قبلہ اول کا تحفظ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے

نبی پاک ﷺ نے سفر اسراء و معراج میں مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء علیھم السلام کی نماز میں امامت کی تمام انبیاء مقتدی اور آمنہ کے لال ،عبداﷲ کے دریتیم امام بنے اسی وجہ سے نبی پاک ﷺ کو امام الانبیاء کا لقب ملا ،مسجد اقصیٰ ہمارا قبلہ اول ہے مسجداقصیٰ کی فضیلت ساقی کوثر ﷺ اور صحابہ کرام نے بیان فرمائی ہے ۔بیت المقدس کا اسلام میں بلند مقام ہے، بیت المقدس کی اعلی ترین امتیازی صفات بھی ہیں
مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ
حضرت ابو ذر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: "ہم رسول اﷲ ﷺ کے پاس آپس میں بات کر رہے تھے کہ کون سی مسجد افضل ہے؟
رسول اﷲ ﷺ کی مسجد یا مسجد بیت المقدس؟" تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس کی چار نمازوں سے افضل ہے، بیت المقدس نماز کے لیے بہترین جگہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ گھوڑے کی رسی کے برابر بیت المقدس سے اتنی قریب جگہ جہاں سے بیت المقدس نظر آئے وہ بندے کے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو(مستدرک حاکم )
اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے ہاں مسجد اقصی اور بیت المقدس کی شان کتنی عظیم تھی کہ انہوں نے مسجد اقصی کا موازنہ مسجد نبوی سے کیا
نبی پاک ﷺکا سفرمعراج اور بیت المقدس
سیدنا انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس براق کو لایا گیا، وہ سفید رنگ کا گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے، وہ اپنا قدم حد نگاہ پر رکھتا ہے، تو میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچ گیا آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ: میں نے براق کو کڑے سے باندھ دیا جہاں انبیائے کرام (اپنی سواریاں)باندھتے ہیں(آپ نے یہ بھی بتلایا کہ)پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں پر دو رکعات ادا کیں، پھر اس کے بعد جبریل علیہ السلام میرے پاس شراب کا برتن اور ایک دودھ کا برتن لائے ؛ تو میں نے دودھ کا انتخاب کیا، تو جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، اس کے بعد جبریل ہمیں آسمان کی جانب لے گئے(مسلم)
حضرت سلیمان بن داؤدعلیہماالسلام کی تین دعائیں
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہما کی روایت بھی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: (جس وقت سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اﷲ تعالی سے تین دعائیں مانگیں: (1)قوت فیصلہ جو اﷲ تعالی کے فیصلوں کے عین مطابق ہو۔
(2)ایسی بادشاہی جو ان کے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔
(3)اور اس مسجد میں نماز کی نیت سے آنے والا کوئی بھی ہو وہ جب یہاں سے واپس نکلے تو اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہے
(تو نبی ﷺ نے فرمایا)پہلی دو دعائیں تو ان کی قبول ہو گئیں تھیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی قبول ہو گئی ہو گی(نسائی، ابن ماجہ )
آج یہ فضائل والی مسجد اور انبیاء کی سرزمین ہم مسلمانوں سے دور کی جارہی ہے اور یہودی اسے اپنا سمجھ بیٹھے ہیں ان شاء اﷲ جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا ،
حالیہ امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے سے امت مسلمہ کی دل آزاری ہوئی مسلمانوں نے پوری دنیامیں احتجاج کیے اور دھواں دھار تقریریں بھی کیں اب یہ مسئلہ دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لیے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی،اس مسئلہ کاحل اﷲ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر ممکن نہیں، اﷲ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے،
