(۱)بیماری اور اسلام :
بیماری اﷲ تعالی کی طرف سے مومن کے لئے آزمائش ہے ،اس پر صبر کرنے والا اجر
کا مستحق ہوتاہے،یہ درجات کی بلندی اور گناہوں کی تلافی کا سبب ہے۔ جائز
طریقے سے علاج کرنا توحید وتوکل کے منافی نہیں ہے تاہم دوا کو بذات خود
نافع نہ سمجھے بلکہ شفا اﷲ کی طرف سے ہے اس پر ایمان رکھے ۔ ایک مسلمان کا
دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ مریض کی عیادت کرے ، اسے بھروسہ دلائے اور صبر
وثبات کی تلقین کرے ۔ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلَّی اﷲُ علیْہِ وسلَّمَ کو
بیماری لاحق ہوئی اور آپ اسی بیماری میں وفات پاگئے۔
لمَّا مرضَ رسولُ اللَّہِ صلَّی اﷲُ علیْہِ وسلَّمَ مرضَہُ الَّذی ماتَ
فیہِ( صحیح ابن ماجہ:1027)
بیماری میں وفات پانا خاتمہ بالخیر کی علامت ہے اور ایسے شخص کے لئے نبی ?
کی بشارت ہے :
إذا أرادَ اللَّہُ بعبدِہ الخیرَ عجَّلَ لَہ العقوبۃَ فی الدُّنیا ، وإذَا
أرادَ اللَّہُ بعبدِہ الشَّرَّ أمسَک عنہُ بذنبِہ حتَّی یوافیَ بِہ یومَ
القیامۃ(صحیح الترمذی: ۲۳۹۶))
ترجمہ: جب اﷲ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے
دنیا ہی میں جلدسزادے دیتا ہے ، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ برائی کا
ارادہ کرتاہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے
دن اسے پوری پوری سزاد یتاہے۔
(۲)موت کی تمنا کرنا:
انسان کے لئے زندگی میں کبھی ایسا موڑ آتا ہے کہ شدید مصیبت یا سخت فتنہ کی
تاب نہ لاکر موت کی تمنا کرنے لگتا ہے یا بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں ۔
اسلام نے ہمیں عموماموت کی تمنا کرنیاورخصوصا ہلاکت کا راستہ اختیار کرنے
سے منع کیا ہے ۔ ایسے حالات کو تقدیر کا حصہ سمجھنا، کثرت سے توبہ واستغفار
کرنااور صبر کا دامن تھامنا مومن کا شیوہ ہونا چاہئے ۔ فتنہ اگر شدید ترین
ہویا مصیبت کی شدت حد سے بڑھ جائے تو اﷲ سے موت کی دعا کرسکتے ہیں مگرخود
سے ہلاکت کا کوئی راستہ اختیار نہیں کرسکتے ۔ فتنیکی شدت کے وقت کی یہ دعا
پڑھیں :
وإذا أردتَ فتنۃً فی قومٍ فتوفَّنی غیرَ مفتونٍ(صحیح الترمذی:3235)
ترجمہ : اے اﷲ اگر تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرے تو مجھے بغیر آزمائے ہوئے
وفات دیدے۔
یایہ دعا کریں: اللَّہمَّ أحینی ما کانتِ الحیاۃُ خیرًا لی ، وتوفَّنی إذا
کانتِ الوفاۃُ خیرًا لی(صحیح البخاری ::6351)
ترجمہ:اے اﷲ ! جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھیو اور جب میرے
لئے موت بہتر ہوتو مجھے اٹھالیجیو۔
(۳)وفات سے پہلے وصیت :
اگر کسی کو لگے کہ اس کی موت کا وقت قریب ہے تو دو گواہوں کی موجودگی میں
وصیت لکھ دے اور کسی امانتدار کے پاس رکھ دے۔اﷲ کا فرمان ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ
أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّۃِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ
أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ (المائدۃ:106)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ
تم میں سے کسی کوموت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو ،وہ دو شخص ایسے ہوں
کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیرلوگوں میں سے ۔
ایک طرف حقوق وواجبات اور مال وجائیداد کی وصیت لکھ دے تو دوسری طرف اولاد
اور اعزاء واقارب کو رب کی بندگی کرنے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے،
شرک وبدعت سے پرہیز کرنے اور کتاب وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی وصیت کرے
۔ اگر یہ یقین ہے کہ وفات کے بعد اس کی اولاد یا اہل خانہ اس کے حق میں
شرکیہ اعمال انجام دیں گے تو لازما اس شرک سے بچنے اور سنت کے مطابق
تجہیزوتکفین کرنیکی وصیت کرے ۔ اسی طرح اگر میت کے پاس زیادہ مال ہو تو
تہائی مال تک اﷲ کی راہ میں صدقہ کرنے کی وصیت کرسکتا ہے ۔ وصیت میں کسی کو
عاق کرنا ، کسی پر ظلم کرنا ، تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا اور کسی وارث
کے لئے مال کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔
(۴)قریب المرگ کے احکام :
جب کسی مسلمان کی وفات کا وقت قریب ہو اور سکرات الموت طاری ہو تو ہمیں
چاہئے کہ اس کے قریب بیٹھ کر نرمی سے لاالہ الا اﷲ کی تقلین کریں تاکہ اس
کا خاتمہ بالخیر ہواور اس کا چہرہ قبلہ رخ کردیا جائے۔ نبی ﷺکا فرمان ہے :
لقنوا موتاکم لا الہ الا اﷲ.(صحیح مسلم: 916)
ترجمہ: اپنے قریب الموت کو لا الہ الا اﷲ کی تلقین کرو۔
لاالہ الااﷲ کی تلقین کی وجہ یہ ہے کہ اسی کلمے پہ آخرت میں نجات کا
دارومدار ہے ۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ سیروایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:
من کانَ آخرُ کلامِہِ لا إلَہَ إلَّا اللَّہُ دَخلَ الجنَّۃَ(صحیح ابوداؤد:
3116)
ترجمہ : جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااﷲ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
بعض لوگ قریب المرگ کے پاس سورہ یسین پڑھتے ہیں مگر اس بابت وارد حدیث ضعیف
ہے تاہم بغیر تخصیص کے قرآن کی تلاوت کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ممکن
ہے آیات قرآنیہ سے ایمانی طور پر مستفید ہو۔ وفات کے بعد قرآن کی تلاوت
نہیں کی جائے گی ۔
(۵)روح نکلنے کے بعد کے احکام:
٭وفات کے فورا بعد میت کی آنکھیں بند کردینا چاہئے اور وہاں صرف خیر کی
باتیں کرنی چاہئے ، نبی ﷺکا فرمان ہے :
إذا حضرتُمْ موتاکُم فأغمِضوا البصرَ فإنَّ البصرَ یتبعُ الرُّوحَ وقولوا
خیرًا فإنَّ الملائِکَۃَ تؤمِّنُ علَی ما قالَ أہْلُ البیتِ(صحیح ابن
ماجہ:1199)
ترجمہ: جب تم فوت ہونے والے کے پاس موجود ہو تو اس کی آنکھیں بند
کردوکیونکہ نظر روح کے پیچھے ہوتی ہے اور تم (میت کے پاس) خیروبھلائی کی
بات کرو کیونکہ فرشتیاہل خانہ کی بات پر آمین کہتے ہیں ۔
٭اسی طرح کسی چادر سے اسے ڈھک بھی دینا چاہئے ۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا
بیان ہے :
سُجِیَ رسولُ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہِ وسلَّمَ حین مات بثوبٍ حبرۃٍ(صحیح
مسلم:942)
ترجمہ: جب رسول اﷲ ﷺکی وفات ہوئی تو آپ کو ایک یمنی چادر سے ڈھک دیا گیا۔
٭ اس کے دونوں جبڑوں کو اوپر سے باندھ دیا جائیاورجوڑوں کو آہستہ آہستہ نرم
کیا جائے اور پیٹ پر وزنی کوئی چیز رکھ دی جائے ۔
٭ میت کے قرض کی ادائیگی کریں کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
نَفسُ المؤمنِ معلَّقۃٌ بدَینِہ حتَّی یُقضَی عنہُ( صحیح الترمذی:1097)
ترجمہ: مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی
ادائیگی نہ ہوجائے۔
٭ جنازہ کی تجہیزوتکفین میں عجلت کریں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : أَسْرِعُواْ
بالجنازۃِ ، فإن تَکُ صالحۃً فخیرٌ تُقَدِّمُونَہَا ، وإن یَکُ سِوَی ذلکَ
، فشَرٌّ تضعونَہُ عن رقابکم .(صحیح البخاری:1315)
ترجمہ:جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی
طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں
سے اتارتے ہو۔
(۶)رشتہ داروں کوموت کی خبر دنیا:
اخبارات، نوٹس بورڈ اور ٹیلی ویزن کے ذریعہ وفات کی تشہیر کرنا منع ہے لیکن
تجہیزوتکفین میں شامل ہونے اور دعائے مغفرت کے لئے اعزاء واقارب اور
مسلمانوں کو خبر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، مسلم شریف میں ہے نبی ﷺنے
نجاشی کی وفات کے دن لوگوں کو ان کی وفات کی خبر بھجوائی ۔اکثر دور رہنے
والے رشتہ دار کا جنازہ روک کر کافی انتظار کیا جاتا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔
(۷)وفات کی خبر سننے پر :
جب کسی مسلمان کی وفات کی خبر سنیں تو انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھیں ۔اﷲ کا
فرمان ہے :
الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَۃٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا
إِلَیْہِ رَاجِعُونَ (البقرۃ:156)
ترجمہ: وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اﷲ کے
ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اسی طرح یہ دعا بھی پڑھ سکتے ہیں : إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون . اﷲمَّ !
