بے شک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے لیے
بہترین نمونہ ہے۔ پیدا ہونے سے لے کر وفات تک پائے جانے والے تمام شعبہ
ہائے زندگی میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی کا نمونہ ہمارے لیے
موجود ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھالیں ، سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا
کوئی نہ کوئی اصول ضرور ملتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی
ذاتِ گرامی کو تقریباً ہر شعبۂ زندگی پر فائز کرکے آنے والوں کے لیے نمونہ
بنایاہے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں سفر ہو یا حضر ، داخلی معاملات ہوں یا
خارجی ، خلوت ہو یا جلوت، امن ہو یا جنگ الغرض ہر شعبہ اور معاملہ میں سیرت
النبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر عمل کرنے کے بہترین اصول نمایاں ہیں۔ بے شک اﷲ
تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلم بناکر دنیا میں بھیجا ، لیکن
اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کا بغو ر مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے
کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو صرف معلم بناکر نہیں بھیجا بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی ذاتِ مبارکہ کہیں معلم کی حیثیت سے نمایاں ہوتی ہے ، کہیں ایک بہترین
قانون ساز کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتی ہے اور کہیں بہترین مربی اور
تربیت ساز کی حیثیت سے واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
زندگی کا ایک شعبہ اور منصب قضا کا بھی ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بحیثیت
قاضی کئی فیصلے نافذ فرمائے ۔ قضا کا شعبہ نہایت اہم شعبہ ہے ۔ اس کی اہمیت
کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں کئی
مقامات پر عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔اﷲ رب العزت
نے قرآن کریم میں عدل کرنے کو تقویٰ کے قریب قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی
متعدد آیات میں عدل کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اور فرمادیجیے میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جو اﷲ نے نازل فرمائی ہے
اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں‘‘۔ (سورۃ الشوریٰ:
۱۵)۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’اور کہہ دیجیے کہ میرے رب نے مجھے انصاف
کا حکم دیا ہے‘‘۔(سورۃ الاعراف ۲۹)۔ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اور جب آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں‘‘۔ (سورۃ
المائدہ: ۴۲)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت سے انصاف کا حصول نہایت آسان تھا۔ کسی بھی
قبیلے سے تعلق رکھنے والا شخص آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت سے جلد از جلد
اور بآسانی انصاف حاصل کرلیتا۔ اسی طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت سے
کوئی بھی مجرم بغیر سزا پائے نہیں لوٹتا تھا، اگرچہ اس کا تعلق کسی اعلیٰ
قبیلے سے ہوتا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجرم کے حق میں کسی کی سفارش قبول کیے
بغیر سزا سنادیتے اور اس پر عملدرآمد کردیا جاتا۔ آقا کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے لوگوں کو بھی حدود اﷲ میں سفارش کرنے سے بھی منع فرمایا۔چنانچہ
ارشاد فرمایا: اﷲ کی حدود دور و نزدیک سب پر قائم کرو اور کہیں تمہیں لوگوں
کی ملامت اس عمل سے روک نہ دے۔ (ابن ماجہ : ۲۰۵۸) مزید ارشاد فرمایا: حدودِ
الٰہی میں سے کسی حد میں جس شخص کی سفارش حائل ہوگئی تو وہ اﷲ کے حکم میں
اﷲ کی مخالفت کرنے والا ہے۔ (ابو داؤد: ۳۰۶۶) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بذاتِ
خود اس پر عمل کرکے قیامت تک آنے والوں کے لیے ایک عظیم مثال قائم کی ہے ۔
حدود اﷲ میں سفارش قبول نہ کرنے کے متعلق ایک مشہور حدیث شریف متعدد کتبِ
حدیث میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک چوری کرنے والی مخزومی
عورت کے معاملے نے قریش کو پریشان کردیا۔ لوگوں نے مشورہ کیا کہ رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا؟ انہوں نے کہا: اسامہ رضی اﷲ عنہ کے
سوا کوئی اس کی جرأت نہیں کرے گا کیونکہ وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
چہیتے ہیں۔ حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بات کی
تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اﷲ کی حدود میں سفارش کرتے ہو؟ پھر
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! تم سے
پہلے کے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ ان میں جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا
تو وہ اسے چھوڑدیتے ، جب کوئی ادنیٰ شخص چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے ۔
اﷲ کی قسم ! اگر محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم )کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو
میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔ (بخاریـ ۶۷۸۸) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت میں
چوری کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بعض اوقات
