نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی اٹک کا اسفند یار بخاری
ڈسٹرکٹ ہسپتال انسانی خون سے لہولہان ہو گیا۔ چھ سے زائد قیمتی جانوں کو
ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سُلا دیا گیا۔ اہلیان ِاٹک کی اس سے بڑی بدقسمتی
اور کیا ہو گی کہ جس ہسپتال کی بنیاد لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے رکھی گئی
تھی آج اس ہسپتال کی خون خوار بلڈنگ انسانوں کے لیے مقتل گاہ بن چکی ہے۔
کرپشن لوٹ مار اور بدانتظامی اپنے عروج پر ہے ہسپتال کی خستہ حال بلڈنگ گیس
لیکج یا آکسیجن سلنڈر پھٹنے سے منہدم ہو گئی۔ سال نو کی پہلی شام کی سیاہی
نے ابھی اپنے پر پھیلائے ہی تھے کہ ایک زور دار دھماکے نے اٹک شہر میں خوف
و ہراس پھیلا دیا۔ دھماکے کی متضاد خبریں ہر سو گردش کرنے لگیں۔ اسی اثناء
میں میرے ایک قریبی دوست کی فون کال آئی کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کی گائنی وارڈ
دھماکے سے زمین بوس ہو چکی ہے اور ملبے کے نیچے کئی افراد دب کر مٹی کا
ڈھیر بن چکے ہیں۔میں فوری طور پر موقع پر پہنچا تو ریسکیو1122 کی ٹیمیں
موقع پر پہنچ چکی تھیں۔ بلڈنگ کے ملبہ میں دبی لاشوں کو نکالا جا رہا تھا
اور زخمیوں کو ایمبولینس گاڑیوں میں ڈال کر دیگر ہسپتالوں میں منتقل کرنے
کا سلسلہ جاری تھا۔ ضلعی انتظامیہ بھی فوری طور پر موقع پرپہنچ گئی تھی۔
حادثہ کی خبر ہر سو پھیلی تو قرب و جوار کے لوگ ہسپتال کی طرف اُمڈ آئے۔
انتظامیہ لوگوں کو جائے حادثہ سے دور رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی تھی
تاہم جن کے لواحقین وارڈ کے اندر دبے ہوئے تھے وہ رونے دھونے اور چیخ و
پکار کے ساتھ اپنے پیاروں کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔
حادثہ کی خبر اٹک سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد تک پہنچی
تو وہ بھی اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ پولیس کے حصار میں منہدم بلڈنگ تک پہنچے
اور موقع پر موجود میڈیا کے نمائیندگان سے روائیتی جملوں کا تبادلہ خیال
کرنے لگے کہ" انہیں اس المناک سانحہ سے بہت افسوس ہوا ہے اور وہ متاثرین کے
لواحقین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ـ" ۔ اس موقع پر کسی منچلے نے آواز
کَس دی کہ ناقص تعمیراتی کاموں میں کمیشن کے معاملے میں بھی آپ برابر کے
شریک ہیں؟ گو کہ یہ بات ہمارے کچھ قصیدہ گو صحافیوں کے کانوں تک تو پہنچی
ہو گی مگر اس کو رقم کر نا شاید اور کسی کے حصے میں نہ آئے۔ بہرحال اپوزیشن
جماعت پی ٹی آئی کے مرکزی راہنما سابق ضلعی ناظم میجر (ر) طاہر صادق بھی
اپنے سیاسی ورکروں کے ہمراہ ہسپتال میں پہنچے اور زخمیوں کی عیادت کی حادثہ
کے متاثرین کے لواحقین کو تسلی دی کہ وہ حوصلہ رکھیں۔ اس حادثہ میں غفلت
اور بدانتظامی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزاء دلوانے کے لیے وہ بھرپور
کوشش کریں گے۔ اس موقع پر الیکڑانک اورپرنٹ میڈیا کے صحافیوں نے انکو گھیر
لیا اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ(ن) لیگ کی تمام قیادت
تعمیراتی کاموں میں کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہے۔ ہسپتال کو ملنے والی
18کروڑ روپے کی گرانٹ کہاں جارہی ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔اتنی خطیر رقم سے
