ان غیرقانونی سینٹرز یا ’ڈبوں‘ میں ہونے والی سرگرمیاں عام کال سینٹرز سے یکسر مختلف ہوتی ہیں اور عموماً انھیں فراڈ اور عوام کو منظم دھوکہ دہی کے ذریعے ان کی جمع پونجی سے محروم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
فائل فوٹو پاکستان کی فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کا کہنا ہے کہ وہ 23 سالہ نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیے جانے والے مرکزی ملزم ارمغان قریشی کے خلاف غیرقانونی کال سینٹر چلانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
کراچی کے رہائشی مصطفیٰ عامر رواں برس کے آغاز پر چھ جنوری کو کراچی کے علاقے ڈیفنس سے لاپتہ ہوئے تھے اور پولیس کے مطابق اُن کی جھلسی ہوئی لاش بلوچستان میں حب کے علاقے دہریجی سے ملی تھی۔ مصطفی کو مبینہ طور پر اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس کیس میں مرکزی ملزم ارمغان فی الحال زیر تفتیش ہیں۔
ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کی ایک تین رُکنی تفتیشی ٹیم نے تین اور چار مارچ کو سندھ پولیس ہیڈ کوارٹر میں ملزم ارمغان سے چار گھنٹوں پر محیط تفتیش کی ہے جس کی تفصیلات قومی اسمبلی کی ایک قائمہ کمیٹی کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ مصطفیٰ کے مبینہ قتل کے علاوہ مرکزی ملزم ارمغان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اپنے گھر سے ایک غیر قانونی کال سینٹر چلا رہے تھے اور قومی اسمبلی کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ سے اس ضمن میں پیشرفت سے متعلق ایک رپورٹ طلب کی تھی۔
ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ میں کیا کہا گیا؟
مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے غیر قانونی کال سینٹر چلانے کا الزام میں اینٹی منی لانڈنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
درج مقدمے کی تفصیلات کے مطابق ارمغان سنہ 2018 سے غیر قانونی کال سینٹر چلا رہے تھے جہاں ہر وقت کم سے کم 25 افراد ہمہ وقت کام کرتے تھے۔
مقدمے میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ’ارمغان کے کال سینٹر سے امریکی شہریوں کی ذاتی معلومات حاصل کر کے انھیں لوٹا جاتا تھا، اور یہاں کام کرنے والوں کو یومیہ پانچ امریکی شہریوں کو ٹارگٹ کرنے کا ٹاسک دیا جاتا تھا۔
’روزانہ کی بنیاد پر ایک فرد 400 سے ہزار ڈالر تک اکاؤنٹ سے چوری کرتا تھا۔‘
مقدمے میں درج تفصیلات کے مطابق ’ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر سے تین سے چار لاکھ ڈالر تک کماتا تھا۔‘
ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کی رپورٹ میں ایف آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم ارمغان نے ابتدائی تفتیش کے دوران اپنے گھر سے کال سینٹر چلانے کا اعتراف کیا۔
تاہم وہ کس فرم یا ادارے کے ساتھ کام کر رہے تھے وہ اس سے متعلق معاہدے فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ وہ اپنے گھر سے چلائے جانے والے کال سینٹر کی کسی بھی ادارے کے ساتھ رجسٹر ہونے کا ریکارڈ یا تفصیلات بھی نہیں پیش کر سکے۔
ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ملزم ارمغان نے بتایا کہ اُن کے اس کال سینٹر پر 40 سے زیادہ ملازمین کام کرتے تھے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملزم نے دو امریکی کمپنیوں کے ساتھ اپنے کال سینٹر کے اشتراک کا دعویٰ تو کیا تاہم وہ مذکورہ کمپنیوں کے ساتھ اس ضمن میں ہونے والے کسی معاہدے کی تفصیلات پیش نہ کر سکے۔
رپورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزم ارمغان نے بتایا کہ وہ ٹرانزیکشن کے لیے کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کا استعمال کرتے تھے اور کال سینٹر کے آپریشنز چلانے کے لیے 120 سے زیادہ لیپ ٹاپ ان کے زیر استعمال تھے۔
فائل فوٹو تاہم مصطفیٰ عامر قتل کیس کے تفتیشی افسر کے مطابق پولیس اب تک ارمغان کی رہائش گاہ سے صرف 64 لیپ ٹاپ ہی برآمد کر سکی ہے۔ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ملزم ارمغان دوران تفتیش یہ بھی واضح انداز میں نہیں بتا سکے کہ ان کے کال سینٹر کے ذریعے کس قسم کا کام اور کاروبار کیا جاتا تھا اور حتیٰ کہ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس کال سینٹر کا رجسٹرڈ نام کیا تھا۔
