محمود غزنوی ایک مرتبہ رات سونے کے لیے بستر راحت پر آئے
تو محسوس کیا کہ آج وہ پہلے جیسی راحت دستیاب نہیں ہے۔دل میں عجب بے قراری
ہے،پھر خیال گذرا کہ یقینا کہیں ظلم ہوا ہے اور میرے دل میں پیدا ہونے والی
بے چینی کسی فریادی کی آہ و بکا ہے۔فورا خادم کو بلوایا اور حکم صادر
فرمایا کہ سپاہیوں کو بھیج کر شہر کا چکر لگواؤ اور دیکھو کہیں کوئی فریادی
انصاف کا منتظر تو نہیں ہے۔سپاہی بھیجے گئے،کچھ دیر کے بعد وہ لوٹے اور
کہنے لگے،ہمیں ایسا کوئی فریادی نظر نہیں آیا۔محمود غزنوی نے پھر سونے کا
ارادہ کیا تو اس بار بے قراری میں پہلے کی نسبت اور ذیادہ اضافہ محسوس کرنے
لگے۔آخر انہوں نے اس تذبذب سے چھٹکارا پانے کے لیے خود باہر نکل کر دیکھنے
کا ارادہ کیا اور بھیس بدل کر شہر کی گلیوں میں چکر لگانے لگے۔کچھ دور کسی
گلی میں ایک فریادی نظر آیا،اس سے پوچھا کہ آپ کو کیا گزند پہنچا ہے؟کیوں
پریشان ہیں؟اس شخص نے کہا کہ محمود غزنوی خود تو اپنے محل میں آرام سے سویا
ہوا ہو گا اور یہاں مجھ پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ گئے ہیں۔اور میرے غموں کا مداوا
کرنے والا کوئی نہیں ہے۔یہ سنا تو کہا کہ میں ہی محمود ہوں اور آپ کی مدد
کے واسطے ہی آیا ہوں۔اصل ماجرا کیا ہے؟اس پر اس شخص نے بتایا کہ آپ کے
دربار سے منسلک ایک بااثر شخص میرے گھر میں زبردستی گھس جاتا ہے، میری بیوی
کو مارتا پیٹتا ہے اور میری جمع پونجی بھی لے اڑتا ہے۔میں اس کی اعلی حیثیت
کی وجہ سے اس کی شکایت کرنے سے بھی قاصر ہوں۔محمود نے پوچھا کہ اس وقت کیا
وہ آپ کے گھر میں موجود ہے؟اس شخص نے کہا کہ نہیں وہ اب جا چکا ہے۔محمود نے
کہا کہ آئندہ فوری طور پر اس کی آمد کی اطلاع اسے دی جائے۔یہ کہہ کر وہ اس
شخص کو ساتھ لے آئے اور اپنے پہریداروں سے کہا کہ اس شخص کو پہچان لو،یہ جب
بھی آئے اسے فورا مجھ سے ملوایا جائے،میرے نماز پڑھنے کا بھی خیال مت
کرنا۔یہ کہہ کر اس شخص کو رخصت کر دیا۔کچھ دنوں کے بعداس فریادی نے اس ظالم
کے آنے کی اطلاع دی تو محمود نے اپنی تلوار اٹھائی اور اس شخص کے ساتھ اس
کے گھر چلے گئے۔گھر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ شمع گل کر دو۔اور اپنی تلوار
سے اس ظالم کا سر قلم کر دیا۔شمع جلاکر منظر دیکھا تو آپ نے مصلّیٰ منگوا
کر نفل ادا کیے۔پھر اس شخص سے کہا کہ مجھے روٹی لا دو۔اس غریب فریادی نے
کہا کہ حضور مجھ غریب کے گھر میں آپ کے شایان شان کھانا نوش فرمانے کے لیے
نہیں ہے۔آپ نے کہا کہ جو دستیاب ہے حاضر کر دو۔وہ شخص سوکھی ہوئی روٹی لے
آیا۔آپ نے کھانا کھایا اور شکر ادا کرتے ہوئے نکلنے لگے۔اس شخص نے آپ کو
روکا اور کہا کہ حضور آپ نے مجھے تو ظلم سے نجات دلا دی ہے لیکن اپنے اس
عمل کی بابت بھی بتاتے جائیں۔محمود غزنوی نے کہا کہ جب آپ نے مجھے شکایت کی
تو مجھے لگا کہ ایسی جرات صرف میرا کوئی بیٹا ہی کر سکتا ہے اور کسی کو
اتنی جرات نہیں ہو سکتی۔میں نے شمع گل کرنے کا کہا تا کہ شفقت پدری کہیں
مجھے انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے نہ روک دے۔لیکن جب شمع روشن ہوئی تو
دیکھا کہ وہ ظالم میرا بیٹا نہیں ہے تو میں نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔اور
روٹی اس لیے کھائی کہ جب سے آپ نے شکایت کی تھی،میں نے ارادہ کیا تھا کہ آپ
کو انصاف دلا کر ہی کھانا کھاؤں گا۔آج کے دور حاضر کے حکمرانوں کے طرز
حکومت کے حوالے سے اگر یہ واقعہ دیکھیں تو ایسے ہی عجیب لگتا ہے کہ جیسے
پتھروں کے زمانے میں اکیسویں صدی کی ترقی کا تصور عجیب لگتا ہو گا۔یہ سب
ایک خواب لگتا ہے،حیرانی ہوتی ہے کہ ایسے بھی حکمران تھے جو راتوں کو محض
اس وجہ سے نہیں سو پاتے تھے کہ ان کی نیند کسی سائل تک انصاف پہنچانے کی
راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے،آج کے حکمران بھی شاید نہیں سو پاتے مگر یقینا اس
خوف سے کہ کہیں ان کے اقتدار کی شمع گل نہ ہو جائے،دولت کا انبار نہ کم ہو
جائے۔پے در پے ظلم و استبداد کے واقعات کے بعد اس بات میں کیا شبہ رہ گیا
ہے کہ ان کو بے کسوں پر ہونے والے مظالم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔دو دن سے
کیفیت بعید از بیان ہے ،سوچتا ہوں تو دل لرزنے لگتا ہوں،انسانیت کو سر نگوں
کرنے والا یہ بد کردار دنیا میں آیا ہی کیوں تھا؟اس درندے نے ایک بار بھی
نہیں سوچا کہ وہ کیا قیامت برپا کرنے لگا ہے،کلیجوں میں صف ماتم بچھانے لگا
ہے۔کیا اس نے کبھی بیٹیاں نہیں دیکھیں؟کیا وہ اس زمین کا باشندہ نہیں
تھا؟اس کے اندر یثرب کے زمانے کے کسی وحشی بدو کی روح آ گئی تھی،جو بیٹیوں
کو زندہ درگور کر کے فخر محسوس کرتے تھے؟ لیکن اب ان باتوں سے کوئی سروکار
نہیں،اب بس اس کا تڑپتا ہوا لاشا دیکھنے کو جی کرتا ہے۔دل میں درد رکھنے
والا ہر انسان بس اس کا مکروہ وجود سرعام سولی پر لٹکتا دیکھنا چاہتا
ہے۔دور جہالت کی یاد تازہ کرنے والے کو اب جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔فرمان
عزوجل کا مفہوم ہے کہ نا حق قتل ہونے والی بچیاں کل بروز قیامت اپنے قاتلوں
کا گریبان پکڑ کر انہیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر پوچھیں گی کہ انہیں کیوں قتل
کیا گیا۔نجانے ننھی زینب کے ہاتھ میں کس کس کا گریبان ہو گا؟قیامت کی نشانی
ہے کہ نہ مرنے والے کو سبب پتہ ہو گا اور نہ مارنے والے کو۔حضرت عمر فاروقؓ
سے ایک فرمان منسوب ہے کہ جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو تو حاکم وقت اس کا
ذمہ دار ہے۔ننھی زینب کے بہیمانہ قتل کے ذمہ داران کا تعین کرنا ریاست کی
ذمہ داری ہے۔مصر میں پچھلے سال ایک سات سالہ بچی ایٹینا اسلانی کو ایسے ہی
قتل کیا گیا اوروہاں کی حکومت نے قاتل کو بیچ چوراہے میں ایک بھرے مجمع کے
سامنے پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنا دیا۔ اور یہاں کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ
حاکم وقت کا کوئی قصور نہیں ہے۔قصور تو اصل میں بائیس کروڑ پاکستانی عوام
کا ہے،ایک لمحے کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ حاکم کا قصور نہیں ہے
مگرپھر بھی غم کی اس گھڑی میں کیا خود کو ہر ذمہ داری سے مستثنی سمجھنا ہی
ان کی جمہوریت ہے؟ ان کو اتنی چھوٹ کس نے دی کہ وہ اس درندگی کو عام سی بات
کہہ کر ٹالنے کی کوشش کرے اور کہے کہ ایسا آئے روز ہوتا ہے،میڈیا یونہی بات
کو ہوا دے رہا ہے،ایسا کہتے ہوئے اس کا کلیجہ کیوں نہ کانپا؟اسے اپنی
بیٹیاں کیوں یاد نہ رہیں؟ان حکمرانوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے نو سالہ
طیبہ کے قاتلوں کو بیچ چوراہے میں نہیں لٹکایا۔سات سالہ طوبیٰ کے قاتلوں کو
علامت عبرت نہیں بنایا،آٹھ سالہ معصوم عمران کے قاتلوں کو سر عام پھانسی
نہیں دی۔اگر ایسا ہوا ہوتا تو آج ننھی زینب ظلم و بربریت کی بھینٹ نہ
چڑھتی۔قصور تو ہمارا ہے جس کی یاد داشت بہت کمزور ہے،جو ایسے بھولتی ہے
جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ہمارے حاکم صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ
عوام کو انصاف پہنچانا ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔آج ہماری حالت یہ
ہے کہ ظالم کو سزا دلوانے کے لیے بھی سڑکوں پر آنا پڑتا ہے،انساف کے لیے
سڑکوں پر آنے والے ہی مجرم بن جاتے ہیں،ان کو غدار وطن سمجھ کر گولیاں
مارنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔قاتل گرفتار ہو گا ،سزا پائے گا کہ نہیں
مگر دو اور لوگ انصاف مانگنے کی سزا میں پورے ہو گئے۔جمہوریت زندہ باد |