بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
٭٭
صدیوں پرانی بات ہے کہ بغداد میں دونوجوان آپس میں بات کرتے کرتے بحث کرنے
اور پھر لڑنے جھگڑنے لگے‘ جن میں ایک عیسائی تھا اوردوسرامسلمان…… عیسائی
کا کہنا تھا کہ ہمارے نبی عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کو سب سے زیادہ عزیز تھے
اسی لیے باری تعالیٰ نے انہیں بچاتے ہوئے نہ صرف آسمانوں پر اُٹھالیا بلکہ
وہ ایک بار پھر زمین پر اُتارے جائیں گے اور ہمارے نبی عیسیٰ علیہ السلام
کی یہ شان ہے کہ وہ مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتے تھے اور
اُن کا ذکرتم مسلمانوں کے قرآن میں بھی سب سے زیادہ آیا ہے…… یہ ساری باتیں
سننے کے بعد مسلمان نوجوان نے کہا کہ یہ سب ٹھیک ہے مگر ہمارے نبی حضرت
محمد مصطفی ﷺ اﷲ تبارک وتعالیٰ کے نہ صرف محبوب ہیں بلکہ خالق کائنات نے یہ
ساری دنیا اپنے حبیب ﷺ کی وجہ سے ہی تخلیق کی اور انہیں رحمۃ للعالمین بنا
کر بھیجا گیا اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے نبی ﷺ اﷲ کو سب سے زیادہ عزیزو
محبوب ہیں……
ابھی یہ دونوں بحث و مباحثے میں مصروف ہی تھے کہ ایک بزرگ کا وہاں سے گزر
ہوا ‘دونوں نوجوانوں کو اس طرح بحث کرتا دیکھ کر فرمایا کہ کیا بات ہے‘
مجھے بھی بتاؤ ،شایدمیں تم لوگوں کا مسئلہ حل کردوں! جب ان نوجوانوں نے
ساری بات ان بزرگ کو بتائی تو ان بزرگ نے فرمایاکہ اچھا ذرا میرے ساتھ چلو‘
اورپھر وہ بزرگ ان دونوں کو وہاں سے ایک انجان قبرستان میں لے گئے اور
عیسائی نوجوان سے فرمایا کہ تم بتاؤ اس قبرستان میں موجود کس قبر کے مردے
کو دوبارہ اُٹھا کر تمہارے سامنے کھڑا کردوں! بزرگ کی یہ بات سن کرعیسائی
نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا‘ ارے جناب !آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کہہ رہے
ہیں؟ ان بزرگ نے فرمایا‘ ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، تم بتاؤ تو سہی کس قبر کے
مردے کو دوبارہ اُٹھا کر تمہارے سامنے کھڑا کردوں! ……اس نوجوان نے ایک قبر
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اچھا اس قبر میں موجود مردے کو اُٹھا کر
دکھا ئیں…… ان بزرگ نے اس قبر کی طرف بغور دیکھتے ہوئے فرمایا ‘ٹھیک ہے میں
تجھے یہ بھی بتاتا ہوں کہ یہ دنیا میں گلوکاری کرتا تھا اب اگر تو کہے تو
اسے گاتے ہوئے اُٹھا دوں!نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا‘ چلیں ایسا کر
دیں……نوجوان کے کہنے کی دیر تھی کہ ان بزرگ نے جیسے ہی اس قبر کی طرف اشارہ
کیا‘ زمین پھٹتی چلی گئی اور اس قبر سے مردہ کچھ گاتے ہوئے اُٹھ کر باہر
آگیا…… جب یہ غیر متوقع منظر ان نوجوانوں نے دیکھا تو بے ہوش ہوکر گر پڑے
……پھرجب ہوش آیا تو وہ بزرگ وہاں سے جا چکے تھے، دونوں نے عہد کیا کہ ان
بزرگ کو ڈھونڈیں گے ضرور، چنانچہ ان کی تلاش میں نکل پڑے،ان کی طلب صادق
تھی، اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ دن بعد انہیں وہ بزرگ ایک جگہ نظر آگئے تو