أْجُرْنی فی مصیبتی وأَخلِفْ لی خیرًا منہا(صحیح مسلم:918)
ترجمہ:یقینا ہم اﷲ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں،اے اﷲ!مجھے میری
مصیبت پر اجر دے اور مجھے(اس کا) اس سے بہتر بدل عطا فرما۔
(۸)میت پہ رونے کی بجائے صبر کرنا چاہئے:
موت برحق ہے وہ کسی وقت آسکتی ہے ، موت پہ جزع فزع کرنا ،چیخنا چلانا اور
نوحہ خوانی کرنا اس کے عذاب کا سبب ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : إِنَّ المَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَاء ِ أَہْلِہِ
عَلَیْہِ(صحیح البخاری:1286)
ترجمہ:میت کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
المیتُ یعذَّبُ فی قبرِہ بما نیحَ علیہ(صحیح البخاری:1292)
ترجمہ:نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتاہے ۔
غمگین ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہ جانا فطری چیز ہے،اس پہ گرفت مشکل ہے۔ جب
ابراہیم کی وفات پر نبی ? کی آنکھوں سے آنسو آئے تو عبدالرحمن بن عوف رضی
اﷲ عنہ نے کہا اے اﷲ کے رسول ! آپ بھی بے صبریہورہے ہیں ؟ تو آپ نے
فرمایایہ بے صبری نہیں رحمت ہے:
إنَّ العینَ تدمَعُ والقلبَ یحزَنُ ، ولا نقولُ إلَّا ما یُرْضِی ربَّنا ،
وإنَّا بفِرَاقِکَ یا إبراہیمُ لمحزنونَ .(صحیح البخاری:1303)
ترجمہ:آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں
گے وہی جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے
غمگین ہیں۔
میت پہ رونے کی بجائے صبر کرنا اجر کا باعث ہے۔ جس کے دو یا تین بچے فوت
ہوجائیں اور صبر کرے تو اس کا بدلہ جنت ہے ۔ حضرت ابوھریرۃ رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے:
أنَّ رسولَ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّمَ قال لنسوۃٍ من الأنصارِ " لا یموت
لإحداکنَّ ثلاثۃٌ من الولدِ فتحتسِبہ ، إلا دخلت الجنۃَ " . فقالت امرأۃٌ
منہن : أو اثنَین ؟ یا رسولَ اﷲِ ! قال " أو اثنَین " (صحیح مسلم:2632)
ترجمہ: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انصار کی عورتوں سے فرمایا: تم میں سے
جس کے تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ اﷲ کی رضا کیلئے صبر کرے تو جنت میں جائے
گی ایک عورت نے عرض کیا:یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! اگر دوبچے مریں تو اس
کے لئے کیا حکم ہے؟'آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر دو مریں تب
بھی یہی ثواب ہے۔
یہاں تک کہ کسی بھی عزیز کی وفات پہ صبر کرنے کا بدلہ جنت ہے۔حضرت ابو
ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
یقولُ اﷲُ تعالَی : ما لعبدی المؤمنِ عندی جزاء ٌ ، إذا قبضتُ صفِیَّہ من
أہلِ الدُّنیا ثمَّ احتسبہ ، إلَّا الجنَّۃَ(صحیح البخاری:6424)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس مومن بندے کا جس کی میں کوئی عزیز
چیز دنیا سے اٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرلے ، تواس کا بدلہ
میرے یہاں جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔
(۹)عورت ومرد کا میت کو دیکھنا :
