فرسودہ نظام تعلیم سے نجات کا راستہ

کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کے نظام تعلیم کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہوتی۔تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے، یعنی یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تعلیم ہی مسائل کا حل ہے،تعلیم یافتہ معاشرے میں جرائم کی شرح بھی کم ہوتی اور ترقی بھی ایسے معاشرے اور ملک کا مقدر بنتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں نافظ تعلیمی نظام کے اثرات اس کے برعکس ہیں۔ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کردیتا ہے۔اگر ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کے متعلق تحقیق کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کے تمام علاقوں میں ایک جیسا نظام تعلیم نافظ ہوتا ہے۔پاکستان کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہر صوبے ہر شہر بلکہ ہر ادارے میں ہی علحدہ تعلیمی نظام نظر آتا ہے،عام طور پر ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔پہلی قسم وہ ہے جو اردو میڈیم یا سرکاری اداروں میں رائج ہے ،دوسری قسم غیر سرکاری یا انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں میں نافظ ہے جب کہ تعلیمی نظام کی تیسری قسم مدارس یا دینی درسگاہوں میں رائج نظر آتی ہے۔تعلیمی نظام کی مختلف درجوں میں تقسیم کی سب سے بڑی وجہ حکومتی حلقوں کا اس معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ ہے۔

کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کے نظام تعلیم کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہوتی۔تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے، یعنی یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تعلیم ہی مسائل کا حل ہے،تعلیم یافتہ معاشرے میں جرائم کی شرح بھی کم ہوتی اور ترقی بھی ایسے معاشرے اور ملک کا مقدر بنتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں نافظ تعلیمی نظام کے اثرات اس کے برعکس ہیں۔ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کردیتا ہے۔اگر ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام کے متعلق تحقیق کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک کے تمام علاقوں میں ایک جیسا نظام تعلیم نافظ ہوتا ہے۔پاکستان کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہر صوبے ہر شہر بلکہ ہر ادارے میں ہی علحدہ تعلیمی نظام نظر آتا ہے،عام طور پر ہمارے ملک میں تعلیمی نظام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔پہلی قسم وہ ہے جو اردو میڈیم یا سرکاری اداروں میں رائج ہے ،دوسری قسم غیر سرکاری یا انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں میں نافظ ہے جب کہ تعلیمی نظام کی تیسری قسم مدارس یا دینی درسگاہوں میں رائج نظر آتی ہے۔تعلیمی نظام کی مختلف درجوں میں تقسیم کی سب سے بڑی وجہ حکومتی حلقوں کا اس معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ ہے۔

ٓاگر اردو میڈیم میں رائج تعلیمی نظام کا نقشہ کھینچا جائے تو یہ ایک ایسا تعلیمی نظام ہے جس میں اردو مضامین کوزیادہ اہمیت حاصل ہے۔عام طور پراردو میڈیم یا سرکاری اسکولوں میں غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افرد کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں۔تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان سکولوں کے طلبا کو رٹا سسٹم پرگامزن کیا جاتا ہے۔ایسی صورت حال میں طالب علم کی ذہنی صلاحیتیں کمزور ہوجاتی ہیں اور وہ خود سے سوچنے اور لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔جو ان کے مستقبل کے لئے نتہائی نقصان دہ ہے۔

اگر انگریزی میڈیم نظام تعلیم کی بات کی جائے تو یہ نظام عام طور پر پرائیویٹ اداروں میں نافظ ہوتا ہے۔چھوٹے پیمانے پر قائم پرائیویٹ اسکولز کی اکثریت میں انگریزی میڈیم نظام تعلیم صرف نام کی حد تک ہے،ان اداروں میں کتابیں تو انگریزی زبان میں موجود ہوتی ہیں مگر افسوس ان کا ترجمہ خود اساتذہ کو بھی معلوم نہیں ہوتا ۔اگر ملک کے بڑئے اسکولوں کی بات کی جائے تو ،ان ا سکولوں کی فیس اس قدر زیادہ وتی ہے کہ کم آمدن والے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ان میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا خواب دیکھنے سے بھی محروم ہیں، جس وجہ سے صرف امراکے بچے ہی ان اسکولوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ ان اسکولوں کے نظام تعلیم میں کمزوری یہ ہے کہ ان میں اسلامی مضامین، اردو اور سندھی وغیرہ کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ان اداروں سے فاضل طلبہ انگریزی بولنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ قومی زبان بولنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔

ملک میں رائج تیسرے نظام تعلیم کی بات کی جائے تو یہ صرف مدارس یا چند ایک اسلامی اسکولوں، کالجوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اس قسم کے تعلیمی اداروں میں اسلامی مضامین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ انگریزی، کمپیوٹر، سائنس اور معاشرتی علوم جیسے اہم مظامین کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔گویا ایسے نظام تعلیم میں توجہ صرف دینی علوم پر ہی رکھی جاتی ہے۔ان اداروں سے فاضل طلبہ عالم تو بن جاتے ہیں ،ان کے پاس دینی علوم کی بھی کثرت ہوتی ہے لیکن ان درسگاہوں سے فارغ طلبہ میں سے کوئی طالب علم ایسا نہیں ہوتا جو آنے والے وقتوں میں ڈاکٹر ،انجیئیر یا سائنس دان بن سکے۔

ملک میں رائج تینوں اقسام کے نظام تعلیم کے متعلق وسیع تحقیق کے بعد یہ باتواضح ہوتی ہے کہ وطن عزیز ایسے افراد سے محروم ہے جو بیک وقت ملک ،ملت اور دین کی بہبود کے لئے یا ترقی کے لئے کام کرسکیں۔چند ایک افراد ایسے یقیناًموجود ہوں گے جنہیں تعلیم کے اعتبار سے پرفیکٹ کہا جاسکتا ہے،لیکن ملک کے تعلیمی ادارے ایسے افراد کو بین الاقوامی اور قومی سطح پر سامنے لانے سے محروم ہیں جو اردو بولیں تو غالب کی جھلک نظر آئے،جو انگریزی بولیں تو گمان ہو کہ پوری زندگی اگلستان میں بسر کی ہے،اور جن سے کوئی غیر مسلم سوال پوچھ لے تو جواب یہ نہ ملے کہ مجھے نہیں معلوم مولوی صاحب سے پوچھ کر بتاؤں گا ۔

ملک میں اس وقت جتنے بھی تعلیمی نظام نافظ ہیں انہیں مکمل تعلیم نظام نہیں کہا جاسکتا ۔تینوں اقسام سے فاضل طلبہ میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے۔اور ایسا ہونا ایک قدرتی عمل ہے، انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد انگریزی کو ہی اپنی زبان اور کلچر سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو خود سے کمتر سمجھتے ہیں جنہیں انگریزی نہیں آتی ۔دوسری طرف اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اس بات کا گھمنڈ ہوتا ہے کہ انہیں اپنی قومی زبان سے محبت ہے اور انہیں اس پر مکمل عبور حاصل ہے جبکہ ساتھ ہی وہ احساس کمتری کا شکار بھی رہتے ہیں کہ وہ کسی بھی محفل میں انگریزی نہیں بول سکتے نہ ہی محافل میں انگریزی میں ہونے والی باتیں وہ سمجھ سکتے ہیں،مدارس کے طالب علموں کی باتت کی جائے تو وہ اس بات پر ناز کرتے ہیں کہ ان کے پاس دین کی تعلیم موجود ہے لیکن معاشرہ انہیں اس بات کااحساس دلاتارہتا ہے کہ وہ مدرسے اور مسجد تک محدود ہیں کسی اور شعبے ممیں ترقی کرنا انکے بس کی بات نہیں ۔