عیسائی نوجوان نے لپک کر پکڑ لیا اور عرض کیا‘ آخر آپ کون ہیں اور یہ سب
کچھ کیا تھا جو آپ نے کیا؟ بزرگ نے فرمایا کہ تم سے دوسرے مسلمان نوجوان نے
اپنے جس رحمۃ للعالمین نبی ﷺ کا ذکر کیا تھا میں ان کا ایک ادنیٰ سا غلام
اُمتی ہوں، جب اس نبی ﷺ کامیں ایک معمولی غلام ہوکر مردے کو زندہ کرسکتا
ہوں توتم خود غور کرو کہ میرے آقا کی کیا شان ہوگی اور اﷲ نے اپنے حبیبﷺ کو
کیا کیا معجزات سے نوازا نہ ہوگا! ……وہ عیسائی نوجوان بزرگ کی باتیں سن کر
اتنا متاثر ہوا کہ اسی وقت ان کے ہاتھ پر توبہ کر کے مسلمان ہوگیا…… جب
بزرگ جانے لگے توان نوجوانوں نے ان کا ہاتھ تھام کر عرض کیا کہ جناب! آپ کا
اسم گرامی کیا ہے؟ بزرگ نے فرمایا‘ میرا نام عبدالقادرہے۔یہ سن کر نوجوان
پکار اُٹھے بے شک آپ محی الدین اور غوث اعظم ہیں …… اﷲ اکبر
جو تو چاہے کرے، قدرت ہے تیری
تجھے حق سے یہ حق حاصل ہے یا غوث
(خوشترؔ)
مُرَجِّح و مَرْجَعِ عالم ‘ غوث اعظم ‘حضرت شیخ عبد القادر جیلانی نوراﷲ
تعالیٰ مرقدہ یکم رمضان المبارک ۴۷۰ھ /۱۰۷۵ ء بر وز جمعۃ المبارک علاقہ
طبر ستان کے قصبہ ’’ گیل ‘‘ کے محلہ نیف میں پیدا ہوئے…… ’’گیل ‘‘وہ قصبہ
ہے جسے بعد میں ’’ گیلان ‘‘ کہا جانے لگا، اہل عرب اپنے حروف تہجی کے
اعتبار سے اسے ’’ جیلان ‘‘کہا کرتے ہیں‘کیونکہ یہ جگہ عجمی علاقے میں واقع
ہے…… اسی علاقہ کی نسبت سے آپ کے نام کے ساتھ عجمی ’’گیلانی ‘‘ اور اہل عرب
’’جیلانی ‘‘ لکھا کرتے ہیں…… آپ نے ۱۱ ؍ربیع الثانی ۵۶۱ھ کو بغداد شریف
،عراق میں وصال فرمایا‘جہاں آج بھی آپ کی ذات اقدس اور آپ کا مزار پُر
انوار مُرَجِّح و مَرْجَعِ عالم ہے۔
آپ نجیب الطرفین ہیں،یعنی والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی
جانب سے حسنی…… والد ماجد کا اسم گرامی سید ابو صالح اور والدہ کا اسم
گرامی اُم الخیر فاطمہ بنت ابو عبداﷲ صومعی الحسینی تھا……یہ بات نہایت
مشہور و معروف تھی کہ آپ ایام رضاعت میں ماہِ رمضان کے احترام میں دن کے
وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا کرتے تھے جو کہ آپ کے مادر زاد ولی
ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
ایام شباب میں ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ
ولی اﷲ ہیں؟ فرمایا‘ میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھتا کہ
فرشتے میرے ساتھ چل رہے ہیں، پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے
بچوں سے کہتے کہ اﷲ کے ولی کے لیے جگہ دو …… اور فرمایا‘ ایک دن مجھے ایک
ایسا شخص نظر آیا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے ایک فرشتہ سے
پوچھا کہ یہ کون لڑکا ہے جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس فرشتہ نے جواب دیا
کہ’’ یہ اﷲ کا ولی ہے جو بڑے مرتبے کا مالک ہوگا، راہِ طریقت میں یہ وہ
شخصیت ہے جسے بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جارہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے
تمکین و قرار عنایت ہو رہا ہے اور بغیر کسی حجت کے تقربِ الٰہی مل رہا
ہے‘‘…… جب میں چالیس سال کی عمر میں پہنچا تو میں نے پہچان لیا کہ وہ
پوچھنے والا شخص اپنے وقت کے ایک ابدال تھے۔
آپ علوم ظاہری و باطنی کے ایک متبحر عالم فاضل تھے…… ایک دن آپ کی مجلس میں
ایک قاری نے قرآن کریم سے ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس کی تفسیر بیان کرنا
شروع کردی، پہلے ایک تفسیر‘ پھر دوسری اور پھر تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے
علم کے مطابق اس ایک آیت کی گیارہ تفاسیر بیان فرمادیں پھراس کی چالیس وجوہ
بیان کیں اور ہر معنی اور تفسیر کی علیحدہ علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس
طرح بیان کی کہ حاضرین دم بخود رہ گئے…… آپ علمائے بغداد ہی نہیں دنیا کے
تمام طلب گارانِ حال و قال کے مرجع تھے، دنیا بھر سے آپ کے پاس استفتاء آیا
کرتے جن پر فوراً بغیر مطالعہ کتب اور غور و فکرکیے جواب لکھتے اور روانہ
فرما دیتے۔فقہ میں مہارت و کمال کا یہ عالم تھا کہ کسی بڑے سے بڑے حاذق
فاضل عالم کو آپ کے جواب سے اختلاف کی طاقت نہ تھی۔
آپ کا طریقہء سلوب بے انتہاء مشکل اور بے نظیر تھا، آپ کے کسی ہمعصر میں
اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت و مجاہدہ میں آپ کی ہمسری کرسکے…… آپ کا
قاعدہ تھا کہ اپنے ہر عضو کو اس کی طاقت کے موافق عبادت میں سپرد کردیا
کرتے ……غائب و حاضر دونوں حالتوں میں نفس کی صفات کو علیحدہ کرکے نفع و
نقصان اور دور ونزدیک کا فرق مٹادیا کرتے…… کتاب و سنت کی پیروی میں مطابقت
ایسی تھی کہ آپ ہر حالت میں ہر وقت اتباع سنت اور حضور قلب کے ساتھ توحید
الٰہی میں مشغول رہتے۔
آپ نہایت پاکیزہ اور خوش اخلاق تھے، اپنی ظاہری شان و شوکت اور وسیع علم و
فضل کے باوجود کمزوروں اور ضعیفوں میں بیٹھتے، فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش
آتے، بڑوں کی عزت کرتے اور چھوٹوں پر شفقت و مہربانی فرماتے، سلام کرنے میں
پہل کرتے …… مہمانوں اور طالب علموں کی مجالس میں نشست و برخاست کرتے اور
ان کی لغزشوں سے درگزر فرماتے، جو کوئی آپ کے سامنے کتنی ہی جھوٹی قسم کیوں
نہ کھاتا‘ آپ جاننے کے باوجود اس کا یقین کرلیتے اور اپنے علم و کشف کو اس
پر ظاہر نہ فرماتے،حتیٰ کہ وہ خود شرمندہ ہوکر تائب ہو جاتا…… مہمانوں اور
ہم نشینوں کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت بہت خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش
آتے، ہاں! سرکشوں، ظالموں، مالداروں ، فاسقوں اور اﷲ کے نافرمانوں کی تعظیم
کے لیے کھڑے نہ ہوتے، کسی امیر و وزیر کے گھرجانا پسند نہ فرماتے، کسی ہم
عصر کو آپ جیسا حسن خلق اور کرمِ نفس نہ ملا۔
تاریخ و تصوف کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ فرمایاکرتے تھے کہ قیامت تک میں
اپنے تمام مریدوں کا ضامن ہوں کہ ان کی موت توبہ پر واقع ہوگی یعنی میرا