احادیث کی روشنی میں میت کا چہرہ دیکھنے کے چند مسائل مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ میت کا چہر ہ دیکھ سکتے ہیں خواہ غسل کے بعد، کفن کے بعد ، نماز جنازہ کے
بعد اور کوئی ان اوقات میں نہ دیکھ سکا ہوتو دفن سے پہلے پہلے کسی وقت دیکھ
سکتا ہے ۔
٭ کہیں کہیں پر یہ رواج بناہواہے کہ وہی اشخاص بار بار میت کو دیکھتے ہیں
جوکہ صحیح نہیں ہے ۔
٭ میت کا کوئی رشتہ دار دور سے آنے کی وجہ سے تکفین میں تاخیر سے شریک ہوا
اس حال میں کہ میت کو قبرستان لے چلا گیا ہے اور وہ میت کا چہرہ
دیکھناچاہتا ہے تو وہاں س کے لئے میت کا چہرہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں
جیساکہ امام بخاری ؒ نے کفنانے کے بعد میت کے پاس جانے پر باب باندھا ہے ۔
٭بعض لوگ قبر میں میت کواتارکر اس کا آخری دیدار کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے
۔
٭ بعض کے یہاں گھنٹوں میت کے چہرہ کو کھلاچھوڑ دیتے ہیں تاکہ آنے والے
دیکھتے رہیں حالانکہ مسنون یہ ہے کہ میت کو چہرہ سمیت ڈھانپ کر رکھا جائے
جیساکہ نبی ? کو چادر سے ڈھانپا گیا تھا۔ ہاں اگر تجہیزوتکفین میں جلدی
مقصود ہو اور کچھ دیر کے لئے میت کا چہرہ کھلا چھوڑ دے تاکہ میت کو دیکھنے
سے لوگ فرصت پاجائیں اور باربار چہرہ کھولنے کی حاجت نہ پڑے تو اس کی
گنجائش ہے ۔
٭ یہاں یہ بات بھی واضح رہیکہ میت کا صرف چہرہ ہی دیکھا جائے اور بدن کے
بقیہ حصے پر پردہ ہو۔
٭ عورت ،عورت(میت ) کا چہرہ دیکھ سکتی ہے اور مردوں میں محارم کا ، اسی طرح
مرد ،مرد(میت) کا چہرہ دیکھ سکتا ہے اور عورتوں میں محرمات کا ، لیکن اجنبی
میت کا چہرہ دیکھنا منع ہے ۔
٭ اگر کوئی بہت بوڑھی عورت ہو تو اس کا چہرہ سبھی لوگ دیکھ سکتے ہیں ۔
٭ جس عورت نے میت کا چہرہ نہیں دیکھا اس حال میں کہ میت کو قبرستان لے چلا
گیا اس عورت کو وہاں جاکر میت کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہئے ۔
(۱۰)میت کو بوسہ دینا:
جہاں میت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے وہیں اسے بوسہ لینا بھی جائز ہے جیساکہ
ابوبکررضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ ﷺکا بوسہ لیا اور نبی ﷺنے عثمان رضی اﷲ کا
بوسہ لیاتھااور بوسہ صرف محرم کے لئے ہے ۔
(۱۱)وفات سے شوہر کا بیوی کے لئے محرم ہونا:
عوام الناس میں منتشر ہے کہ شوہر کی وفات سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اس لئے میاں
بیوی ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوجاتے ہیں لہذا بیوی شوہر کو چھو نہیں سکتی،
دیکھ نہیں سکتی، غسل نہیں دے سکتی ۔ یہ ساری باتیں غلط ہیں ۔ شوہر سے نکاح
ٹوٹ جانے کی کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی زوجین ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں ۔
وفات کے بعد بیوی شوہر کو دیکھ سکتی ہے ، چھو بھی سکتی ہے اور نہلا بھی
سکتی ہے اور شوہر کے ترکہ میں وارث بھی ہوگی ۔
(۱۲)پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت:
لاش کی بے حرمتی کرنیاور اسے چیرپھاڑ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے مگر کبھی
