ڈاکٹر ایم ایچ قاضی بھی چلے گئے۔شاید اسلام آباد
یونیورسٹی(جو اب قائد اعظم یونیورسٹی ہے) کے پرانے اور بہترین اساتذہ کی
لڑی کے وہ آخری موتی تھے۔ان کی وفات نے بہت سی یادوں کو جگایا۔اسلام آباد
یونیورسٹی میں کیسے کیسے استاد تھے ۔اتنے عظیم استاد ۔اتنے نایاب استاد۔
ہیروں اور موتیوں سے بھی بڑھ کر قیمتی ۔ایسے لوگ جوکسی بھی قیمت پر نہیں مل
سکتے ۔مجھے یاد ہے 1971 کے آخری مہینوں میں ہماری یونیورسٹی 6th روڈ
راولپنڈی کی کچھ کوٹھیوں سے نئے کیمپس میں منتقل ہوئی تو اس وقت ڈاکٹر رضی
الدین وائس چانسلر تھے۔ ان کا مضمون ریاضی تھا اور عمر بہتر سال سے بھی
زیادہ۔اس سال داخلہ ریاضی، کیمسٹری، فزکس، بیالوجی اور اکنامکس میں ہوا
تھا۔ریاضی کے ڈاکٹر کیو ۔کے۔ غوری، کیمسٹری کے ڈاکٹر ایم۔ اے۔ خان ،
بیالوجی کے ڈاکٹر ایم۔ اے۔ قاضی اور وائس چانسلر ڈاکٹر رضی الد ین صدیقی
سمیٹ ملک کے اس وقت کے بہترین استاد وہاں موجود تھے ، یہ سب وہ استاد تھے
کہ جن کا کوئی نعم البدل نہ اس وقت تھا اور نہ اب ہے۔ بہت شفیق، پیار محبت
سے پیش آ نے والے مگر پڑھائی کے معاملے میں سختی ان کا شیوہ تھا۔ان ساری
باتوں اور ساری خوبیوں کے ساتھ یہ استاد بس اپنی مثال آپ تھے۔وہ ہر لحاظ سے
مکمل استاد تھے۔
میں ریاضی کا طالبعلم تھا۔ میرے محترم استادڈاکٹر کیو۔کے ۔غوری مسکراتے
ہوئے کلاس میں آتے۔ مکینکس ان کا مضمون تھا۔ کوئی عام ٹیچر یہ مضمون پڑھائے
تو مجھے بڑی بوریت ہوتی تھی، رٹا بھی لگانا پڑتاتھا۔ مگر غوری صاحب کا تیز
لہجہ اور مضمون پر پوری گرفت، بتانے کا انتہائی پرکشش انداز، بندے کی پوری
توجہ سمیت لیتا۔ان کے لہجے میں وہ جادو تھا کہ پڑھنے کا مزہ آتا۔خود بخود
توجہ اس طرف مائل ہوتی۔وہ دو تین گھنٹے بھی پڑھا دیتے تو محسوس نہ
ہوتا،آدمی تھکنے کی بجائے اس طرح تروتازہ کلاس سے باہر آتا جیسے دس پندرہ
منٹ ہی پڑھا ہواور ان کا پڑھایا ہوا ازبر یاد ہوتا۔ کلاسوں کے بعد ہمیں سہ
پہر تین بجے تک لائبریری میں بیٹھنا لازمی تھا۔کچھ پوچھنا ہو تو غوری صاحب
کے دفتر میں پہنچ جاؤ۔ وہ پورا وقت اپنے دفتر میں گائیڈنس کے لئے موجود
رہتے۔ ایک آدھ چکر لائبریری کا بھی لگاتے۔ غلطی سے کوئی پڑھنے کی بجائے کسی
اور شغل میں مصروف نظر آیا تو بس اس کا برا حال کر دیتے۔آج بھی جب میں کسی
اچھے استاد کی بات کرتا ہوں تو غوری صاحب کا سراپا میری آنکھوں ہی نہیں رگ
وپے میں بھی اترآتا ہے۔مجھے آج تک ریاضی کا کوئی استاد ان کے معیار کو
چھوتا بھی دکھائی نہیں دیا۔
ایک نئے استاد آئے۔جو پہلی کلاس انہیں ملی وہ ہماری تھی ۔ہم نے تین یا