خستہ حال بوسیدہ بلڈنگ کو گرا کر نیاء بنایا جا سکتا تھا مگر حکمرانوں کی
توجہ کمیشن حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔عوام باہر نکلیں اور ان ظالم لُٹیروں سے
حساب لیں۔ عوام جب تک اس کرپٹ ٹولے سے جان نہیں چھڑائیں گے، ایسے حادثات
آئے روزہمیں ملتے رہیں گے۔ انہوں نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ
کے ذمہ داران کوقرار واقعی سزاء دی جائے اور متاثرہ خاندانوں کو فلفور مالی
امداد دی جائے ۔ سابق امیدوار صوبائی اسمبلی ملک حمید اکبرخان نے کہا کہ"
ہسپتال کا ایم ایس ایک کرپٹ ترین شخص ہے جس کو یہاں لگایا ہی کرپشن اور لوٹ
مار کے لیے ہے۔ محکمہ ہیلتھ میں سفارشی بنیادوں پر تعینات نااہل افسران کو
اہم انتظامی عہدے دیئے گئے ہیں جہنوں نے ضلعی ہسپتال کو کرپشن کا گڑھ بنا
دیا ہے"۔
بلاشبہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈسٹرکٹ ہسپتال اٹک کو بیس تیس سال سے ملنے
والی گرانٹ کا اگرآڈٹ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تعمیراتی کاموں کی مد میں
اس ہسپتال پر اربوں روپے کاغذوں میں خرچ کیے گئے لیکن ہسپتال کی حالت زار
قابل رحم ہے۔آج بھی پرانی بلڈنگ پر سرُخی پاوڈر لگا کر اس کی تزئین و آرائش
کے نام پر کروڑوں روپے ہڑپ کیے جائیں گے۔ منظور نظر ٹھیکیداروں کے ذریعے
تعمیراتی کاموں میں کمیشن وصول کرکے وزیراعلیٰ پنجاب کی آنکھوں میں دھول
جھونک دی جائے گی کہ ہسپتال میں سب اچھا کی رپورٹ ہے۔وزیرا علیٰ کو چاہیے
کہ وہ خود ڈی ایچ کیو کا اچانک دورہ کرے اور اس بلڈنگ پر ناقص تعمیراتی کام
کا خود جائزہ لیں اورا نتظامی عہدوں پر عرصہ دراز سے تعینات افسران کو فوری
طور پرضلع بدر کریں تاکہ اہل لوگوں کی ٹیم کے ساتھ اٹک کے عوام کو صحت کے
شعبہ میں ریلیف مل سکے۔
ہمارے اک دوست سردار ایاز خالد مٹھیالوی نے بہت لمحہ فکریہ والی بات کہی ہے
ا س کو ضرور رقم کرنا چاہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ
کسی پرائیویٹ ہسپتال میں حادثہ پیش آیا ہو اور اسکی عمارت زمین بوس ہوئی
ہو! بہر حال اٹک کے ایم ایس صاحب بھی اپنا ذاتی کروڑوں کی لاگت سے پرائیویٹ
ہسپتال فاروق اعظم کالونی میں بنا رہے ہیں ۔ اور بھی بہت سے سرکاری ڈاکٹروں
کے اپنے ذاتی ہسپتال انہی تین چار سالوں کے عرصے میں بہت عالی شان عمارتوں
کی صورت میں تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ کام نیب کا ہے کہ وہ اس بات کا کھوج لگائے
کہ ہسپتال حق حلال کی کمائی سے بن رہے ہیں یا دال میں کچھ کالا ہے۔
میرے اس کالم کے بعد بہت سے خدمت گار قلم کارہسپتال انتظامیہ کی کارکردگی
کے قصیدے اخبارات میں چھپوا کر ان اخباری تراشوں کووزیر اعلیٰ تک بھیج کر
سب اچھا کا راگ الاپ لیں گے اور اسی طرح مخلوق خدا مسیحاء کے روپ میں چھپے
ڈاکوؤں سے لُٹتے رہیں گے اور اپنے خون سے ان کی عالی شان بلڈنگیں تعمیر
کرواتے ہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ میرے ملک کے غریبوں پر رحم کرے اور حادثہ میں جاں
بحق دو سٹاف نرسوں اور دیگر شہداء کو جنت الفردوس میں جگہ عطاکرے اور
زخمیوں کو جلد صحت یاب کرے ۔ ارباب اختیار ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے
خصوصی توجہ دے تاکہ ایسے واقعات سے آئیندہ بچا جا سکے۔
|