چور کو اقبالِ جرم کرنے پر سزا سنائی اور بعض اوقات آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
چوری کے معاملے میں تفتیش و تحقیق کے بعد مجرم کو سزا کا حقدار ٹھہرا تے
تھے، محض کسی کے کہنے یا الزام لگانے پر فیصلہ نہیں سناتے تھے ۔حضرت ابو
ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک چور
لایا گیا جس نے ایک چادر چوری کی تھی۔ لوگوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم اس نے چوری کی ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا
نہیں خیال کہ اس نے چوری کی ہے۔ چور نے اثبات میں جواب دیا تو رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے جاؤ اور کاٹ دو۔ پھر اسے داغو اور میرے پاس
لے آؤ ، جب اس کا ہاتھ کاٹ کر لایا گیا تو فرمایا: اﷲ سے توبہ کر ، اس نے
جواباً کہا: میں اﷲ سے توبہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اﷲ
تیری توبہ قبول کرے۔ (سنن نسائی : ۴۸۷۷) حضرت صفوان رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے
کہ انہوں نے بیت اﷲ کا طواف کیا اور نماز پڑھی ، پھر اپنی چادر کو لپیٹا
اور اسے سر کے نیچے رکھ کر سوگئے ۔ ایک چور آیا، اس نے چادر کو ان کے سر کے
نیچے سے نکال لیا۔ انہوں نے اس چور کو پکڑ لیااور کہا: اس آدمی نے میری
چادر چوری کی ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس آدمی سے پوچھا : کیا تم نے اس
کی چادر چوری کی ہے ؟ تو اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے حکم دیا کہ اس چور کو لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ صفوان کہنے لگے:
میں یہ نہیں چاہتا کہ میری چادر کے بدلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے ۔ آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کام تم نے پہلے کیوں نہیں کیا؟ (سنن نسائی:
۴۵۳۵) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چور ی کا معاملہ اگر قاضی کے روبرو
آجائے تو قاضی اسے سزا دیے بغیر نہیں چھوڑ سکتا ۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت میں ہر وقت عدل و انصاف کا پرچار رہتا تھا۔
اسی عدل و انصاف کی بدولت ریاستِ مدینہ میں مجرم خود اپنے جرم کا ارتکاب
کرکے اپنے آپ کو سزا دلواتا تھا۔روایت میں آتا ہے کہ ایک آدمی آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے ایک عورت کا نام لے کر بتایا کہ میں نے اس
سے زنا کیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا
پھر اس سے اس الزا م کی حقیقت پوچھی ۔ اس نے الزام ِ زنا کو ماننے سے انکار
کردیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مرد پر حد لگائی اور عورت کو
چھوڑدیا۔ (ابو داؤد: ۳۷۴۹) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کی عدالت سے فیصلہ اسی وقت صادر ہوتا تھا جب تک معاملے کی تحقیق نہ ہوجاتی۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک لڑکی یا
لونڈی بالیاں پہنے ہوئے گھر سے باہر نکلی تو ایک یہودی نے اسے پتھر مارا۔
وہ لڑکی زخمی حالت میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی جبکہ
ابھی اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی، تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا:فلاں شخص نے تجھے قتل کیا؟ اس لڑکی نے اپنے سرکے اشارے سے کہا: نہیں
۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے کہا کس نے تجھے قتل کیا ہے؟ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا:تجھے فلاں شخص نے قتل کیا ہے؟اس نے پھر اپنے
سرسے نفی میں اشارہ کیا ۔ تیسری بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ
فلاں شخص نے تجھے قتل کیا ہے؟ تو اس نے اپنا سر اثبات میں نیچے کردیا۔ تب
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس یہودی کو بلوایا اور دوپتھروں کے درمیان
رکھ کر اسے قتل کرادیا۔ (بخاری: ۶۸۷۷، ابو داؤد: ۵۲۹)
آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت میں بعض اوقات ایسے معاملات پیش کیے
جاتے تھے جن کا تعلق اجتماعی نقصان اور دہشتگردی سے ہوتا تھا۔ ایسے واقعات
میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم مجرموں کے پورے گروہ کو پکڑ کر سزا سنا دیتے تاکہ
لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور آئندہ کوئی بھی اس قسم کی حرکت کرنے کی جرأت
اور ہمت نہ کرسکے۔ حضرت ابو قلابہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عکل قبیلے
کے آٹھ آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام پر آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم سے بیعت کی۔ ۔۔۔۔ ایک مرتبہ انہوں نے اونٹوں کے چرواہے کو قتل
کردیا اور اونٹوں کو بھگا کر لے گئے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس واقعہ
کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں ان کے پیچھے روانہ کیا۔ آخر
ان کو پکڑ لیا گیا۔ انہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور ان
کے بارے میں فیصلہ کیا گیا۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی
آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئیں بلکہ اسی طرح انہیں دھوپ میں پھینک دیا
گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ (بخاری : ۴۱۹۲) اسی طرح ایک مرتبہ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی لائے گئے ان میں سے ایک نے قتل کا ارتکاب کیا
