تھا۔'

انھوں نے کہا کہ ہم نے بنگلہ دیشی حکام کو اس کے شواہد بھی فراہم کیے تھے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکام نے اُس وقت اِن الزامات کی تردید کی تھی۔

انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان طویل اور غیر محفوظ سرحد انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں کے مسلح باغی گروپوں کے لیے بنگلہ دیش سے گزرنے کو نسبتاً آسان بناتی ہے۔ لیکن شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے سنہ 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت نے ان گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور ان کے ٹھکانے ختم کر دیے۔

وینا سیکری نے کہا کہ اسی لیے بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان فوجی تعلقات کی بحالی ’انڈیا کے لیے بڑی سکیورٹی تشویش‘ ہے۔

’یہ صرف فوجی تعلقات نہیں ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ جماعت اسلامی جیسی بنگلہ دیشی اسلام پسند جماعتوں کے ساتھ بھی تعلقات بھی بحال کر رہی ہے، جنھوں نے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران اسلام آباد کی حمایت کی تھی۔‘

بنگلہ دیش میں گذشتہ سال حکومت کے خلاف تحریک نے عوامی لیگ کی حکومت کو ختم کر دیا
Getty Images
بنگلہ دیش میں گذشتہ سال حکومت کے خلاف تحریک نے عوامی لیگ کی حکومت کو ختم کر دیا

یونس انتظامیہ کے پریس آفس نے انڈین میڈیا کی ان خبروں کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سینیئر حکام نے ڈھاکہ کا دورہ کیا ہے۔ اس نے ان رپورٹس کو بھی 'بے بنیاد' قرار دیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی کارکن بنگلہ دیش میں ایک انڈین باغی گروپ کے کیمپ کو دوبارہ کھولنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

پاکستان کی فوج نے بنگلہ دیش میں آئی ایس آئی کے مستقبل کے کردار پر انڈین کے خدشات کے متعلق بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی سیاست دان اس بات سے آگاہ ہیں کہ قریبی اقتصادی اور لسانی تعلقات کے پیش نظر ڈھاکہ انڈیا مخالف موقف اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

دہلی کے خدشات کے باوجود بنگلہ دیشی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک کہ سنہ 1971 کی جنگ سے متعلق مسائل کو حل نہیں کیا جاتا۔

اس جنگ کے دوران لاکھوں بنگالی مارے گئے تھے اور دسیوں ہزار خواتین کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔

جنگ کا اختتام 90,000 سے زیادہ پاکستانی سکیورٹی اور سویلین اہلکاروں کے انڈین اور بنگلہ دیشی افواج کی مشترکہ کمان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے ساتھ ہوا جسے اسلام آباد میں ایک ذلت آمیز باب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش نے جنگ کے دوران ہونے والے مظالم پر پاکستان سے باضابطہ معافی کا مطالبہ کیا ہے لیکن اسلام آباد نے ایسا کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے۔

بنگلہ دیش کے سابق سفارت کار ہمایوں کبیر نے کہا: ’پاکستان کو ان جرائم کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے جو جنگ آزادی کے دوران ہوئے تھے۔

’ہم نے پاکستان کے ساتھ کئی دو طرفہ ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے درمیان 1971 سے پہلے کے اثاثوں کی تقسیم کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔'

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس اور چیف آف آرمی سٹاف
Getty Images
بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس اور چیف آف آرمی سٹاف

یہاں تک کہ اکرام سہگل جیسے سابق پاکستانی فوجی افسران بھی قبول کرتے ہیں کہ 'دوطرفہ تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ بنگلہ دیشیوں کا پاکستان سے تقاضا ہے کہ پاکستانی 1971 میں جو کچھ ہوا اس کے لیے معافی مانگیں۔'

تاہم پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر کا اصرار ہے کہ بنگلہ دیش کو آزادی کی جدوجہد کے دوران اردو بولنے والوں پر بنگالیوں کے حملوں کے معاملے کو بھی حل کرنا چاہیے۔

مسٹر سہگل اب کراچی میں رہتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: 'میں (مشرقی پاکستان میں) اردو بولنے والے بہاریوں کے خلاف ہونے والے مظالم کا گواہ تھا۔'

اگرچہ تاریخی طور پر ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات پر سیاہ بادل نظر آتے ہیں لیکن ماہرین اقتصادیات بتاتے ہیں کہ دونوں ممالک پہلے دو طرفہ تجارت کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، جو اس وقت 700 ملیین امریکی سے کم ہے اور یہ زیادہ تر پاکستان کے حق میں ہے۔

ڈیلاویئر یونیورسٹی میں معاشیات کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سبرین بیگ کہتی ہیں کہ 'پاکستان کی 250 ملین سے زیادہ آبادی بنگلہ دیش کے لیے درمیانی سے طویل مدت کے لیے ایک مستحکم مارکیٹ ہے۔'

وہ بتاتی ہیں کہ فی الحال دونوں طرف سے زیادہ ٹیرف سمیت کئی رکاوٹیں ہیں اور کاروبار اور برآمد کنندگان کو ویزا اور سفری رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ تاہم سبرین بیگ کا کہنا ہے کہ 'بہتر دو طرفہ سیاسی اور تجارتی تعلقات ان رکاوٹوں کو کم کر دیں گے۔'

اپریل میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے ڈھاکہ کے مجوزہ دورے کے دوران ان میں سے کچھ معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔ سال کے آخر تک بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہونے کی توقع ہے اور نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔

لیکن کچھ بھی ہو نئی دہلی کے لیے داؤ پر بہت کچھ ہے۔ انڈین حکومت شدت سے محسوس کرتی ہے کہ ایک مستحکم اور دوستانہ بنگلہ دیش ان کی شمال مشرقی ریاستوں میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.