حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؛قرآن و حدیث کی روشنی میں (۲۱)

امام جعفر صادق ؑنے ارشاد فرمایا :جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ’’وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ ‘‘
او ر کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے۔ (سورہ نساء؍۱۵۹)
ٓامام نے فرمایا:سوائے کافروں کے کوئی بھی شخص جنا ب عیسیٰ ؑ کے سلسلہ میں نازل کی گئی باتوں کے انکار پر باقی نہ رہا ۔(تفسیر فرات الکوفی )
رسول خدا نے ارشاد فرمایا:اے علی ؑ !جناب عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام اور تمہارے درمیان مشابہت پائی جاتی ہے جیسا کہ اﷲ نے ارشاد فرماتا ہے۔’’وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیھم شھیداً‘‘۔
او ر کوئی اہل کتاب میں ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن عیسیٰ اس کے گواہ ہوں گے ۔ (سورہ نساء؍۱۵۹)
اے علی!کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو عیسیٰ اؑ بن مریم علیہما السلام پر افترا پردازی کرتا ہواوروہ مر جاتاہو مگر یہ وہ موت سے قبل آپ پر ایمان لاتا ہے اور آپ کے بارے حق بیانی کرتا ہے جب کہ اس وقت اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ۔تمہاری مثال بھی جناب عیسیٰ علیہ السلا م کی طرح ہے ۔تمہارے دشمن کو موت نہیں آتی یہاں تک وقت مرگ وہ تمہیں دیکھتا ہے۔تم اس وقت ناراض اورہوجاؤ گے۔ وہ تمہارے حق کا اقرار کرے گا ،تمہارے حق پر ہونے اور تمہاری ولایت کا بھی اقرار کرے گا ۔لیکن اس وقت یہ حق بیانی اسے کوئی فائدہ نہیں پہونچائے گی ۔(موت کے وقت تمہارا تمہارا دوست بھی تمہیں دیکھے گا لیکن تم اس کے سفارشی اور اسے بشارت دینے والے اور اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگے)۔(تفسیر فرات کوفی )
امام حسن عسکری نے فرمایا:اﷲ نے یہودیوں کی مذمت اور حضرت محمد پر ایمان نہ لانے والوں کی سر زنش کی اور فرمایا:بئسما اشترو بہ انفسھم ان یکفرو ا بما انزل اﷲ بغیا ان ینزل اﷲ من فضلہ علیٰ من یشاء من عبادہ فبا ؤ بغضب علی غضب و للکٰفرین عذاب مھین۔
ان لوگوں نے اپنا نفس کا کتنا برا سودا کیا کہ زبردستی خدا کے نازل کئے کا انکا ر کربیٹھے اس ضد میں کہ خدا اپنے فضل وکرم سے اپنے جس بندے پر جو چاہے نازل کردیتا ہے ۔اب وہ غضب بالائے غضب کے حقدار ہیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب بھی ہے ۔(سورہ بقرہ؍ ۹۰)
وہ لوگ اس حالت میں لوٹے کہ ان پر دوہرا غضب الٰہی تھا ۔پہلا یہ کہ انہوں جناب عیسیٰ کی تکذیب کی تھی اور دوسرا یہ کہ انہوں نے حضرت محمد کی بھی تکذیب کی تھی ۔(تفسیر امام حسن عسکری )
بنی اسرائیل کی زیادتی
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :بیشک ! جناب عیسیٰ اﷲ کے بندہ اور اس کی مخلوق ہیں ۔لیکن لوگوں نے آپ کو خدا تسلیم کیا جیسا کہ اﷲ کا ارشاد ہے ’’فنسوحظا مما ذکروابہ ‘‘
اور انہوں نے بھی ہماری نصیحت (انجیل )کے ایک حصہ کو فراموش کردیا ۔(سورہ مائدہ ؍۱۴)۔(تفسیر قمی )
رسول خدا نے ارشاد فرمایا:اے علی! میری امت میں تمہاری مثال جناب عیسی ابن مریم علیہما السلام ٰ کی طرح ہے ۔ان کی قوم تین حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی ۔ایک ایمان دار اور وہ حواریین تھے ۔دوسرے آپ کے دشمن اور وہ قوم یہودی تھے اور تیسرے غلو کرنے والے جو ایمان سے خارج ہوگئے تھے۔
بیشک ! میری امت بھی تین فرقوں میں تقسیم ہوگی ۔ایک فرقہ تمہارے شیعہ کااور وہ مومن ہوگا ۔دوسرا فرقہ تمہارے دشمن کااور وہ شک کرنے والے ہوگا۔ تیسرا فرقہ ان لوگوں کا جنہوں نے تمہارے سلسلے میں غلو سے کام لیا اور (درحقیقت )وہ تمہارے منکر ہوں گے ۔
اے علی! تم ،تمہارے شیعہ اور ان کے پیروکار داخل بہشت ہوں گے اور تمہارے دشمن اورغالی جہنمی ہوں گے ۔(بحارالانوار ج ۲۵ص ۲۶۴ح۴)
روایت کی گئی ہے کہ حسن بن جہم نے کہا کہ ایک روز میں مامون کے ساتھ کسی نشست میں بیٹھا ہواتھا اور اس کے پاس حضرت امام رضااور مختلف مذاہب کے فقہاء اور اہل علم حضرات بھی موجود تھے ․․․۔
