مجوسی موجودہ ایرانی ریا ست کا تاریخی منظر و پس
منظر کیا ہے؟ یہ ریاست اپنے وجود سے آج تک اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت
میں کیوں سر گرداں رہی ہے ؟ حد تو یہ ہے اپنی ہزاروں سالا تاریخ میں ایران
نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ۔بلکہ اسلام
دشمنی کا جو آغاز مجوسی حکمراں کسریٰ سے ہوا تھا اس میں ہمیشہ اضافہ ہوتا
گیا اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔اور شاید اہل ایران سے اس بات کی
امید لگانا کہ وہ اسلام یا اہل اسلام کے تئیں ہمدرد یا مخلص ہیں یا مخلص
ہوسکتے ہیں دونوں ہی فضول ہیں۔ تاریخ کے کسی دور میں بھی مجوسی ریاست کے
حوالے سے اخوت کی کوئی مثال ایسی نہیں ملتی جس پر قیاس کرکے اعتبار کی
راہیں ہموار کی جاسکیں ۔یہ ہم انپی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس ریاست
کے پورے تاریخی سفر کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے ۔ آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے آج تک تاریخ میں جتنا نقصان اور جتنی
تکالیف اسلام کو اس گروہ سے پہنچی ہیں اور ابھی بھی پہنچ رہی ہیں اس کی
مثال نہیں ملتی ۔ لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اس جماعت کو سمجھ نے اور
معاملہ کر نے میں اس بات کو بھول جا تے ہیں کہ یہ وہی جماعت ہے جس نے
آستینوں میں چھپ کر ایسے حملے اسلام اور مسلمانوں پر کئے ہیں کہ ان کی
روداد سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ، آج بھی محض شکل بدل کر اسی مجوسی سوچ اور
فکر کے ساتھ( جو فارس کے حکمراں کسریٰ کی تھی )یہ جماعت کام کررہی ہے ۔ وہی
انداز وہی حربے اور اسی دشمنی کے ساتھ جو مجوسی حکمرانوں نے یہودیت ،
عیسائیت ،مشرکین عرب اور منافقین سے اتحاد کرکے آپ علیہ السلام اور آپ کے
تمام صحابہ کو مٹانے کے لیے استعمال کیے تھے۔اس لیے یہ بات ہمیں ایران کے
حوالے سے کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ آج کی ایرانی حکومت اور ماضی کی مجو
سی ریاست کے فکر و خیال اور ارادوں میں کوئی تبدیلی بظاہر نظر نہیں
آتی۔بلکہ آج کی ایرانی ریاست مکمل طور پر کسریٰ کے خوابوں کو پورا کرنے میں
مصروف عمل ہے ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت با سعاد ت کے وقت دنیا میں قیصر و کسریٰ کا
دبدبہ تھا۔ دونوں نے دنیا کے اکثر حصہ پر اپنا راج قائم کررکھاتھا اور دونو
ں ہی دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک تھے ۔مورخین فارس اور اس کے فرمارواں کسر
یٰ پرویز کی شان و شاکت کے بارے لکھتے ہیں’’ مورخین ایران کا اتفاق ہے کہ
خسرو دوم ایران کا سب سے عظیم اور شان و شوکت رکھنے والا شہنشاہ تھا اس کے
عہد میں مملکت ساسانیہ اپنی ترقی و خوشحالی پر تکلف زندگی، لوازم تعیش، اور
آرائش و زیبائش کے نقطہ عروج پر تھی، ہندستان کی شمالی مغربی ریاستوں تک اس
کاسکہ رواں تھا،اس کے نام کے ساتھ یہ شاندار تمہید ہوتی تھی ’’ خداؤ ں میں
انسان غیرفانی اور انسانوں میں خدائے لا ثانی‘‘ اس کے نام کا بول بالا
آفتاب کے ساتھ طلوع کرنے والا شب کی آنکھوں کا اجالا‘‘ مورخ طبری اس کی
دولت اور عیش و عشرت پر لکھتے ہیں’’ یہ بادشاہ سب سے زیادہ سخت گیر تھا،
اور اس کو تمام عیش و تعیش کے سا تھ ساتھ دولت جمع کرنے کا شوق تھا، جب اس
کا خزانہ ۶۰۷ ء تا ۶۰۸ میں قدیم عمارت سے طیسفون کی نئی عمارت میں منتقل
کیا گیا تو اس کی مقدار ۴۶۸ ملین یعنی چھیالیس کروڑ اسی لاکھ مثقال سونا
