از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
یہ رپورٹ چھپی ہے کہ مسٹر ہمفرے ؛ جس نے عرب میں کام کیا ہے اور سلطنت
عثمانیہ کو توڑنے کی ذمہ داری جس کو سونپی گئی تھی۔ چار ہزار جاسوسوں کے
ساتھ لارینس آف عربیہ عرب میں داخل ہوا تھا۔ اور جب ان کو عرب میں بھیجا
گیا تو ان کو جو کام دیا گیا کرنے کا اُس کو ذرا غور کیجیے کہ ان کی چالیں
کتنی باریک ہوتی ہیں۔
مسٹر ہمفرے نے اپنی یاد داشتیں مرتب کیں؛ لکھیں۔ اور آج بھی کیلیفورنیا کی
یونی ور سٹی میں وہ تھیسس موجود ہے؛ پڑی ہوئی ہے۔ اس کا کچھ ترجمہ بھی
ہمارے یہاں ہند و پاک میں دستیاب ہے۔ کچھ اس کے Chapter کا ترجمہ یہاں ملتا
ہے ۔اس کا عنوان غالباً رکھا ہے ’’مسٹر ہمفرے کی یاد داشتیں‘‘ (ہمفرے کے
اعترافات)اس طرح ترجمہ دستیاب ہے۔ آپ کی مارکیٹ سے مل جاتا ہے۔ اس میں وہ
کہتا ہے کہ مجھے سولہ ۱۶؍ چیزوں پہ کام کرنے کی ذمہ داری لگائی گئی تھی۔ ان
میں سے ایک کام یہ تھا کہ ’’جعلی سادات‘‘ پیدا کیے جائیں۔
اب عام بندہ سوچے گا کہ اس سے کیا ان کو فائدہ تھا؟کہ جعلی سادات پیدا کیے
جائیں۔ تو جعلی سادات پیدا کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ … فائدہ یہ ہوگا کہ یہ
وہ زمانہ تھا کہ لوگ سادات سے، علما سے جُڑے ہوئے ہوتے تھے۔ اور زیادہ تر
علما سادات ہوتے تھے۔ اور لوگ سادات سے، پیرانِ عظام سے، علما سے جڑے ہوئے
ہوتے تھے۔ اور ان سے جڑنے کی وجہ سے ان کا دین محفوظ ہوتا تھا۔ آج کل تو
لوگ علما کو، پیرانِ عظام کو گالیاں دیتے ہیں اور اس کا بہت بڑا سبب ان کے
اپنی کرتوتے ہیں۔ چوں کہ لوگ ان کے ساتھ وابستہ ہیں اور ان کی وابستگی کی
وجہ سے دین میں رسوخ اور پختگی ہے۔ تو اب جعلی سادات پیدا ہوں گے تو لوگ ان
کے قریب بھی سید سمجھ کے جائیں گے؛ لیکن وہ ہوگا تو سید نہیں۔ تو ظاہر ہے
کہ جب لوگوں کی محبتیں ملے گی، پیسہ ملے گا ، عقیدتیں ملے گی، لوگوں کے
گھروں میں آنا جانا ہوجائے گا۔ تو چوں کہ اس کا خون تو خونِ رسول نہیں
ہوگا ۔ تو ایسی حرکتیں کرے گا کہ پھر لوگ بدظن ہوجائیں گے۔ اور جب لوگ ان
جعلی سادات سے بدظن ہوجائیں گے؛ تو پھر دین سے بدظن ہوجائیں گے۔ اور ایک سے
بدظن ہوجائیں گے تو پھر باقیوں سے بھی ہوجائیں گے۔ … ہمفرے کہتا ہے کہ میرے
ذمہ جو سولہ سترہ کام کرنے کے لیے لگائے ؛ ان میں سے ایک کام یہ تھا کہ
جعلی سادات پیدا کیے جائیں۔
یہاں برصغیر میں جب انگریز آیا؛ اس نے دیکھا کہ یہاں کے علما پگڑی باندھتے
ہیں ان پر شملہ ہوتا تھا یا مختلف اسٹائل جو پگڑی کے ہیں۔ اور یہاں کے جو
سردارانِ قوم تھے وہ بھی باندھتے تھے۔ یہاں پنجاب کا کلچر بھی تھی۔ اب وہ
آکے حکم نامہ دے دیں کہ پگڑیاں اتاروں ۔ تو دینی، مسلکی اور مذہبی Issue
ہوجائے گا۔ اس کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی۔ اس نے بالکل کسی سے نہیں کہا کہ
پگڑیاں اتارو۔ اس نے کیا کیا؟ کہ یہ جو سنتری تھے ان کو کُلاہ بندھوادیا۔
جو باجے بجانے والے تھے ان کو کُلاہ بندھوا دیا۔ جو ڈھول بجانے والے تھے ان
کو پگڑی پہنادی۔ شادی کا موقع آیا تو جو بیرے تھے؛ کھانا تقسیم کرتے تھے؛
ان کو پگڑیاں بندھوادی۔ اب مجھے بتاؤ! ایک شادی میں بیروں نے پگڑیاں
باندھی ہوئی ہیں، باہر جو سنتری کھڑا ہے اس نے پگڑیاں باندھی ہیں ، اب کوئی
مہمان یا عالم یا کوئی سردار پگڑی باندھ کے آتا ہے تو پھر ان کا شمار تو
ان کے ساتھ ہوگا۔ تو وہ محسوس کرے گا کہ یہ میری ہتک ہے؛ تو دوبارہ ایسی
تقریب میں آئے گا تو پگڑی اتار کے آئے گا۔
یہ ایک منصوبہ تھا ؛ اسلامی شعار چھیننے کے لیے۔ اس طرح کے کتنے کام کیے
ہیں۔ آپ دیکھیں ان نوے سالوں کے اندر وہ ہمارے ساتھ کیا کر گئے۔ ہمارا
کلچر برباد کر گئے۔ ہماری تہذیب لوٹ گئے۔ اور سینے حبِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے خالی کرنے کی سازش کرتے گئے۔ اور کیا کچھ انہوں نے کیا۔ یہ تو اللہ
کا کرم ہوا کہ اللہ نے کچھ لوگوں کے دل میں ڈال دیا کہ ان سے جلدی جان
چھڑائی جائے۔ اور وہ نوے سال کے اندر اندریہاں سے چلے گئے۔اگر اور کچھ سال
ہوتے تو کچھ باقی ہی نہ ہوتا۔
بلکہ ایک وفد آیا تھا انگلستان سے؛ عیسائی مشنریوں کا۔ اور ان کو یہاں
ہندستان میں Task دیا گیا کہ یہاں تم لوگوں کو عیسائی بناؤ۔ یہاں انہوں نے
کچھ دن کام کیا۔ اور اس زمانے میں ان پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے ۔ واپس جاکے
جب ان سے رپورٹ لی گئی کہ تم نے کتنے لوگوں کو عیسائی بنایا؟ تو انہوں نے
کہا ایک کو بھی نہیں بنا سکے۔ تو ان سے کہا گیا کہ ہم نے اتنا پیسا تم پر
لگایا ہے، تم اتنے سال وہاں رہے بھی ہو۔ اور تم کسی ایک شخص کو بھی عیسائی
نہیں بنا سکے! کیا فائدہ تمہارا ؟ انہوں نے کہا مالک ! پوری رپورٹ سن لو
نا! ہم کسی ایک شخص کو بھی عیسائی نہیں بنا سکے لیکن کئیوں کو ہم نے مسلمان
بھی نہیں رہنے دیا۔ یعنی ہم یہ تو نہیں کرسکے کہ کسی کو عیسائی بنادیں؛
لیکن ہم نے ان کو مسلمان بھی نہیں رہنے دیا۔
اب کتنے لوگ ہیں جو درمیان میں معلق ہوگئے۔ مذہب میں رہتے ہوئے بھی مذہب
بیزار۔ دین میں رہتے ہوئے بھی دین بیزار۔ اب وہی کام ہمارے میڈیا کے ذریعے
سے کیا جارہا ہے۔ علما کو ادا کار بنایا جارہا ہے؛ اداکاروں کو علما بناکر
پیش کیا جارہا ہے۔مجھے بتاؤ اس کا کیا مطلب ہے؟ جو جعلی سادات پیدا کرکے
کام حاصل کرنا تھا ؛ اب وہی کام اس طرح کیا جارہا ہے کہ جن کو دین کی ابجد
بھی معلوم نہیں ہے وہ وہاں میڈیا پر مسئلے بتارہے ہیں۔ طلاق کے، خلع کے اور
دیگر امور پر۔اور پھر علما کو ان لوگوں کے ساتھ بٹھایا جارہا ہے۔ یہ ساری
سازشیں ہیں ۔ بڑی باریک چالیں ہوتی ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
۲؍ فروری ۲۰۱۸ء(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیرِ ترتیب)٭٭٭ |