آج ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ فلسطین کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے نہیں نہیں یہ امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اگر مسلمان اب بھی بیدار نہ ہوئے تو یہودو نصاری کا دوسرا ہدف حرمین شریفین ہے جس کے لیے وہ کئی عرصہ سے چالیں چل رہے ہیں ، مسلمان شہوت و لذات میں پڑے ہوئے ہیں ہر ایک کو اپنی اپنی لگی ہوئی ہے مسلم حکمران موج ومستی میں مگن ہیں حکمرانی کے مزے لوٹ رہیں ہیں ۔ایک وقت آنے والے ہے اگر بیدار نہ ہوئے تو چن چن کر گاجر ومولی کی طرح کاٹ دیے جائیں گے ، جب امت میں شہوت پرستی ، گمراہ کن لہو و لعب، ہوس پرستی، اور شبہات کا راج رہیگا تو امت پر جارحیت، مصیبتیں اور ہر قسم کی بلائیں اور بحران آتے رہیں گے
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ترجمہ:اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے کیے دھرے کی وجہ سے ہے، اور اﷲ بہت سی چیزوں سے درگزر فرما لیتا ہے۔(القرآن )
اسی طرح اﷲ تعالی نے عزوہ احد کے متعلق فرمایا
ترجمہ: بھلا جب (احد کے دن)تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ "یہ کہاں سے آ گئی ؟" حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو؟ آپ ان مسلمانوں سے کہہ دیں کہ: یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، بیشک اﷲ ہر چیز پر قادر ہے ۔(آل عمران: 165)
یہ بات لازمی ہے کہ امت کو یقین کے تمام درجات کے ساتھ یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ اس وقت جان لیوا بحرانوں اور گری ہوئی حالت سے نجات حقیقی اسلام کے ذریعے ہی ملے گی کہ جس کی بنیاد عقیدہ توحید پر قائم ہو ، جس میں صحیح منہج کی اتباع ہو ، کتاب و سنت کو سلف صالحین کے مطابق سمجھا جائے؛ تو یہی وہ بنیادی ترین اساس ہے جس میں شان و شوکت ، غلبہ اور نصرت کا راز پنہاں ہے، اس کے لیے آپ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ جس وقت انہوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو ان کے تن پہ لباس کیساتھا اور سواری پر سوار کون تھا ۔حضرت عمر ؓ کی سیرت و کردار کو دیکھا جائے جب فاتح بیت المقدس بنے تو اندازِ فاروقی کیاتھا ۔آج ہم اپنے انداز وشان وشوکت کو دیکھیں کیا اس انداز سے ہم بیت المقدس کو فتح کر سکتے ہیں ۔یاد رکھیے کہ قبلہ اول کا تحفظ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے حضرت عمر فاروق ؓ نے اسے ذمہ داری سمجھاتو فاتح بیت المقدس اﷲ کے فضل وکرم سے بنے ۔ہمارے اندر آج ایک نہیں لاتعداد کمزوریاں ہیں دنیا کی آب و تاب کو دیکھ کر ہم اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھ بیٹھے ،مسلمان اس وقت تک فاتح نہیں بن سکتے جب تک سیرت مصطفیﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی سیرت کو اپنا نہیں لیتے کیا، بدروالوں جیساایمان ہو گا تو فرشتے آج بھی ہماری مدد کو اتر سکتے ہیں کیا ہی خوب کہا کہنے والے نے
؂فضاء بدر پید اکر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطاراندرقطار اب بھی
اب ہمیں چاہیے کہ ہمارامسلک و منصب جو بھی ہومسئلہ فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔کسی بھی اقدام کے لیے گہری بصیرت اور کامل حکمت کا ہونا ازحد ضروری ہے کہ انہی دونوں کی بدولت امت اسلامیہ چیلنجز کا مقابلہ ہر صورت میں کر سکتی ہے۔ اس کے لیے آپس میں تعاون، مدد اور شانہ بشانہ چلیں نہ کہ گالم گلوچ، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کھول لیں۔ اس طریقے پر عمل کریں تو ظالم کو ظلم سے روکا جا سکتا ہے تب جاکر امت مسلمہ کو فتح اور کامیابی حاصل ہو گی۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے گہری نظر و فکر کی بھی ضرورت ہے کہ جس کی بدولت جذباتی بھنور کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات سامنے آئیں، متوازن اور بہتر طریقہ کار اپنا کر مخلص کاوشوں کو یکجا کریں،،
امت مسلمہ یک دل ویک جاں تھی ہے اور رہے گی (ان شاء اﷲ )
اﷲ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل بھی ضروری ہے
ترجمہ:یقینا یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔ (القرآن)
اﷲ پاک مسجد اقصیٰ وبیت المقدس کو ظالموں کے چنگل سے آزاد فرمائے اور فلسطین کے مسلمانوں کی مدد و نصرت فرمائے ،پورے عالم میں مسلمانوں کی کافروں کے شرور سے حفاظت فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

 

Tariq Noman
About the Author: Tariq Noman Read More Articles by Tariq Noman: 70 Articles with 95429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.