تھی جو ۳۷ کروڑ پچاس لاکھ طلائی فرنگ کے برابر ہوتا ہے اس کی تخت نشینی کے
تیرہویں سال اس کے خزانہ شاہی میں ۸۸۰ملین یعنی ۸۸ کروڑ مثقال سونا موجود
تھا اس نے ۳۷ سال حکومت کی اس کے بعد اس کا بیٹا شیرو یہ تخت حکومت پر
بیٹھا ‘‘ (نبی رحمت ص ۳۹۳ )
کسریٰ کی زور طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتا ہے کہ دنیا کی
کوئی طاقت اس کے آگے پر نہیں مار سکتی تھی اور نہ اس کو ملوک عالم سے اس
وقت کو ئی طاقت چیلنج کرنے والی تھی۔ تنہا طاقت کے اس نشے میں کسریٰ اس بات
کو بھول گیا تھا کہ اب اس کے اقتدار کو گرہن لگنے والا ہے اور ا س کی تمام
طاقت راکھ کا ڈھیر ہو نے والی ہے۔ ۔’’ اور دنیا کے افق پر ایک ستا رہ ٔ
اسلام بھی طلوع ہونے والا ہے جو اس سے بڑھ کر سپر پاور ہوگا ‘‘ تاریخ طبری
جلد۱/ ص۵۶۵ / یقینا وہ وقت آ بھی گیا تھا کہ اب پوری دنیا میں اسلام اور آ
پ صلی اﷲ علیہ وسلم کی باد شاہت قائم ہونے والی تھی۔شیطانی طاقتوں کے مکر
وفریب اور شیطان کے دنیا میں تمام ہم نوا اور یارو مدگا ر قیصر اور کسریٰ
سمیت سب کی بادشاہت ز وال پذیر اور قصہ پارینہ ہونے والی تھی ۔ دنیا میں
ایک خدا کی عبادت ہوگی ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت اور
دین کا بول بالا ہوگا ۔قیامت تک آپ ہی کی شریعت اور باشاہت قائم رہے گی۔ اس
کا آغاز آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی بر کت سے بلکہ جب آپ شکم
مادر میں تھے ۔ تو اسی وقت آپ کی برکت سے دنیا ئے شرک اور بت پر ستی کے
اڈوں اور پجاریوں میں بھونچال آگیا تھا ۔ سیرت حلبیہ کے مصنف لکھتے ہیں
۔’’آپ کو معلوم ہے کہ دنیا کے بت آنحضرت صلی اﷲ علیہ کے لئے دو مرتبہ گرے۔
آپ کے حمل کے وقت اور دوسر ی مرتبہ آپ کی ولادت کے وقت۔‘‘( سیرت حلبیہ جلد
اول ص ۸۲۲ )
عرب کی کی سر زمین پر حضرت آمنہ کا لخت جگر جب نور نبوت بن کر عبد اﷲ کے
گھر میں نمودار ہوا ،تو تمام عالم آپؑ کی آمد کی برکتوں سے منور ہوگیا
۔وہیں دوسری طرف آپؑ کی ولادت مبارکہ سے کفر و شرک کے ایوانوں میں بھونچال
آگیا ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ ’’ آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کی برکت سے
سب زیادہ بربادی کی عام علامتیں جس سلطنت میں ظاہر ہوئی وہ کسریٰ فارس کی
سلطنت تھی‘‘ سیرت حلبیہ ج ۱ / ۲۳/ ’’ ابھی تک تقریباً پچاس سال کسریٰ کی
بادشاہت کے گزرے تھے جس رات رسو ل صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو
کسریٰ کاایوان لرزہ براندام ہوگیا اور اس کے چودہ گنگرے گرپڑے فارس کا آتش
کدہ بجھ گیا حالاں کہ ایک ہزار سال سے وہ بجھا نہیں تھا۔ بحیرہ ساوا کا
پانی خشک ہوگیا ، فارس کے مذہبی پیشوا موبذاب نے خواب میں سخت اونٹ دیکھے
جو عربی گھوڑوں کو ہنکائے جارہے تھے اور دجلا کا پانی منقطع ہوکر ارد گرد
کے علاقوں میں پھیل گیا۔
کسریٰ نے صبح ہوتے ہی جب تمام صورت حال دیکھی تو سخت پریشان ہوا اور
دلیرانہ صبر کر کے خا موش بیٹھ گیا پھر مناسب سمجھا کہ حالات امراء اور
مشیروں کے سامنے رکھنے چاہیے چنا ں چہ تاج پہن کر اپنے تخت پر بیٹھا اور
خواص دربار کو اپنے پاس جمع کرایا جب سارا دربار مجتمع ہوگیا تو ان کے
سامنے حالات رکھے ہی تھے کہ اتنے میں اس کے پاس ایک خط آیاکہ جس میں فارس
کی آگ بجھ جانے کی خبر تھی چناں چہ اس کی گھٹن میں اور اضافہ ہوا ادھر سے
فارس کا مذہبی پیشوا موبذاب بول اٹھاکہ اے بادشاہ اﷲ تعالیٰ تیرے ساتھ
