میں سیڑھیاں اتر کر روڈ پر پہنچا تو انہوں نے مجھے سلام
کیا۔ساتھ ہی پوچھا: کہاں کے ارادے ہیں؟بازار جا رہے ہیں؟ میں نے اثبات میں
سر ہلاتے ہوئے جی کہا۔ وہ دو قدم رکے ، پھرہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے بڑھنے
کو کہا۔( یہ احترام کا ایک انداز تھا) نہیں نہیں، شرمندہ تو نہ کریں۔ میں
نے قدم روکتے ہوئے کہا۔ پھر انہوں نے بازو سے پکڑا اور آگے بڑھ گئے۔ ہم
باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ بازارکی طرف چلے جارہے تھے۔وہ شیریں لب و لہجے
میں باتیں کر رہے تھے۔ میں ان کی باتوں میں اتنا مگن تھا کہ نام پوچھنے تک
کا ہوش نہ رہا۔ دس سے پندرہ منٹ کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوا۔ باتیں
کرتے ہوئے اچانک انہیں کھانسی کو دورا پڑا، ساتھ ہی انہوں نے معذرت خوانہ
انداز میں کہا: ’’معاف کرنا، نزلہ، زکام، بخار، جو کہ سردیوں کی سوغات ہے
ساتھ لیے پھرتا ہوں۔ اور نزلہ کی وجہ سے تو بلغم بھی بہت آتا ہے۔ ناک کی
رطوبت بہت تنگ کرتی ہے۔
ہم بارخ قبلہ (مغرب کی سمت)بازار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایک جگہ انہیں پھر
کھانسی ہوئی، چھینکیں آئیں۔ انہوں نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور خود قبلہ
کی طرف سے رخ پھیر کرمجھ سے چند قدم دور ہوئے۔ میں پیچھے مڑا تو میری طرف
اب ان کی پشت تھی۔وہ رخ موڑے راستہ کے کنارے بیٹھے تھے۔ہاتھ میں رومال تھا۔
میں وہیں کھڑا ، تعجب سے انہیں دیکھتا رہا۔ دماغ کی تختی پر ایک سوال ابھر
رہا تھا۔ کہ انہوں نے تھوکنا ہی تھا، ناک کی رطوبت پھینکنی تھی تو اس (قبلہ
کی طرف)طرف بھی تو پھینک سکتے تھے۔ پھر وہ آئے اور کہا چلیں؟ ساتھ ہی ہمارے
قدم بازار کی طرف اٹھنے لگے ۔میرے چہرے پر تعجب کا سایہ لہراتا دیکھ کر وہ
گویا ہوئے: جانتے ہیں آپ، میں پیچھے مڑ کر کیوں گیا؟ نہیں ۔ میں نے جواب
دیا۔ دراصل مجھے بلغم بہت آتا ہے۔ بار بار تھوکنے کی حاجت ہوتی ہے۔ اس لیے
کنارے پر ہو کر حاجت پوری کر رہا تھا۔جی کوئی بات نہیں ۔ میں نے جواب دیا۔
ان کے اس عمل سے مجھے ان کے بامہذب ہونے کا اندازہ تو ہو چکا تھا مگر ان کا
قبلہ کی طرف سے منہ پھیر کر تھوکنا سمجھ میں نہیں آیا تھا۔خیر! انہوں نے
میرے دماغ کی تختی کو پڑھتے ہوئے کہا: میں اسی طرف (قبلہ کی طرف)تھوک سکتا
تھا مگر کیا ہے ناں! ! ایک حدیث مبارکہ اور میرا ایک خواب مجھے اس عمل سے
روکتا ہے۔ (اور ہر مسلمان کو رکنا بھی چاہیے) جس پر میں خدا تعالیٰ کا شکر
گزارہوں۔ میں انتہائی توجہ سے سن رہا تھا۔ مجھے ان کی باتیں پراسرار معلوم
ہو رہی تھیں۔ انہوں نے میری طرف دیکھا ۔ مجھے متوجہ پا کر دوبارہ بولے: میں
ایک بار ایک مجلس میں شریک تھا۔ جہاں ایک بزرگ بیان فرما رہے تھے۔ آداب
بیان کرتے ہوئے انہوں نے ایک حدیث مبارکہ بیان کی۔ کہ’’ حضور اقدس ﷺ نے
فرمایا: جس نے بھی قبلہ کی جانب تھوکا ، تو اس کا تھوک قیامت کے دن اس کی
دونوں آنکھوں کے درمیان لگا ہوا ہوگا۔ (ابوداؤد)
جب مجلس برخاست ہوئی تو میں مسجد سے باہر نکلا، اور راستے پر چلتے ہوئے
تھوکا، ناک کی رطوبت پھینکی اور چلتا گیا۔ میں چوں کہ قبلہ کی سمت چل رہا
تھا۔ مجھے حدیث مبارکہ کا خیال تو آیا مگر ’’حدیث ہی تو ہے، کون سا فرض ہے‘‘