بی بی سی کے لیے صحافی وکیل الرحمان سے بات کرتے ہوئے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے مرکزی ملزم ارمغان قریشی کے خلاف غیر قانونی کال سینٹر چلانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے اور ملزم سے برآمد ہونے والے موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور ڈیجیٹل آلات کا فارینزک تجزیہ بھی کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ ملزم ارمغان واقعی مبینہ غیرقانونی کال سینٹر چلا رہے تھے یا نہیں تاہم اس ضمن میں سامنے آنے والی تفصیلات کے بعد کال سینٹرز کے اس غیر قانونی کاروبار کا ذکر سامنے آ رہا ہے جسے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آئی ٹی شعبے سے وابستہ حلقے'ڈبہ' یا غیر قانونی کال سینٹر کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے کی ابتدائی تفیش کے علاوہ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار شریک ملزم سید شیراز بخاری عرف شاویز کے پولیس کو دیے گئے ایک بیان میں بھی ان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ ارمغان ڈیفنس میں واقعاپنے گھر میں ایک غیر قانونی کال سینٹر چلا رہے تھے جس میں 30 سے 35 ملازمین کام کرتے تھے۔
درخشاں تھانے کی جانب سے کراچی کی ضلع غربی کی عدالت کو ملزم شیراز کے بیان پر مبنی جمع کروائی گئی رپورٹ میں بھی گھر سے کال سینٹر چلانے اور غیرقانونی سرگرمیوں کی بابت لکھا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ ’ملزم ارمغان تھرڈ پارٹی اکاؤنٹس کے ذریعے ملازمین کو ادائیگی کرتا تھا۔‘
’ارمغان اپنے ملازمین عبدالرحمان اور رحیم بخش کے اکاونٹ کو بھی آپریٹ کرتا تھا۔ ملازمین کے اکاؤنٹس سے رقم کا لین دین کیا جاتا تھا۔‘
’ڈبہ‘ یا غیر قانونی کال سینٹر کیا ہوتے ہیں؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پولیس، ایف آئی اے حکام، اور کال سینٹرز اور سافٹ ویئر ہاؤسز میں کام کرنے والے افراد سے گفتگو کی ہے۔
ایف آئی اے ڈائریکٹر آصف اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایسے کال سینٹرز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جنھیں عام زبان میں ’ڈبہ‘ کہا جاتا ہے اور جن کی وجہ سے پاکستان میں قانونی طور پر کام کرنے والے کال سینٹرز اور سافٹ ویئر ہاوسز کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
آصف اقبال کے بقول ’کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سینکڑوں ڈبہ سینٹرز کام کر رہے ہیں اور اب یہ نیٹ ورک چھوٹے شہروں تک بھی پھیل رہا ہے۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے ایک افسر کے مطابق اس نوعیت کے سیٹ اپ کو ’ڈبہ‘ کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ کراچی کے مختلف علاقوں، خصوصاً ڈیفنس، کلفٹن، شاہراہِ فیصل، گلشنِ اقبال، نرسری اور نیو کراچی میں واقع گھروں اور چھوٹی جگہوں سے چلائے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ غیرقانونی سینٹرز بظاہر تو سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہاں نہ تو سافٹ ویئر تیار کیے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مصنوعات کا لین دین ہوتا ہے جیسا کہ عمومی اور قانونی کال سینٹرز میں ہوتا ہے۔
سائبر کرائم ونگ کے افسر کے مطابق ان غیر قانونی سینٹرز یا ’ڈبوں‘ میں ہونے والی سرگرمیاں عام کال سینٹرز سے یکسر مختلف ہوتی ہیں اور عموماً انھیں فراڈ اور عوام کو منظم دھوکہ دہی کے ذریعے ان کی جمع پونجی سے محروم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ سینٹرز کیسے کام کرتے ہیں؟
