ملک میں جرائم کی شرح کافی حد تک کم ہوگئی ہے،فوج اور
رینجرز کی کارروائیوں کے بعد ملک میں دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر
ہوگئے ہیں ۔لیکن ابھی بھی ظلم کی کچھ ایسی داستانیں رقم ہوجاتی ہیں جو
ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ دیتی ہیں ۔یہ ظلم کی کہانیاں شاید ملک میں اس لئے
اب بھی موجود ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں قانون نافذ کئے جانے والے اداروں کی
جانب سے گرفتار ملزمان کو کبھی معافی مل جاتی ہے اور کبھی انہیں باعزت بری
کردیا جاتا ہے۔قتل کے مجرم جب فتح کانشان لہراتے ہوئے باعزت بری ہوجاتے ہیں
تو زبان بے ساختہ کہہ اٹھتی ہے کہ شاید یہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔
سال 2016 میں ملک بھر میں 100 سے زائد بچوں کو اغواء کے بعد زیادتی کا
نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، جبکہ سال 2017 میں یہ تعداد 62 رہی۔ ’اس طرح کے
معاملات میں اگر اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو 2015 میں قصور اسکینڈل
کو ملا کر 451 کیسز صرف قصور سے سامنے آئے جبکہ 2016 میں قصور میں یہ
واقعات کم ہو کر 141 ہو گئے تھے، اسی طرح 2017 میں قصور میں بچوں کے ساتھ
جنسی زیادتی کے 129 کیس سامنے آئے۔چندروز قبل بھی قصور میں ایسا ہی ایک
واقعہ پیش آیا زینب نامی سات سالہ بچی پڑھنے گھر سے نکلی تھی لیکن گھر کے
قریب بچی کو راستے میں اغوا کرلیا گیا، بچی کی گمشدگی پر اہل خانہ نے پولیس
میں رپورٹ درج کرائی بعد ازاں بچی کی لاش کچرے کے ڈھیر میں سے بر آمد
ہوئی۔بچی کی لاش ملنے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل
کیا گیا تھا، جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے
کردیا گیا تھا، تاہم اس حوالے سے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچی کے
ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی گئی ہے۔
واقعہ کے بعد صرف قصور ہی نہیں ملک بھر کی فضا سوگوار ہوگئی ۔بچی کے ماں
باپ جو عمرے کی سعادت حاصل کرنے ملک سے باہر گئے تھے ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھا
دیئے گئے۔اس واقعے کے بعد ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج کیا
گیا اور تاجروں نے مکمل طور پر شٹر ڈاؤن کیا اور فیروز پور روڈ کو بلاک
کردیامظاہرین نے پنجاب حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن
وہ نہیں جانتے تھے کہ ابھی تو ماڈل ٹاؤن میں شہید کئے جانے والوں کے قاتلوں
کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔پھر اس بچی کے قاتل چند دنوں میں کیسے مل
جاتے ؟
عوام کے محافظوں کی جانب سے عوام پر انصاف مانگنے کے جرم میں گولیاں چلائی
گئیں ۔زینب کے لئے انصاف مانگنے والوں میں سے دو افراد کو شہید کردیا
گیا۔لاشیں گرنے کے بعد کسی ہندستانی فلم کی طرح پنجاب حکومت کے ہیروز کو
خیال آگیا اور واقعہ کا نوٹس لے لیا گیا ،رپورٹ طلب کرلی گئی،تحقیقات تیز
کرنے کا حکم دیا گیا اور اب دیکھیں کب رپورٹ آتی ہے؟کب ملزم گرفتار ہوتے
ہیں اور کب انہیں لٹکایا جاتا ہے یا پھر قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔۔۔
اس بات کا ذکر تو آغاز میں ہی کردیا گیا ہے کہ یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا
واقعہ نہی ایسے کئی واقعات میڈیا کے ذریعہ روزانہ کی بنیادوں پر سامنے آتے
ہیں ،اس معاملے میں سب سے اہم ذمہ داری تووالدین کی ہے کہ وہ بچوں کو اکیلے