ضرورت کے تحت بعض میت کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے جس میں اس کیجسم کوچیرا
جاتا ہے ۔طبی ضرورت مثلا قتل کی وجہ پتہ لگانییا وبائی مرض کی تحقیق کرنے
کی غرض سے جسم کو چیرا جاسکتا ہے ۔ عورت کی لاش کو لیڈی ڈاکٹر چیرپھاڑ کرے
، عورت کی عدم موجودگی میں مرد بھی کرسکتا ہے ۔ تجربہ کی غرض سے مسلم لاش
کا پوسٹ مارٹم جائز نہیں ہے لیکن غیر معصوم مرد (ماسوا عورت)مثلا کافر،مرتد
،حربی کی لاش پہ تجربہ کر سکتے ہیں۔
(۱۳)میت کا عضو نکالنا:
انسان کے سارے اعضائے بدن قابل احترام و اکرام ہیں اور انہیں فروخت کرنا یا
جسم سے کاٹ کر کسی کو عطیہ کرنا احترام کے منافی ہے البتہ میت وفات سے قبل
اپنا کوئی عضو کسی محتاج کو عطیہ کرنے کی وصیت کرناچاہے تو بعض علماء نے اس
کی اجازت دی ہے جبکہ بعض اہل علم وفات سے قبل یا بعد میں کوئی عضو کے
نکالنے سے مطلقا منع کرتے ہیں۔
(۱۴)میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں:
شوہر اپنی بیوی کو وفات کے بعد غسل دے سکتا ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ
عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
رجعَ رسولُ اللَّہِ صلَّی اللَّہُ علیہِ وسلَّمَ منَ البَقیعِ فوجَدَنی
وأنا أجِدُ صُداعًا فی رَأسی وأنا أقولُ وا رَأساہُ فقالَ بل أنا یا
عائشَۃُ وا رَأساہُ ثمَّ قالَ ما ضرَّکِ لَو مِتِّ قَبلی فقُمتُ علَیکِ
فغسَّلتُکِ وَکفَّنتُکِ وصلَّیتُ علیکِ ودفنتُکِ(صحیح ابن ماجہ:1206)
ترجمہ: رسول اﷲ ﷺبقیع سے آئے تو دیکھا کہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے اور
میں کہہ رہی ہوں: ہائے میرا سر! نبی ﷺنے فرمایا: بلکہ عائشہ !میں( کہتا
ہوں)ہائے میرا سر! پھر فرمایا: تمہارا کیا نقصان ہے اگر تمہاری وفات مجھ سے
پہلے ہوگئی؟ ( اس صورت میں) میں خود تمہارے لیے( کفن دفن کا) اہتمام کروں
گا ، تمہیں خود غسل دوں گا ، خود کفن پہناؤں گا، خود تمہارا جنازہ پڑھوں گا
اور خود دفن کروں گا۔
اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے جیساکہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ
عنہا نے اپنے شوہر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو غسل دیاتھا۔
(۱۵)میت کو غسل دینے کا طریقہ :
میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ گرم پانی اور اس میں بیری کا پتہ
استعمال کرنے کے لئے پہلیسے انتظام کرلیا جائے پھر میت کے جسم کا کپڑا
اتارلیا جائے اور ستر ڈھانپ دئے جائیں ، مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک ہے اسے
غسل کے دوران ڈھکا رہنا چاہئے ۔
٭ ناخن ، بغل اور مونچھ کے بال لمبے ہوں تو اس کی صفائی کرکے اسے میت کے
ساتھ کفن میں ہی رکھ دیا جائے ۔
٭ غسل دینے والا اب نرمی سے میت کا پیٹ دبائے تاکہ فضلات باہر نکل جائیں
اور ہاتھ پہ دستانہ لگاکر اگلے اور پچھلے شرم گاہ کی تیار شدہ بیری والے
پانی سے صفائی کرے ۔
٭اس کے بعد نماز کی طرح وضو کرائے ، دونوں ہتھیلیاں کلائی تک تین بار، منہ
اور ناک صاف کرے ۔تین بار چہرہ، تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت، سر اور