چاردن بڑی مشکل سے انہیں برداشت کیا۔ نہ ان کا لہجہ سمجھ آتا تھا نہ ان کے
مضمون میں تسلسل تھا۔کچھ گھبرائے، کچھ نروس، ہمارے شور مچانے اور منت سماجت
کرنے کے باوجود وہ اپنی اصلاح نہ کر سکے تو ہم سارے کلاس فیلو غوری صاحب کے
پاس پہنچ گئے۔ غوری صاحب نے انکار کر دیاکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں۔
اسی استاد پر گزارہ کرو۔ہم وائس چانسلر جناب ڈاکٹر رضی الدین صاحب کے پاس
پہنچ گئے۔انہیں بتایا کہ غوری صاحب متبادل نہ ہونے کی وجہ سے انکار کر
چکے۔ٹھوڑی دیر سوچا اور کہنے لگے، آپ لوگ جاؤ، میں کچھ کرتا ہوں۔ اگلی صبح
ہم نے دیکھا ایک بوڑھا شخص لہراتا، جھولتا اور ڈگمگاتا کلاس روم میں داخل
ہوا اور پڑھانے لگا۔بہت اچھا استاد ہونے کے باوجود بڑھاپا ان کے کام میں
حارج تھا۔بہت زیادہ بولنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ زیادہ دیر کھڑے رہنے کی
ان کی صحت اجازت نہیں دے رہی تھی۔ گو متبادل نہ ہونے کے سبب وہ خود موجود
تھے مگر ہمیں اپنے انتہائی شفیق اور اچھے وائس چانسلر کو اس طرح تنگ کرنا
اچھا نہ لگا۔کلاس کے آخر میں ہم نے انہیں کہا کہ آپ کل سے نہ آئیں آپ کو اس
طرح تنگ کرنے سے اس ٹیچر ہی سے پڑھنا ہمیں اچھا لگے گا۔ مسکرائے اور شکریہ
کہہ کرواپس اپنے دفتر چلے گئے۔مجبوراً باقی سیمسٹر ہمیں ان نئے استاد کے
ساتھ سمجھوتہ کرکے گزارنا پڑا۔ کیمسٹری کے ڈاکٹر ایم۔اے۔خان بھی کمال استاد
تھے۔ ان کے شاگرد آج بھی انہیں انتہائی احترام اور پیار سے یاد کرتے ہیں
۔پڑھانے میں یکتا مگر بچے کام نہ کرتے تو بڑی سختی سے پیش آتے اور جب
دیکھتے کہ سب پڑھنے میں مصروف ہیں تو خوش ہوتے۔ پاس سے گزرتے تو ہاتھ ہلاتے
اور مسکراتے ہوئے گا رہے ہوتے،’’ـکچھ کر لو نوجوانوں اٹھتی جوانیاں ہے،
اٹھتی جوانیاں ہیں‘‘۔
ہمارے ایک ساتھی سٹوڈنٹس یونین میں جائنٹ سیکرٹری تھے۔ ایک دن مجھے کہنے
لگے ، یار سب تمہاری بات مان لیتے ہیں میری بات کوئی نہیں سنتا۔میں نے
مشورہ دیا کہ کسی ایک آدھ کو تھوڑا کھینچ دو سب ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگلے دن
وہ یونیورسٹی کے ایک انتہائی نفیس اور سادہ دل افسر کے پاس گئے اور کہا کہ
یہ میں کام بتا رہا ہوں کرتے ہو کہ بے عزتی کروں۔ انہوں نے جواب دیا، بیٹا
میں تمہارے باپ کی عمر کا ہوں، تھوڑا بات کرنے کا سلیقہ سیکھو،کس طرح بات
کر رہے ہو۔میرے ساتھی شریف آدمی تھیاخلاقی مار کھائی اور شرمندہ ہو کر واپس
آ گئے۔ مجھے بتایا کہ کیا بیتی۔تومیں نے ہنس کر کہا کہ پہلے تو کسی بزرگ سے