کوئی مرید بغیر توبہ نہ مرے گا……ایک مرتبہ بعض مشایخ نے آپ سے پوچھا کہ اگر
کوئی شخص آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور نہ ہی اس نے آپ کے ہاتھ سے خرقہ
پہنا ہو ، بلکہ صرف آپ کا ارادتمند ہو اور آپ کی محبت میں خود کو آپ کی طرف
منسوب کرتا ہو تو کیا ایسے شخص کو بھی آپ کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا
اور کیا ایسا شخص بھی ان فضیلتوں میں شریک ہوگا جو آپ کے مریدوں کو حاصل
ہونگی؟ آپ نے فرمایا ‘ہاں جس شخص نے اپنے آپ کو میری طرف منسوب کیا اور مجھ
سے ارادت و عقیدت رکھی تو اﷲ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا، اس پر اپنی رحمتیں
نازل کرے گا اور اس کو توبہ کی توفیق دے گا اگرچہ اس کے طریق مکروہ ہوں،
اور ایسے شخص کا شمار میرے مریدوں اور اصحاب میں ہی ہے……پھر فرمایا‘ اﷲ
تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے صدقہ وعدہ کیا ہے کہ میرے دوستوں ، میرے اہل
مذہب، میری راہ پر چلنے والے ،میرے مریدوں اور مجھ سے محبت کرنے والوں کو
جنت عطا فرمائے گا۔
مریدی لا تخف کہہ کر تسلی دی غلاموں کو
قیامت تک رہے بے خوف بندہ غوث اعظم کا
فرشتو! روکتے کیوں ہو مجھے جنت میں جانے سے
لو دیکھو ہاتھ میں دامن ہے کس کا‘ غوث اعظم کا
آپ فرماتے ہیں کہ جو کسی تکلیف میں مجھ سے امداد چاہے یا مجھے آواز دے اور
پکارے‘ اس کی تکلیف دور کی جائے گی ، جو کوئی میرے وسیلہ سے اﷲ تعالیٰ سے
مانگے اس کی ضرورت پوری کی جائے گی اور جو کوئی دو رکعت نماز اس طرح پڑھے
کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے، دونوں
رکعتیں ختم کرکے سلام پھیرنے کے بعدحضور اکرم ﷺ پر درود شریف پڑھے اور
بغداد کی جانب گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی مراد اﷲ تعالیٰ سے
مانگے تو اﷲ تعالیٰ اس کی مراد اپنے فضل و کرم سے ضرور پوری فرمادے گا۔
تو جسے چاہے دے جس قدر چاہے دے
تیری بخشش نرالی عطا بے نظیر
آپ فرماتے ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں عجمی ہونے کے سبب اہل عرب کے سامنے
زبان کھولنے سے کتراتا تھا توحضور اکرم ﷺ اور سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم
اﷲ وجہہ الکریم کو خواب میں دیکھا‘ انہوں نے مجھے وعظ کرنے کا حکم دیا‘ جب
میں نے یہ عذر پیش کیا تو انہوں نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ٹپکادیا ‘
بس پھر کیا تھا مجھ پر ابواب سخن کھلتے چلے گئے……جب آپ وعظ کے لیے منبر پر
بیٹھتے تو پہلے الحمد ﷲ کہتے تاکہ اﷲ کا ہر ولی جو غائب ہو یا حاضر‘ خاموش
ہوجائے اور پھر دوسری مرتبہ الحمد ﷲ کہتے اور دونوں کے درمیان تھوڑی دیر
سکوت فرماتے، اس عرصہ میں فرشتے اور تمام اولیاء اﷲ آپ کی مجلس میں حاضر
ہوجایا کرتے…… آپ کی مجلس وعظ کا یہ عالم ہوتا کہ جتنے لوگ دکھائی دیتے ان
سے زیادہ نظر نہ آنے والی مخلوق ہوا کرتی تھی …… چنانچہ آپ کے ہم عصر ایک
بزرگ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنی عادت کے موافق جنات کی حاضری کے لیے