تھا اور دوسرے نے مقتول کو پکڑ ے رکھا تھا(یعنی قتل کرنے میں مدد دی تھی)
تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قاتل کو قتل کروادیا اور پکڑ کر رکھنے والے قید
کی سزا سنادی ۔(مصنف عبد الرزاق: ۱۸۰۹۲)
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت میں ذاتی معاملات اور امورِ خانہ داری سے
متعلق بھی کیسز درج ہوا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت نے آکر کہا:
اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! میرا خاوند مجھ سے میرا بیٹا چھیننا
چاہتا ہے، جبکہ میرے اس بیٹے نے ابو عتبہ کے کنویں سے مجھے پانی پلایا ہے
اور میری ہر طرح خدمت کی ہے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: قرعہ
اندازی کرلو، تو خاوند نے کہا: میرے بیٹے کو مجھ سے کو ن روک سکتا ہے؟ تو
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بچے سے مخاطب ہوکر فرمایا: یہ تمہارا باپ ہے
اور یہ تمہاری ماں ، ان دونوں میں سے جس کا ہاتھ چاہو پکڑ لو۔ اس نے ماں کا
ہاتھ پکڑ لیا تو وہ اسے لے کر چلی گئی۔ ( ترمذی ۱۰۹۴)
حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اسلام دشمنی اور توہین رسالت
کے متعلق معاملات بھی پیش ہوا کرتے تھے جن میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم توہین
کا ارتکاب کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیتے تھے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس
حالت میں آپ کے پاس حاضر ہوتا کہ اس نے کسی گستاخ رسول کو قتل کیا ہو تو
آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے خوش ہوتے اور بغیر قصاص اور دیت کے اس شخص
کو رہا فرمادیتے۔ ایک مشہور واقعہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نابینا شخص تھا، اس کی ایک (ام
ولد) لونڈی تھی جس سے ان کے دو بچے تھے۔ وہ اکثر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
کو بُرا بھلا کہتی۔ نابینا اسے ڈانٹتے لیکن وہ نہ مانتی۔ وہ اسے منع کرتے
تو وہ باز نہ آتی۔ ایک رات اس لونڈی نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر
کرتے ہوئے بُرا بھلا کہا۔ نابینا شخص کہتے ہیں کہ مجھ سے صبر نہ ہوسکا، میں
نے خنجر اٹھایا اور اس کے پیٹ میں دھنسادیا، وہ مرگئی۔ صبح جب وہ مردہ پائی
گئی تو لوگوں نے اس کا تذکرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں اسے خدا کی قسم دیتا ہوں جس پر
میرا حق ہے (کہ وہ میری اطاعت کرے) جس نے یہ کام کیا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو۔ یہ
سن کر نابینا شخص آگے بڑھے اور عرض کی: اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم یہ
میرا کام ہے، یہ عورت میری لونڈی تھی اور مجھ پر بہت مہربان اور میری رفیق
تھی۔ اس کے بطن سے میرے ہیرے جیسے دو بچے ہیں، لیکن وہ اکثر آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کو بُرا کہتی تھی ۔ میں اسے منع کرتا تو نہ مانتی تھی، جھڑکتا تو بھی
نہ سنتی۔ آخر کار گزشتہ رات اس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا اور آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کی گستاخی کی ۔ میں نے خنجر اٹھایا اور اس کے پیٹ میں
مارا، یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: سب لوگو
گواہ رہو، اس لونڈی کا خون رائیگاں ہے۔ (سنن نسائی : ۹۴ ۳۷) یعنی اس لونڈی
کے قتل کا قصاص بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی دیت ادا کی جائے گی ۔
عصر حاضر میں اگر ان واقعات اور فیصلوں کو پرکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ
ہماری عدالتیں عدل و انصاف سے خالی ہیں۔ ملزم کئی کئی دہائیوں تک اپنی قسمت
کے فیصلے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عدالت میں
ملزم پر لگائے گئے الزام کی فوری تحقیق کی جاتی تھی ، اگر واقعی وہ کسی جرم
میں مرتکب پایاجاتا تو اسے فوراً سزا سنادی جاتی اور اس پر عملدرآمد کردیا
جاتا۔ اس کے بر عکس ہماری عدالتوں میں کئی کئی سال تک فیصلوں کا انتظار
کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اعلیٰ خاندان کا
شخص یا اعلیٰ حکام سے قریبی تعلق رکھنے والا شخص کوئی جرم کرتا ہے تو وہ
بغیر کوئی سزا پائے بآسانی مقدمہ سے بری ہوکر رہائی حاصل کرلیتا ہے جبکہ
غریب اور مظلوم انصاف طلب کرتے کرتے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں
لیکن انصاف حاصل نہیں کرپاتے۔
الغرض رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلوں کی پیروی ججوں پر
لازم ہے۔ فریقین کو سن کر ان کے معاملات میں تفتیش کرنے کے بعد فیصلہ سنانے
کا حکم دیا گیا ہے ۔ ذاتی تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلا کسی امتیاز
کے فیصلہ سنانا چاہیے ۔ قاضی کو کسی بھی موڑ پر عدل و انصاف کا دامن نہیں
چھوڑنا چاہیے۔ اسلام کی سر بلندی اور عظمت میں عدل و انصاف کا بہت بڑا
کردار ہے۔ اسلام کا نظام قضا بھی ایک شعبہ ہے جس نے اسلام کو تمام ادیان و
مذاہب پر تفوق دیا ہے۔ اس شعبہ کے تحت ہر شخص کو انصاف کی سہولت میسر ہوتی
ہے۔ عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی ریاست یا مملکت بام عروج کو نہیں پہنچ
سکتی۔ یہی ایک شعبہ سے جس سے ریاست میں امن و امان کا قیام ممکن ہوتا ہے۔
اسلام کا یہ نظام ایک بہترین اور بے مثال نظام ہے۔ |