کراچی کی ایک مقامی آئی ٹی کمپنی میں کام کرنے والے 26 سالہ فرحان (فرضی نام ) چند ماہ اس قسم کے ’ڈبہ‘ ادارے کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ انھیں ابتدا میں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ جس ’کال سینٹر‘ کو انھوں نے جوائن کیا ہے وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اور جب انھیں یہ سرگرمیاں انجام دینے کے لیے مجبور کیا گیا توانھوں نے یہ نوکری چھوڑ دی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا اس سینٹر پر کام کرنے کا تجربہ کیا تھا، تو انھوں نے بتایا کہ ’دنیا بھر میں صارفین کے کریڈٹ کارڈز کا چوری شدہ ڈیٹا ڈارک ویب سائٹس پر دستیاب ہوتا ہے اور اسی ڈیٹا اور اس سے متعلقہ تفصیلات کی مدد سے غیر قانونی طور پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اور ان کے کریڈٹ کارڈز کی مدد سے آن لائن پے منٹس کی جاتی ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جس ’ڈبہ‘ سینٹر کے ساتھ وہ قلیل عرصے کے لیے منسلک ہوئے تھے وہ اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’کسی صارف کے کریڈٹ کارڈ سے فراڈ کی مدد سے جن اشیا کی آن لائن خریداری کی جاتی ہے انھیں آن لائن مارکیٹ میں عام مارکیٹ کے نرخوں کی نسبت تھوڑےسستے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بعض اوقات بالکل ایمازون کے اصل طریقے کے ہوبہو لگتا ہے۔‘
فرحان کے مطابق جس سینٹر کے ساتھ وہ منسلک تھے وہاں بالکل عام کال سینٹرز کی طرح کام ہوتا ہے جس میں باقاعدہ کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ سے مدد لی جاتی تھی اور اس کا باقاعدہ سیکشن تھا۔
فائل فوٹو یاد رہے کہ کال سینٹرز میں کسٹمر ریلیشن شپ مینجمنٹ یعنی سی آر ایم ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے کمپنیاں اپنے ممکنہ گاہکوں کو مصنوعات اور خدمات کی فراہمی کے لیے رابطے کرتی ہیں۔
اس نظام کے تحت صارفین کی تفصیلات اکٹھی کی جاتی ہیں اور یہ ڈیٹا پھر مختلف پلیٹ فارمز کو فروخت کیا جاتا ہے جس میں بعض اوقات اس نوعیت کی تفصیلات بھی شامل ہو سکتی ہیں جیسا کہ ممکنہ صارف کا نام، عمر، رابطہ نمبر، ان کی حالیہ خریداری کی ہسٹری، کمیونیکشن ہسٹری اور سوشل میڈیا کی مصروفیات اور دلچسپی وغیرہ۔
فرحان کا دعویٰ ہے کہ جس ڈبہ سینٹر کے ساتھ وہ منسلک تھے وہاں سی آر ایم کے اِسی ڈیٹا کو استعمال کیا جاتا ہے اور صارفین کو کال کر کے شکار بنایا جاتا تھا اورمختلف بہانوں سے اُن کے کارڈز اور دیگر تفصیلات حاصل کی جاتی تھیں اور پھر انھیں رقوم سے محروم کیا جاتا تھا۔
فرحان کا دعویٰ ہے کہ بعض جگہوں پر سی آر ایم کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے وہ صرف کسٹمرز کو سستی مصنوعات یا خدمات کا لالچ دے کر پے منٹ لے لیتے ہیں لیکن ڈیلوری نہیں کی جاتی اور اس کے بعد صارف سے رابطہ منقطع کر دیا جاتا ہے۔
ایک سافٹ ویئر کمپنی سے وابستہ آئی ٹی انجینئر رضوان کے مطابق بھی اُن کے کئی جونیئر ساتھی قانونی کام چھوڑ کر ان ’ڈبہ سینٹرز‘ سے منسلک ہوئے۔
ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ سے منسلک ایک افسر کے مطابق ان سینٹرز میں بیٹھ کر ناصرف پاکستانیوں بلکہ امریکہ اور مختلف یورپی ممالک کے کسٹمرز کو بھی شکار کیا جاتا ہے۔
’انھیں بالکل صاف انگریزی لہجے میں لڑکے اور لڑکیاں کال کرتی ہیں اور ان کالز کے لیے بین الاقوامی سمز کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘
’ڈبہ سینٹرز‘ اور بین الاقوامی جرائم کا گٹھ جوڑ
ایف آئی اے سائبر کرائم صوبہ سندھ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر ایسے غیرقانونی کال سینٹر کو ڈبہ قرار دیتے ہیں جو ان کے مطابق بنیادی پر آن لائن سکیمنگ کا کارخانہ ہوتے ہیں۔
ان کا الزام ہے کہ اس خطے میں ایسی غیرقانونی سرگرمیوں کا مرکز انڈیا ہے جہاں بڑی تعداد میں غیرقانونی کال سینٹرز چلائے جارہے ہیں۔
شہزاد حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے دوران انڈیا کی طرز پر غیر قانونی کال سینٹرز (ڈبہ) کی نشونما ہوئی ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے ڈبہ کال سینٹرز کا مرکزی ہدف امریکی مارکیٹ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انڈیا اور پاکستان میں کام کرنے والے غیر قانونی کال سینٹرز مختلف طریقوں سے امریکی شہریوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔
شہزاد حیدر کے مطابق غیرقانونی کال سینٹر سروسز یا کسی پروڈکٹ کو فروخت کرنے کے عوض امریکی شہریوں کے کریڈیٹ کارڈ چارج کرتے ہیں اور پھر اس رقم کو کرپٹو کرنسی میں تبدیل کر دیتے ہیں اور پاکستان منتقل کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غیرقانونی کال سینٹرز نہ صرف امریکی شہریوں سے جعل سازی میں ملوث ہیں بلکہ اس کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے والے قانونی کال سینٹرز کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شہزاد حیدر نے بتایا کہ امریکی شہری عمومی طور پر اپنے ساتھ ہونے والے آن لائن فراڈ کی شکایت اپنے بینک سے کرتے ہیں جو انشورنس کمپنی کے ذریعہ ان کی رقم کی واپسی کر دیتے ہیں اور اکثر یہ معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں تک نہیں پہنچ پاتا۔
تاہم ان کے مطابق آن لائن سکیمنگ کی سرگرمیوں میں اضافہ کے بعد اب امریکی بینک اور انشورنس کمپنیوں کی جانب سے ایف آئی اے سائبر کرائم کو شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں ’ڈبہ سینٹر‘ کیوں موجود ہیں اور انھیں روکا کیوں نہیں جا رہا؟
ایف آئی اے ڈائریکٹر آصف اقبال چوہدریکا کہنا ہے کہ برطانیہ سمیت کئی ممالک میں موجود پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس بھی ان سرگرمیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی معمولی کمیشن کے عوض اپنے بینک اکاؤنٹس استعمال کرواتے ہیں، لیکن انھیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ خود قانونی مشکلات میں پھنس سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل سرگرمیوں، جیسے فری لانسنگ، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور دیگر آئی ٹی خدمات کو مکمل قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے، اسی کے باعث غیر قانونی کاروبار پھل پھول رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر حکومت ڈیجیٹل معیشت کو باقاعدہ قانونی تحفظ فراہم کرے اور عوام میں آگاہی مہم چلائے، تو ان منفی سرگرمیوں کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔‘
ان کے مطابق ان ’ڈبہ سینٹرز‘ کی سرگرمیوں سے پاکستان کی معیشت کو براہ راست نقصان نہیں پہنچ رہا کیونکہ یہ تمام کام بیرون ملک موجود صارفین کو نشانہ بنا کر کیا جاتا ہے۔
’یہ سینٹرز خود کو ان ہی ممالک میں موجود ظاہر کرتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو مختلف طریقوں سے لوٹتے ہیں۔‘
تاہم اُن کا کہنا ہے کہ ’ایک جانب بین الاقوامی سطح پر ان جرائم کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی ہورہی ہے جبکہ دوسری جانب ملک میں کروڑوں روپوں کی غیر قانونی دولت کی آمدورفت اور ان سرگرمیوں کے نتیجے میں نوجوان نسل برباد ہو رہی ہے۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائم صوبہ سندھ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے تمام کال سینٹرز غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیم کال سینٹرز کا دورہ کرتی ہے اور کسی غیر ملکی کمپنی کو سروسز فراہم کرنے کا تحریری معاہدہ، کریڈیٹ چارج کرنے والی مشین اور دیگر ٹولز یعنی آلات کا معائنہ کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر وہ تمام چیزیں فراہم کر دیں تو ہم ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
شہزاد حیدر کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم نے اس سلسلے میں اپنی کارروائیاں تیز کردی ہیں اور گذشتہ کچھ عرصے کے دوران کراچی میں چارغیرقانونی کال سینٹرز(ڈبہ) کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں غیر ملکی سمز لانے والے کئی افراد گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔
26 فروری کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پی ٹی اے کے زونل آفس راولپنڈی نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سائبر کرائم ونگ کے ساتھ مل کر لاہور کینٹ کے گلشن علی کالونی میں غیر قانونی طور پر فروخت ہونے والی غیر ملکی پری ایکٹیویٹڈ سمز برآمد کروائی تھیں۔
اس سے قبل 20 فروری کو ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی سمز فروخت کرنے والوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا جس کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے مشترکہ کارروائیاں کرتے ہوئے مختلف شہروں میں چھاپے مارے، جن کے نتیجے میں ہزاروں غیر قانونی طور پر فعال بین الاقوامی سمیں برآمد کی گئیں۔