عزیمت پڑھی لیکن کوئی جن حاضر نہ ہوا، میں بہت دیر تک عزیمت پڑھتا رہا،
حیران ہوا کہ جنات کی حاضری کیوں نہیں ہورہی ہے،پھر تھوڑی دیر بعد کچھ جن
حاضر ہوئے ‘ میں نے ان سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ حضرت
شیخ عبدالقادر جیلانی وعظ فرمارہے تھے اور ہم سب وہاں حاضر تھے، آپ آئندہ
ہم کو اس وقت طلب کیا کریں جب کہ شیخ عبدالقادر جیلانی وعظ نہ فرمارہے ہوں
ورنہ ہماری حاضری میں تاخیر ہوگی،ان بزرگ نے پوچھا کیاتم لوگ حضرت غوث اعظم
کے وعظ میں حاضر ہوتے ہو؟ اس پر جنات نے جواب دیا کہ ہاں‘ حضرت غوث اعظم کی
مجلس میں انسانوں کی نسبت ہماری تعداد زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ہم جنات میں سے
اکثر قبائل حضرت غوث اعظم کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں ، آپ کی مجلس وعظ میں
اولیائے عظام اور انبیائے کرام بھی شریک ہوتے ہیں اور خود محبوب رب
العالمین اﷺبھی تربیت و تائید کے لیے تشریف لایا کرتے ہیں اور حضرت خضر
علیہ السلام بھی شریک ہوتے ہیں۔
نبی اس میں ہیں خود سرکار بھی ہیں
تری محفل تو وہ محفل ہے یا غوث
(خوشترؔ)
آپ کے بیان و کلام میں ایک پُر اثر برقی تیز ی تھی جو سامعین کے قلوب میں
خوف کے ساتھ ساتھ لذت بھی پیدا کردیتی تھی …… جب آپ خطاب فرماتے تو دور ان
وعظ پورا مجمع ہمہ تن گوش ہوکر سنتا ……آپ کی آوازِ حق‘ اﷲ اکبر! دور و
نزدیک سب سامعین کو آپ کی آواز بر ابر پہنچتی تھی ، لاکھوں کے مجمع میں ہر
شخص آپ کی آواز کو ایسے سنتا کہ گویا آپ اسی سے مخاطب ہیں ……دورانِ وعظ‘
احادیث مبارکہ کے عجب عجب معانی ومطالب بیان کرتے اور ایسے ایسے اسرار و
معارف حاضرین کے سامنے واکرتے کہ سننے والے مرحبا مرحبا کہتے شسدر رہ جاتے
…… حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ آپ کے کلام اور اس کی اثر
آفرینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
’’آپ کے کلا م معجز بیان میں اس قدر تاثیر تھی کہ جب آیاتِ وعید کے معانی
ومطالب کو بیان فرماتے تو سامعین پر لرزہ طاری ہوجاتا‘ ان کے چہروں کی رنگت
فق ہوجاتی، پر وردگار عالم کے خوف سے رونے والوں کی یہ حالت ہوجاتی کہ ان
پر بے ہوشی طاری ہوجاتی ، اور جب اﷲ کی رحمت اور فضل وکرم کا ذکر فرماتے تو
لوگوں کے دل باغ باغ ہو جاتے۔اکثرسامعین آپ کے کلام کے حسن ِبیان سے مست
ہوجاتے اور بعض تو واصل ِحق ہو جاتے تھے ‘‘۔
آپ کی مجلس و عظ میں علم و حکمت کے بے شمار دریا رواں رہتے جنہیں محفوظ
کرنے کے لیے چار چار سوعلماء و اولیاء قلم دوات لیے آپ کے قدموں میں بیٹھتے
‘ جو کچھ سنتے ،لکھ لیتے اور بعد میں اس کی نقول تیار کر کے دوسروں کو
پہنچائی جاتیں…… آپ کے وعظ و کلام کا عالم‘ اﷲ اکبر! جو غیر مسلم بھی سن
لیتا ، اُسے اسلام قبول کیے بنا چارہ نہ ہوتا……آپ کے دست حق پرست پر ہزاروں
یہود ونصارٰی نے اسلا م قبول کیا اور بے شمار فاسق وفاجر لوگ آپ کے ہاتھ پر
توبہ کر کے راہِ راست پر آگئے ۔ |