دنیا میں پہلے پہل حضرت آدم ؑ کو بھیجا گیا اور ان ہی سے
انسانوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اس طرح انسانوں کی طرقی و کامرانی اور
رہنمائی کے لیے اﷲ تعلی نے پیغمبروں کا سلسلہ شروع کیا ان پغمبروں کا ایک
ہی مقصد ہوتا تھا اور وہ یہ کہ انسانوں کو اﷲ واحد لا شریک کی وحدانیت
اوران تک اﷲ تعلی کا پیغام پہنچانا تھا اس سلسلے کی آخری کڑی نبیﷺ پر
آکررکگیا ۔اﷲ تعالی انسانوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اور ایک ماں
کا پیار ہم اسطرح آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں کہ اگر ایک دن بھی بیٹا گھر نہ
آئے تو وہ راتوں رات دیر تک جاگتی ہے اور بیٹے کے آنے کا انتظار کرتی ہے
یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعلی نے جب انسان کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ کیا تو
فرشتوں نے اعتراض کیا کہ انسان بھی جنوں کی طرح زمین پر قتل و غارت کا
بازار گرم کرلینگے اور خون کی ہولی کا کھیل کھیلنا شروع ہو جائگالیکن کن
فیکون کی دیر تھی اور پھر انسانوں کے لیے نہ ہی دنیا بنائی بلکہ اس پر ان
کی رہنمائی کے لیے بھی کام کیا تاکہ وہ سیدھے راستے سے نہ بٹکے۔مختلف قوموں
کے لیے انبیاء کرام بھیجے گئے لیکن نبی کریم ﷺ کا ظہور ایک عالمگیر ہے نبی
کریمﷺتمام انسانوں کے لیے اﷲ وحدہ لاشریک کا پیغام لے آئے اور قیامت تک کی
انسانوں کی رہنمائی کے لیئے مکمل ضابطہ حیات پیش کیا اب ہمیں یہ دیکھنا
چاہئے کہ جس وقت نبی ﷺ عرب کے معاشرے میں تشریف لائے اس زمانے کو زمانہ
جاہلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس جاہلیت میں سرمایہ دار اور جاگیردار
ظالم طبقہ کے لوگ معاشرے پر قابض ہوتے اور باقی انسانوں پر طرح طرح کے
مظالم ڈائے رکھتے اور باقی معاشرہ ان کا غلام رہتا انسانوں کے حقوق ضبط کئے
جاتے اور عورتوں پر یہاں تک ظلم کہ زندہ درگور کیا جاتا کسی کی بیٹی پیدا
ہو جاتی تو اسے زمین کے اندر زندہ گاڑھ دیا جاتا اس معاشرے کو راہ راست پر
لانے کے لیئے اور آیندہ کے تمام انسانوں کے واسطے نبی کریمﷺ نے ایک مکمل لے
آیا جس کا مقصد آخرت تک کے تمام انسانوں کو اس پر عمل کر کے ایک خوشخال
معاشرہ قایم کرنا ہے جس میں زمانہ جاہلیت جیسا کوئی قانون نہ پایا جائے اور
نہ ہی ان کی طرح ظلم کیے جائے اب جبکہ ہمارے پاس ایک مکمل پیغام موجود ہے
اور اس پیغام ہی کے ذریعے آج سے تقریباچودہ سو سال پہلے ایک ایسا معاشرہ
قایم کیا گیا جسکی مثال آج تک نہیں ملتی ۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم
مسلمان سب سے زیادہ دین الہی کے ماننے والے اور دعویٰ کرنے والے ہے اور
اسکی ذمہ داری لیتے ہوے ہمارا پہلا فرض یہی بنتا ہے کہ اس جیسا معاشرہ قائم
کرے جہاں زینب کی طرح سات سال کی لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ کوئی نہ بنا
سکے انتہائی افسوس کے ساتھ ہمیں آج یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ ۔۔۔۔ہم خوار ہیں
طارق قراں ہو کر۔۔ایک جمہور ریاست میں سات سالہ معصوم سے جنسی ہوس پورا کیا
جاتا ہے اور پھر بربریت یہ کہ اسی کو قتل کرکے ڈھیران پر پھینک دیا جاتا ہے
یہ کہاں کی انسانیت ہے؟یہ کیسا ریاست ہے ؟ ریاست تو تمام تر مجبوریوں اور
مسائل کو پس پشت ڈال کر شہری زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کا ذمہ دار ہوا
کرتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر اور درندگی کیا ہو سکتی ہے کہ سات سالہ بچی سے
جن سی ہوس کو پورا کیا جائے اور اسکے بعد اس سے زندگی کا حق بھی چھین لیا
جائے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ انسان اﷲ تعالی کا اس زمین پر نائب
اور خلیفہ ہے اور خلیفہ ہونے کے ناطت انسان کو وہ تمام طر ذمہ داریاں
نبھانی چاہئے کہ جو اسکے ذمے ہے لیکن اگر وہ اس سے انکار کرتا ہے تو وہ خدا
کا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے ایک معاشرے میں جب ایسی نادیدہ ہرکت ہوتی ہے
تو اس معاشرے کے ذمہ داروں پر یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اسکی جواب طلبی کرے اور
انصاف کی فراہمی یقینیی بنائے معاشرتی زمہ داروں کی یہ بھی زمہ داری ہے کہ
وہ ان شہریوں کا آخلاقی معیار بھی بلند کرے اور شہریوں کی اس طرح سے تربیت
کرے کہ وہ ان تمام اعمال سے نفرت کرنے لگ جائے جن کو معاشرے کے لیے نقصان
دہ قرار دئے ہو۔قیامت تو آنی ہے اور اس دن تو سب کا احتساب ہو گا لیکن
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی جرم آج ہوتا ہے اور اس جہاں میں ہوتا ہے تو اسکی
سزا بھی آج ہی ملنی چاہئے لہذا آج ہمیں اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈال کر یہ
دیکھنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی زمانہ جاہلیت کے موافق نہ ٹھرے جائے اور آج
ہمیں زینب کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دے کر یہ ممکن بنا نا چاہئے کہ کل
کی زینب کی عزت محفوظ ہو سکے - |