گھروں سے نہ جانے دیں چاہے برابر والے مکان تک ہی کیوں نہ جانا ہو۔ ساتھ ہی
بچوں میں شعور بھی پیدا کیا جائے کہ کسی بھی انجان کی بات نہ سنیں نہ ہی ان
کے پاس یا ساتھ کہیں جائیں،اس کے ساتھ یہ ذمہ داری اساتذہ کی بھی ہے کہ وہ
بچوں میں اس قسم کے واقعات سے بچاؤ کیلئے شعور پیدا کریں۔
اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دنیا میں ایسے درندے موجود ہیں
جو ان بچوں کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنا دیتے ہیں جنہیں ابھی کھانے
پینے کا شعور بھی نہیں ہوتا ۔ ان افراد کو لگام دینے کا ایک ہی حل ہے ملک
میں اس قسم کے جرائم کی سزا اسلام کے عین مطابق ہو،اگر ان جرائم میں گرفتار
افراد کو سنگسار کیا جائے اور اس کی خبر بھی اسی طرح نشر کی جائے جس طرح
جرائم رونما ہونے کی خبریں نشر کی جاتی ہیں تو شاید پھر کسی کے اندر کا
شیطان نہ جاگے ۔ہاں اگر ملزمان گرفتار ہی نہ ہوں ،یا بااثر افراد کے دباؤ
ڈالنے کے بعد انہیں معافی مل جائے یا باعزت بری کردیا جائے تو پھر روزانہ
نا جانے کتنی زینب زیادتی کا نشانہ بن کر قتل ہوں گی۔
ملک میں اس وقت سیاسی بحران ہے جو سب کے سامنے ہے،یہ موضوع سیاسی نہیں ہے
نہ ہی اس پر کسی کو سیاست کرنے کا حق ہے۔لیکن حکمراں اپنے گھروں میں پیٹھے
بیان بازیاں کرنے کے بجائے ملزمان کی گرفتاری کیلئے اقدامات کریں۔زینب کے
والدین کے دکھ کو سمجھیں،حکمرانوں کے بچوں کے متعلق کوئی بیان بھی داغ دے
تو یقینی طور پر ان کو تکلیف ہوتی ہے اور اس بیان کے رد عمل میں کئی بیان
سامنے آجاتے ہیں۔آخر زینب بھی تو کسی کی بیٹی تھی ۔۔آخر زیادتی کا شکار
ہونے والے دیگر بچے بھی تو کسی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں گے۔کیا اس ملک میں
ظلم اسے ہی تصور کیا جائے جو کسی وی آئی پی کے ساتھ ہوتا ہے؟کیا وہی بچے یا
افراد زندہ بازیاب ہوں گے جن کے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کسی سرکاری
یا غیر سرکاری بڑے عہدے پر فائز ہوں گے؟کیا عام لوگوں کے بچوں کو جینے کا
کوئی حق نہیں ؟کیا کسی غریب کی بیٹی کو اپنی عزت کے تحفظ کیلئے اس بات کا
انتظار کرنا ہوگا کہ اس کے والدین یا عزیز کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز
ہوں ؟
زینب کے والدین نے آرمی چیف اور چیف جسٹس سے اس واقعہ کا نوٹس لینے کی
درخواست کی تھی ،یہ بات نہایت خوش آئین ہے کہ دونوں چیفز نے مظلوم باپ کی
پکار پر لبیک کہا۔۔چیف جسٹس اور آرمی چیف دونوں کی ہی جانب سے واقعہ کا
نوٹس لیا گیا ہے ۔لیکن یہ عوام آخر کب تک فوج کے آگے اپنا رونا روتی رہے
گی؟یہ عوام آخر کب تک چیف جسٹس کے از خود نوٹس سے امید باندھے رکھے گی؟جن
نمائندوں کو ہم نے منتخب کیا ہے وہ کب ہمیں انصاف دلائیں گے؟وہ کب ہماری
جان مال کی حفاظت کریں گے؟
حکمرانوں کو اب آپس کے جھگڑوں اور فالتو اشوز کو چھوڑ کر عوام کو ریلیف
دینا ہوگا ،عوام کے جان مال کی حفاظت ہوگی ،میں ذاتی طور پر دھرنوں او ر
سڑکوں پر احتجاج کرنے کے خلاف ہوں لیکن یہ معاملہ اس نوعیت کا ہے کہ اب
عوام کو اپنا حق مانگنے کیلئے سڑکوں پر نکلنا ہوگا ،اپنے مجرموں کو کیفر
کردار تک پہنچانے کیلے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا۔ہم میں سے ہر ایک کو
کوشش کرنا ہوگی کہ قصور کی زینب کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ دنیا کی کسی اور
زینب کے ساتھ نہ ہو۔اب ہمیں اپنے حکمرانوں سے ایک ہی مطالبہ کرنا ہوگا کہ
انصاف دو ورنہ ہم سب کو مار دو۔۔۔۔ |