ملک میں موجود تینوں تعلیمی سسٹم نامکمل ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسا تعلیمی سسٹم رائج کیا جائے جو طلبہ کی مکمل تربیت کرے،یہ تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جو دینی اور دنیاوی تعلیم کا ایک بہترین امتزاج ہو تاکہ طلبہ کی تمام تر ذہنی ضروریات کو پورا کیا جاسکے ۔یکسان تعلیمی نظام کو رائج کرنے سے طلبہ کے درمیان اختلاف کا خاتمہ ہوگا ۔اردو ہماری قومی زبان ہے ،دنیا میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی وہ سب اپنی زبان ہر فخر کرتی ہیں اور اپنی زبان پر مہارت بھی رکھتی ہیں۔ملک میں موجود تمام تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کرنا ہوگا کہ اردو پر توجہ دی جائے،طلبہ میں اردو بولنے اور پڑھنے کاشوق پیدا کیا ،نیز اور اردو کی تدریس کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے جو خود اردو کے ماہر ہوں۔

انگریزی رابطے کی بین الااقوامی زبان ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،ملک میں موجود بڑے اسکولوں کی طرز پر مدارس اور سرکاری اسکولوں کو بھی اس بات کا پابند کیا جائے کہ اسکول میں طلبہ کی انگریزی کی باقاعدہ کلاسز کا انعقاد کیا جائے اور طالب علموں کو کم از کم اتنی انگریزی سکھا دی جائے کہ وہ کسی بھی غیر ملکی کے سامنے اپنا نظریہ بخوبی بیان کر سکیں۔واضح رہے کہ انگریزی تعلیم کے حصول کا یہ مقصد نہیں کہ ہم اپنی ثقافت کو بھول کر انگریزوں کے رنگ میں ہی ڈھل جائیں۔اس طرح دین ہماری زندگیوں کا اہم جز ہے لہذا دینی علوم کا مساجد اور مدارس تک محدود نہ کیا جائے بلکہ دینی تعلیم کو اسکولوں کالجوں میں بھی رائج کیا جائے۔

ایک مکمل اور بہترین تعلیمی نظام میں ہی ہماری کامیابی ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم کردار حکومتی حلقوں کو ادا کرنا ہوگا۔سب سے پہلا قدم تو یہ لیا جائے کہ آئین میں کم از کم اس بات کی ترمیم کردی جائے کہ وزیر تعلیم اس شخص کو بنایاجاسکے گا جو ماسٹر ڈگری ہولڈر ہوگا،ساتھ ہی اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایک ایسا نصاب ترتیب دیا جائے جس میں اردو ،انگریزی،جدید علوم،علاقائی زبانوں اور دینی تعلیم کو یکساں حیثیت حاصل ہو،پھر ملک کے تمام تعلیمی اداروں خواہ وہ سرکاری اسکول ہوں،ماڈرن اسکول یا مدارس ان کو اس بات کا پابند کیا جائے وہ یہی نصاب پرھائیں گے۔ا س طرح مدارس کہ طلبہ انگریزی اور اردو پر عبور حاصل کرسکیں گے جبکہ اسکولوں کے طلبہ دین سے واقٖف ہوجائیں گے۔اور آنے والے وقتوں میں اسکولوں میں ایسے طالب علم موجود ہیں گے جو مستقبل میں عالم دین بن سکیں گے جبکہ مدارس میں ایسے طلبہ موجود ہوں گے جو مستقبل میں اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ کامیاب ڈاکٹر بھی ہوں گے،اس ضمن میں ان اداروں کو ختراج تحسین پیش کرنا چاہیے جو طلبہ کو دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم سے روشناس کرا رہے ہیں،ان اداروں میں جامعہ الترشید،عثمان اسکولز جیسے ادارے شامل ہیں۔

Sheheryar Shaukat
About the Author: Sheheryar Shaukat Read More Articles by Sheheryar Shaukat: 19 Articles with 16611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.