مامون نے عرض کیا : اے ابوالحسن! میں سنا ہے کہ ایک گروہ آپ کے سلسلے میں غلواوراز حد تجاوز کرتا ہے ۔
امام نے فرمایا:میرے والد موسیٰ بن جعفر نے اپنے والد جعفر بن محمد ،انہوں نے اپنے والد محمد بن علی ،انہوں نے اپنے والد علی بن حسین ،اور انہوں نے اپنے والد حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:میرے حق سے زیادہ مجھے بلند (بڑھانا)نہ کرو ۔اﷲ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے اپنابندہ منتخب کیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادہوتاہے :’’ماکان لبشر ان یوتیہ اﷲ الکتاب و الحکم والنبوۃثم یقول للناس کونو عبادالی من دون اﷲ ولٰکن کونوا ربٰنیین بما کنتم تدرسون ۔ولا یامرکم ان تتخذواالملٰکئۃ والنبییٖٖن اربابا ایامرکم بالکفر بعداذ انتم مسلمون ‘‘
کسی بشر کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب و حکمت اور نبوت عطا کردے اور پھر وہ لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ خداکو چھوڑ کر ہمارے بندے بن جاؤ بلکہ اس کا قول یہی ہوتاہے کہ اﷲ والے بنو کہ تم کتاب کی تعلیم بھی دیتے ہو اور اسے پڑھتے بھی رہتے ہو۔وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ ملائکہ یا انبیاء کو اپنا پروردگا ربنالو کیاو ہ تمہیں کفر کا حکم دے سکتا ہے جب کہ تم مسلمان ہو ۔(سورہ آل عمران؍ ۷۹۔۸۰)
حضرت علی نے فرمایا: میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ برباد ہوئے ۔ایک وہ چاہنے والاجو حد سے بڑھ جائے اور ایک دشمنی رکھنے والے جو عداوت رکھے ۔(کلمات قصار؍ ۱۱۷)
ہم غالیوں سے جو ہمیں از حد بڑھادیتے ہیں اسی طرح بری ہیں جیسے جناب عیسیٰ بن مریم علیہما السلام عیسائیوں سے بری الذمہ تھے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتاہے ۔’’واذقال اﷲ یاعیسیٰ بن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دون اﷲ قا ل سبحانک ما یکون لی الاا ن اقول ما لیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم مافی نفسی ولا اعلم مافی نفسک انک انت علاّٰم الغیوب ۔ماقلت لھم الا ما امر تنی بہ ان اعبدواﷲ ربی وربکم وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم وانت علیٰ کل شی ء قدیر‘‘۔
اور جب اﷲ نے کہا اے عیسی بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ اﷲ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو ۔توعیسیٰ نے عرض کی کہ تیری ذات بے نیاز ہے میں ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں اور اگر میں نے کہا تھا تو تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تو میرے دل کا حا ل جانتا ہے اور میں تیرے اسرار نہیں جانتا ۔توتو غیب کاجاننے والاہے ۔میں نے صرف ان سے وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ میرے اور اپنے پروردگا ر کی عبادت کرو اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کا گواہ اور نگراں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا توتو ان کا نگہبان ہے اورتو ہر شے کا گواہ اور نگہبان ہے ۔(سورہ مائدہ ؍۱۱۶۔۱۱۷)
اﷲ فرماتاہے :’’لن یستنکف المسیح ان یکون عبداﷲ ولا الملٰئکۃ المقربون ‘‘
نہ مسیح کو اس بات کا انکار ہے کہ وہ بندہ خدا ہیں اور نہ ملائکہ مقربین کو ۔(سورہ نساء؍ ۱۷۲)
اﷲ ارشاد فرماتاہے :’’ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقہ کانا یاکلا ن الطعام ‘‘
مسیح بن مریم کچھ نہیں ہیں صرف ہمارے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گز ر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ تھیں اور وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے ۔(سور ہ مائدہ؍ ۷۵)
اس کا معنی یہ ہو اکہ یہ دونوں شخص پاک ومبریٰ تھے ۔جس کسی نے انبیاء کے خدا ہونے کا دعویٰ کیا یا جس نے امام کے نبی یا خدا ہونے کا دعویٰ کیا او ر جس نے امام کے علاوہ کسی دوسرے انسان کے امام ہونے کا دعویٰ کیا ،ہم ان سب سے اس دنیا و آخرت دونوں میں مبرا و پاک ہیں ۔(بحارالانوارج ۲۵ص۱۳۴ح۶ص)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق معلومات کو جمع کیا گیاہے۔(مترجم)