کان کا مسح پھر دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوئے۔
٭ وضو کراکر بیری والا پانی پہلے سر اور داڑھی پر بہائے پھر دائیں اوربائیں
پہلو پر بہائے ۔اس کے بعد پورے بدن پر پانی بہائے۔کم ازکم تین بار جسم پر
بہائے تاکہ مکمل طہارت حاصل ہویہ افضل ہے تاہم ایک مرتبہ سر سے پیر تک
پوریجسم کادھونا بھی کفایت کرجائے گا۔ ضرورت کے تحت تین سے زائد بار بھی
پانی بہاسکتے ہیں ۔ آخری بار غسل دیتے ہوئے کافور بھی ملالے تاکہ بدن
خوشبودار ہوجائے اور نجاست کی مہک ختم ہوجائے۔
٭ عورت کو عورت غسل دے گی ، ایک عورت کامکمل بدن ستر ہے مگر عورت کا عورت
کے لئیناف سے گھٹنے تک ستر ہے ۔اوپر جس طرح وضو اور غسل کا طریقہ بتلایا
گیا ہے ٹھیک اسی طرح عورت میتہ کو غسل دے گی اور آخر میں بالوں کی تین
چوٹیاں بنا دے گی۔
(۱۶)سڑی گلی یا کٹی پٹی لاش کو غسل دینے کی کیفیت :
کبھی کبھی بعض حالات میں لاش کی شکل بگڑ جاتی ہے ، اس میں تعفن پیدا ہوجاتا
ہے اور سڑگل جاتی ہے ۔ اکسڈنٹ ہونے سے کبھی لاش اس طرح کٹ جاتی ہے کہ جمع
کرنا مشکل ہوجاتاہے ، اسی طرح میت کی سرکاری کاروائی کے باعث زیادہ دن
رکھنے پہ سڑ گل جاتی ہے ۔ یا پھر لاش انجان جگہ پہ بہت دن بعد ملی ہو تو اس
میں بھی تعفن پیدا ہوجاتا ہے ۔ایسے حالات میں لاش کو غسل دینے کی دو صورتیں
ہیں ۔
پہلی صورت : اگر لاش کٹ پٹ گئی ہو تو سارے اعضاء جمع کئے جائیں گے اور
انہیں غسل دیا جائے گا۔
دوسری صورت : اور اگر لاش سڑ گل گئی ہو اور غسل دینے کا امکان نہ ہو تو
تیمم کیا جائے گا ۔
(۱۷)میت کوغسل دینے والا غسل کرے گا؟
میت کو غسل دینے والا غسل کرے گا یا نہیں اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف
پایا جاتا ہے اس پہ مدلل مضمون میرے بلاگ پرپڑھا جاسکتا ہے یہاں خلاصہ کے
طور پر چند احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
٭افضل عمل : غسل دینے والے کے حق میں افضل یہ ہے کہ وہ غسل کرلے تاکہ
استحباب پر عمل بھی ہوجائے اور میت کو غسل دینے ، اسے باربار دیکھنے اور
حرکت دینے سے ذہن میں جو فتور پیدا ہوگیا ہے وہ زائل ہوجائے اور تازہ ونشیط
ہوجائے ۔
٭احیتاطی عمل : اگر غسل نہ کرسکے تو کم ازکم وضو کرلیگرچہ انہوں نے پہلے
وضو کیا ہو۔ اگر پہلے وضو نہیں کیا تھاتو نماز جنازہ کیلئے وضو تو بہرحال
کرنا ہے ۔
٭جس نے میت کو غسل دیا ہے اسے اپنا کپڑا اتارنے یا صاف کرنے کی کوئی ضرورت
نہیں ہے کیونکہ جب اسے اپنا بدن دھونا ضروری نہیں تو کپڑا بدرجہ اولی نہیں
دھونا ہے ۔
٭جنازہ کی نماز کے لئے کئے گئے وضو سے دوسرے وقت کی نماز پڑھ سکتا ہے
کیونکہ اس وضو اور دوسری نماز کے وضو میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
٭یہ قول " ومن حملَہُ فلیتوضَّأ" (جو میت کو اٹھائے وہ وضو کرے ) اس کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ جو جو میت کو کندھا دے وہ سب وضو کرے ۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ جو میت کو حرکت دے ، ادھر سے ادھر اٹھاکر رکھے ، ایک چارپائی سے
دوسری چارپائی پر لے جائے ۔ اور اس میں مذکور وضو نماز جنازہ کے لئے وضو
کرنا ہے ۔
(۱۸)عورت ومرد کا کفن :
عورت کو بھی مردوں کی طرح تین چادروں میں دفن کیا جائے گا ، عورت ومرد کے
کفن میں فرق کرنے کی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔ ابوداؤد میں پانچ کپڑوں سے
متعلق ایک روایت ہے جسے لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ بیان کرتی ہیں جنہوں نے نبی
ﷺکی بیٹی ام کلثوم کو غسل دیا تھا۔ اس روایت کو شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اﷲ
ضعیف قرار دیتے ہیں اور شیخ البانی نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ دیکھیں : (ضعیف
أبی داود:3157)
اس لئے شیخ البانی نے احکام الجنائز میں عورت ومردکے لئے یکسان کفن بتلایا
ہے اور کہا کہ فرق کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ شرح ممتع
میں ذکر کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کی طرح کفن دیا جائے گا یعنی تین کپڑوں
میں ، ایک کو دوسرے پر لپیٹ دیا جائے گا۔
(۱۹)میت کو کفن دینے کا طریقہ :
اوپر معلوم ہوا کہ عورت ومرد کو تین سفید کپڑوں میں کفن دیا جائے گا۔ تین
سفید لفافے ایک پر ایک رکھ دئے جائیں جو لمبائی میں میت سے بڑے ہوں ، سر کی
جانب کا زائد حصہ قدم کی جانب سے زیادہ ہو۔ ان لفافوں پر حنوط (خوشبو
)جھڑکے جائیں۔میت کو ان لفافوں پر چپ لٹا دیا جائے اور عطر کا گالا بناکر
میت کی رانوں، سرینوں ، سر، آنکھ ، ناک ، کان، منہ، پیشانی، داڑھی، ہاتھ،
پیر، گھنٹہ ، بغل اور ناف وغیرہ میں رکھ دئے جائیں ۔پھر میت سے سٹے پہلے
لفافے کو لپیٹے اس طرح کہ بائیں جانب کا حصہ اٹھاکر میت کو دائیں پہلو پر
کرے اور دائیں جانب کا حصہ اٹھا کر میت کو بائیں پہلو پر کرے۔ پھر دوسرا
لفافہ لپٹے اور اسی طرح کا عمل کرے پھر تیسرا لفافہ لپٹے اور اسی طرح کا
عمل انجام دے ۔ اس کے بعد پیر کی جانب زائد حصے کو آگے کی طرف اور سر کی
جانب زائد حصے کو سینے کی طرف کردے اور سر، درمیان اور پیر کے پاس گانٹھ
لگا دے ۔ قبر میں دفن کے وقت ان گانٹھوں کوکھول دیا جائے گا۔
(۲۰)قبر کی کیفیت:
قبرکی دو قسمیں ہیں ،ایک لحد (بغلی والی) دوسری شق (شگاف والی) ۔بغلی والی
قبر کھودنے کا طریقہ یہ ہے کہ زمین میں میت کے قد برابر مستطیل گڑھا کھودا
جائے پھر قبلہ کی جانب نیچے والی دیوار میں میت کے جسم کے مطابق گڑھا کھودا
جائے ۔اس میں میت کو قبلہ رخ ڈال کرگڑھا کا منہ کچی اینٹ سے بند کردیا جائے
گا ۔شق(شگاف) کا طریقہ یہ ہے کہ زمین میں میت کے برابر لمبا گڑھا کھودا
جائے ۔ بغلی والی قبر شگاف والی قبر سے افضل ہے ۔ تدفین کے بعدقبر زمین کے
برابر یا اس سے ایک ہاتھ اوپرکوہان نما ہو۔قبروں کو ایک ہاتھ سے زیادہ
اونچا کرنا،اسے چونا گاڑھا کرنا، پختہ بنانا، اس پر عمارت تعمیر کرنا ،
کتبے ، درخت یا ٹہنی لگانا ، پھول مالا چڑھانا ،اگربتی یا موم بتی جلانا،
یا کسی قسم کا چراغاں کرنا ، یا پھر اس پر میلہ ٹھیلہ لگانا جائز نہیں ہے ۔
ایک قبر میں ایک ہی میت کو دفن کیا جائے بصورت ضرورت ایک سے زائد میت کو
دفن کیا جاسکتا ہے ۔ دفن کے بعد ایک قبر سے دوسری قبر میں میت منتقل کرنا
بھی جائز نہیں تاہم ضرورت کے تحت جائز ہے۔
مضمون جاری۔۔۔۔۔۔ |