بھلائی کرے گذشتہ رات میں نے اونٹوں کے متعلق ایک خواب دیکھااور خواب اس سے
کہہ سنایاکسریٰ نے اس سے کہا اے موبذاب تیرے خیال میں یہ کیا معاملہ ہے
موبذاب کسریٰ کے نزدیک مستقبل کے حالات اچھی طرح جانتا تھاموبذاب کہنے
لگاکہ عربوں کی طرف سے ایک نیا حادثہ پیش آنے والا ہے ۔ (تاریخ طبری جلد
اول ص ۶۱۴)
مزید سیرت النبی کے مصنف آپؑ کی ولادت باسعادت پر لکھتے ہیں ’’ یہ سچ ہے کہ
ایوان کسری ہی نہیں بلکہ شان عجم، شوکت روم، اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس
گرپڑے، آ تش فارس ہی نہیں بلکہ حجیم شر ، آ تش کد ہ کفر، آذر کدہ گمرہی سرد
ہوکر رہ گئے ،صنم خانوں میں خاک اڑنے لگی بتکدے خاک میں مل گئے ،شیراز ہ
مجوسیت بگھر گیا ، نصرانیت کے اوراق خزاں دیدہ ایک ایک کرکے جھڑ گئے ۔ ‘‘
قیصر اور کسریٰ کے زوال پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے آغاز پر ہی
زوال کی مہر ثبت ہو گئی تھی۔چوں کہ سب سے زیا دہ بربادی و تباہی کی جو
علامتیں آپ صلی اﷲ علیہ کی پیدائش کی برکت سے ظاہر ہوئی وہ کسریٰ کی حکومت
تباہی اور اس کے زوال کے حوالے سے ہیں ۔ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ جب آپ کی
ولادت باسعادت ہوئی تو نوشیرواں فارس کا بادشاہ کس قدر بے چین اور پریشان
ہوا ۔کیسے مارا مارا نجومیوں اور کاہنوں کے پاس پھر ا لیکن اس کی پریشانی
میں کمی ہونے کے بجائے ہر دن مزید اضا فہ ہوتا گیا ۔ کہیں بھی اور کسی
نجومی سے بھی ا س کو اطمینان نہیں ملا۔ سب نے اس کے اقتدار کے خاتمے کی
پیشین گوئی کی جس سے اس کا چین و سکون ختم ہو گیا ۔ آخر اس کی موت کے بعد
اس کے بیٹے یکے بعد دیگرے فارس کے باشاہ بن تے رہے پھر اس کے پوتے کسریٰ
پرویز نے ۵۹۰ میں فارس کی باگ ڈور سنبھالی ۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
دنیا کے باشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے تو ان میں کسریٰ پرویز کو بھی کو
آپ صلی اﷲ نے دعوتی خط لکھا تھا۔لیکن اس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے نامہ
مبارک کے اپنے ناپاک ہاتھوں سے ٹکڑ ے ٹکڑے کرڈالے ۔ ’’جب حضرت شجاع اسدی ؓ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوری کاروائی آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کو سنادی تو رسول اﷲ نے پیش گوئی فرمائی کہ کسریٰ نے اپنا ملک
ریزہ ریزہ کیا ہے ۔‘‘(تاریخ ان کثیر ۷۷۳ ج ۲)
مؤرخ ابن کثیر لکھتے ہیں ۔ ’’ نامہ مبارک کسریٰ نے پڑھ کر پھاڑدیا اور کہا
وہ میرا غلام ہو کر مجھے ایسی گستاخانہ تحریر لکھتا ہے ۔پھر کسریٰ نے یمن
میں اپنے نائب باذام کو لکھا کہ’’ اس آدمی‘‘ کی طرف حجاز میں دو بہادر آدمی
بھیج اور وہ اس آدمی کو میرے سامنے پیش کریں ، چناں چہ باذام نے اپنے کاتب
اور خزانچی کے ساتھ کمی خرخرہ کو روانہ کیا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی طرف ایک خط ان کے ہاتھ روانہ کیاکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان دو نوں کے
ساتھ کسریٰ کے پاس حاضر ہوں اور اباذویہ کو یہ کہا اس آدمی کے پاس جاو ٔ ان
سے مذاکرات کر کے مجھے صحیح صورت حال سے با خبر کرو ۔ چناں چہ وہ دونوں
قاصد طائف پہنچے اور وہاں کسی قریش سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں
دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ آپ علیہ السلام مدینہ میں ہیں ۔ان کو دیکھ
کرقریش اور طائف والے بہت خوش اور مسرور ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے
مبارک ہو شہنشاہ کسری’’ ان‘‘ کے مقابلے میں آگیا اور اب تم کو ان کے بارے
میں کوئی پریشانی نہ ہوگی ۔چناں چہ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خد مت
میں حاضر ہوئے اور اباذویہ آپ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا ، اور اس نے کہا
شہنشاہ کسریٰ نے یمن کے حاکم باذام کی طرف ایک حکم نا مہ بھیجا ہے کہ وہ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف کسی شخص کو بھیجے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو لیکر
حاضر ہو اور مجھے بھیجا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے ساتھ روانہ ہوجائیں
اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم کی تعمیل کی تو باذان آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کے بارے میں سفارشی خط لکھ دے گا جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے فائدے مند
ہو گا اگرآپؑ نے تعمیل نہ کی تو جیسا کہ آپؑ کو معلوم ہی ہے کہ وہ آپؑ کو آ
پؑ کی قوم سمیت ہلاک کردے گا اور آ پؑ کے ملک کو برباد کردے گا۔
سول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بہ ذریعہ وحی معلوم ہوگیاکہ اﷲ تعا لیٰ نے
کسریٰ پر اس کے بیٹے شیرویہ کو مسلط کردیا اور بیٹے نے باپ کو فلاں ماہ کی
فلاں رات کو قتل کردیا۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان قاصدوں کو بلایا اوران کو
یہ بات بتادی یہ سن کر انہوں نے کہا ہوش میں تو ہو؟ کیا کہہ رہے ہو ہم تو
اس سے بھی معمولی بات کو آپ کے خلاف قابل سزا سمجھ تے ہیں ؟کیاہم آپؑ کی یہ
بات لکھ بھیجیں اور باذام کو اس بات سے آگا ہ کریں تو آپ علیہ السلام نے فر
ما یا ہاں ،لکھ بھیجو اور اس کو بتا دومیرا دین اور میری حکومت کسریٰ کی
تمام حکومت پر محیط ہوجائے گی۔ اونٹ اور گھوڑے کے نقش پا تک پہنچ جا ئے
گیا۔ اور اس کو بتا دینا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو زیر انتظام علاقہ
تمہارے حوالے کردوں گا اور تمہاری قوم کا تمہیں بادشاہ بنا دوں گا ۔پھر آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے خرخرہ کو کمر بند دیا جو سونے چاندی سے مرصع تھا یہ
منطقہ آپ کو کسی بادشاہ نے بھیجا تھا۔( تاریخ ابن کثیر جلد دوم ص ۷۷۲)
ابن ہشام کے الفاظ ہیں’’ زہری سے مجھے روایت پہنچی ہے انہوں نے کہا ہے کہ
کسریٰ نے باذام کو لکھا کہ میرے پاس خبر پہنچی ہے کہ قریش میں کے کسی شخص
نے مکہ میں خروج کیا ہے اور وہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے تو اسکے پاس جا
اور اسے توبہ کی ہدایت کر اگر اس نے توبہ کر لی تو ٹھیک ہے ور نہ اس کا سر
میرے پاس بھیج دے۔ جب باذان نے کسریٰ کا خط رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
پاس راونہ کیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو لکھ بھیجا اﷲ تعالیٰ
نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کسریٰ کو فلا ں روز فلاں ماہ قتل کیا جا ئے گا
۔ اور جب یہ خط باذان کے پاس پہنچا تو ا س نے کچھ توقف کیا کہ نتیجہ دیکھ
لے اور کہا اگر وہ در حقیقت نبی ہو گا تو عنقریب وہی ہوگا جو اسنے کہا
،پھراﷲ تعالیٰ نے کسریٰ کو اسی روز مارڈ الا جس روز رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے( اس کے مارے جانے کی نسبت ) فرمایا تھا ۔اابن ہشام نے کہا کہ وہ
اپنے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں مارا گیا۔(سیرت ابن ہشام حصہ اول ص ۸۲)جاری |