بات اس طرح نہیں کرتے اور اگر کسی اپنے جیسے کی بے عزتی کرنا مقصود ہو تو
اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔سر ہلا کر سوچ بچار میں ڈوب گئے۔
ہم نے یونیورسٹی میں ہڑتال کی کال دی ۔ کلاسوں کا بائیکاٹ کیا۔میرے وہی
ساتھی چیک کر رہے تھے کہ کوئی کلاس تو نہیں ہو رہی ۔ اتفاق کی بات قاضی
صاحب کلاس لے رہے تھے۔قاضی صاحب بڑے ہر دلعزیز اور نفیس استاد تھے اور ان
کا بے حد احترام تھا۔ان کے شاگرد تو ان کے بہت دلدادہ تھے۔ان کے دیوانے
تھے۔ میرے اس ساتھی نے قاضی صاحب کو کلاس چھوڑنے کا کہا ۔انہوں نے دو منٹ
کا کہا۔ دو منٹ انتظار کرنے کے بعد وہ کلاس میں داخل ہو کر ناراضگی کا
اظہار کرنے لگا۔ کلاس میں تیس بتیس لڑکیاں ہی تھیں۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ
ایک باپ جیسا شفیق استاد پڑھا رہا ہو اور کوئی باہر سے آ کر اس کو اکڑ
دکھائے۔وہ تمام لڑکیاں اس پر چڑھ ڈوریں کہ بات تمیز سے کرو، ہمارے استاد سے
اس طرح بات کرتے ہو۔ بیچارہ مایوس واپس آ گیا۔ یونین میں اس ڈیپارٹمنٹ کی
نمائندگی اس وقت سابق ایم این اے عامرہ احسان اور اس کی ایک ساتھی ذاکرہ
خان کر رہی تھیں۔ غالباً انہوں نے مجھے یہ بات بتائی تو میں قاضی صاحب کے
پاس حاضر ہوا اور بڑی معذرت کی اور ساری بات بتائی۔ ہنس کر بولے ، مجھے اس
نے کیا کہنا تھا مگر جس ڈرے اور سہمے لہجے میں وہ مصنوعی سا اکڑ کر بات
کرنے کی کوشش کر رہا تھا، میں سمجھ گیا تھا کہ اس سادے آدمی کو تمہارے جیسے
کسی شخص نے پٹی پڑھا کر بھیجا ہے۔ یہ کہہ کو وہ مسکرا دئیے۔
یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد ان سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی۔ وہ لاہور ہی
ہوتے تھے۔ مگر اب کافی عرصے سے ان سے نہیں مل سکا تھا، چھہ ماہ پہلے کی بات
ہے، ایک دوست کا فون آیا کہ اس کے گھر پر دعوت ہے۔ قاضی صاحب تشریف لا ئیں
گے۔ بہت عرصے سے ان سے ملاقات نہ ہونے سے اک تشنگی تھی۔ سوچا اس بہانے
استاد محترم سے ملاقا ت ہو جائے گی مگر سوئے اتفاق ایک دن پہلے اسی دوست کا
فون آیا کہ قاضی صاحب کی طبیعت کچھ زیادہ خراب ہے آ نہیں سکتے اس لئے
پروگرام کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر رہا ہوں ۔ افسوس کہ نہ وہ پروگرام دوبارہ
ہوا نہ ملاقات ۔ وہ تشنگی اب تشنگی ہی رہ گئی ہے ۔ قاضی صاحب اب کبھی نہیں
آئیں گے مگر ان کی یادیں ان کے ہزاروں شاگردوں کے دلوں میں ہمیشہ منور رہیں
گی۔
وے صورتیں الہی اب کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
|