سوچ کر، سر کو جنبش دی اور گھر آگیا۔ یہ بات ’’قبلہ کی طرف نہیں تھوکنا
چاہیے‘‘ چمٹ سی گئی تھی۔ تھوک لیتا پھر خیال آتا کہ نہیں تھوکنا چاہیے ۔
خیر دن گزرتے گئے ۔ ایک بار رات کو سویا تو کیا دیکھتا ہوں ہر طرف دھواں سا
چھایا ہے۔ سب لوگ ایک طرف کو بڑھ رہے ہیں۔قبریں پھٹ رہی ہیں اور ان میں سے
مردے نکل کر ایک جانب کو دوڑ رہے ہیں۔ ننگ دھڑنگ جسم ، مگر کسی کو کسی سے
کوئی سروکار نہیں۔ ہر کوئی اپنی فکر میں ہے۔ایک میدان ہے۔جہاں تاحدِ نگاہ
سر ہی سر نظر آرہے ہیں۔ ایک دوسرے سے بے نیاز لوگ جمع ہیں۔ آہ بکاہ ، چیخ و
پکار سے کان پھٹنے لگتے۔ سورج سوا نیزے پر تھا۔ وہاں بھائی بھائی سے بے
نیاز تو بہن ماں سے حائف، کوئی اگر اپنے خاندان والوں کے پاس جاتا بھی ہے
تو وہ اسے دھتکار دیتے ۔ جیسے اس سے زیادہ اپنی فکر ہو۔ ماں کے پاس جاتا تو
وہ اسے دور کر دیتی۔ باپ کے پاس جاتا تو وہ بھی اس سے ایسے بدکتا جیسے
گھوڑا ڈر جائے تو بدکنے لگتا ہے۔بھائی بہن کے کام نہیں آرہاتو شوہر بیوی کے
کام نہیں آرہی۔ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا۔ اسی اثنا میں نے دیکھا ، نور
کے دو ہیولے( فرشتے )مجھے گھسیٹتے ہوئے لا رہے ہیں۔ میرے چہرے پر ناک کی
رطوبت اور تھوک ملا ہوا ہے۔ مجھے قبلہ کی طرف تھوکنا یاد آیا۔
اسی وقت میں ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا، ارگرد دیکھا تو گھپ اندھیرا تھا۔ جس میں
کچھ سجائی نہیں دے رہا تھا۔خود کو ٹٹولا تو بستر پر پایا۔ سخت سردی میں بھی
پسینے سے شرابور تھا۔پسینے کے قطرے کمر سے نیچے کو لڑھک رہے تھے۔ میں نے
قریب رکھا پانی پیا تو ایسے لگا جیسے گلے میں پھانس اور کانٹے اٹکے ہوں۔
اسی وقت اٹھا ، وضو کیا، دو رکعت صلوٰۃ توبہ پڑھی، اﷲ جی سے معافی مانگی،
اس امید کے ساتھ کہ اﷲ جی تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اپنے بندے
سے۔اور ہر وقت انتظار میں رہتا ہے کہ کب میرا بندہ میری طرف لوٹ آئے۔صبح
ہوئی تو نمازِ فجر کے بعد بعد امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس حدیث
مبارکہ کے متعلق دریافت کیا۔ تب مولانا نے فرمایا: بالکل ایسا ہی ہے۔
ابوداؤد شریف کی روایت ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ بارخ ِ قبلہ تھوکنے، ناک کی
رطوبت پھینکنے سے اجتناب کرنا چاہیے،کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ بس تب سے لے
کر آج تک اس بات کا خیال رکھتا ہوں۔ حدیث مبارکہ کو عزت و توقیر سے سنتا،
اور عمل کی کوشش کرتا ہوں کہ یہی آخرت میں ہماری نجات کا سبب بنیں گی۔
میں ہیچاں و پیچاں انہیں دیکھتا رہا۔ کیوں کہ لاعلمی کی وجہ سے یہ غلطی کئی
بار مجھ سے بھی سرز د ہو چکی تھی۔ وہ اپنی با ت مکمل کر کے خاموش ہوئے تو
ہم بازار پہنچ چکے تھے۔ میں نے اس طرف جانا ہے۔ انہوں نے کہا۔ ساتھ ہی وہ
سلام کر کے اس جانب پڑ گئے ۔ وہ ذرا سا چلے پھر رک کر مڑے ، میں انہیں ہی
دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے آواز دی:وہ !!! نام تو بتایا ہی نہیں آپ نے۔ میں نے
نام بتایا، وہ مسکرائے اور ایک گلی میں مڑ کر غائب ہو گئے۔ جب کہ میں اپنے
ساتھ عہد کرتا ہوا اپنے راستے ہو لیا کہ آئیندہ ہر ہر ادب کا لحاظ رکھوں گا۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ |