تہذیبی ترقی نے جہاں انسانی معاشرے اور رہن سہن پر مثبت
اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب کئے ہیں وہی معاشرتی رویوں پر بھی یہ
جدیدیت اثر انداز ہوئی ہے ۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس خطے میں ہم
رہے ہیں وہاں صدیوں پرانی روایات آج بھی کسی نہ کسی طرح نہ صرف موجود ہ ہیں
بلکہ کئی مقامات پر ان کی عملی صورت بھی دیکھنے کو ملتی ہے ،جس سے یہ خیال
راسخ ہو جاتا ہے کہ ان مذہب اور اخلاقیات نے اس خطے کے لوگوں پرکوئی خاص
اثر نہیں ڈالا ۔ دوسرے الفاظ میں جب ہم ایک بات طے کر لیں کہ ہم نے فلاں
کام نہیں کرنا تو جو مرضی ہو جائے نہیں کرنا۔ یہی حال جنوبی ایشیاء کے اس
خطے میں بسنے والے باسیوں کا ہے۔ جبکہ عورت نہ کمزور ہے اور نہ ہی بوجھ ۔
ماضی میں جا کر دیکھیں تو اس خطے کی عورتوں نے جو مثالی کردار ادا کیا ہے
اسکی مثال نہیں ملتی ۔رضیہ سلطان اس کی ایک بڑی مثال ہے جو برصغیر پاک وہند
کی پہلی خاتون حکمران تھی۔ جو کہ نہایت ہی زیرک اور ہوش مند خاتون تھیں۔
رضیہ اپنے لئے سلطانہ کا لقب پسند نہیں کرتی تھیں کیونکہ اس کا مطلب ہے
سلطان کی بیوی بلکہ اس کی جگہ خود کو رضیہ سلطان کہتی تھیں۔ ان کا شاہی نام
جلالۃ الدین رضیہ تھا۔ وہ 1205ء میں پیدا ہوئیں اور 1240ء میں انتقال
کرگئیں۔ وہ ترک سلجوق نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور کئی دیگر مسلم شہزادیوں
کی طرح جنگی تربیت اور انتظام سلطنت کی تربیت بھی حاصل کر رکھی تھی۔ ان کے
والد سلطان شمس الدین التمش ایک نہایت ہی نیک سیرت اور پابند شریعت بزرگ
تھے۔ سلطان التمش نے اپنے کئی بیٹوں پر ترجیح دیتے ہوئے رضیہ کو اپنا
جانشیں قرار دیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان التمش نے اولاد نرینہ ہونے
کے باوجود اپنے بیٹوں کی نا اہلی اور عیش پسندی سے مایوس ہوکر اپنی بیٹی کو
اپنا جانشین مقررکیا تھا۔ رضیہ سلطان نہ صرف حسین ذہین و فطین،بلکہ بہت
بہادر خاتون تھیں۔تاہم سلطان التمش کے انتقال کے بعد رضیہ کے ایک بھائی رکن
الدین فیروز نے تخت پر قبضہ کرلیا اور 7 ماہ تک حکومت کی۔ رضیہ سلطان نے
دہلی کے لوگوں کی مدد سے 1236ء میں بھائی کو شکست دے کر تخت حاصل کرلیا۔
کہا جاتا ہے کہ تخت سنبھالنے کے بعد انہوں نے زنانہ لباس پہننا چھوڑدیا تھا
اور مردانہ لباس زیب تن کرکے دربار اور میدان جنگ میں شرکت کرتی تھیں۔اس کے
علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جنہوں نے اس خطے کی محلاتی سازشوں میں کردار ادا
کیا۔
دوسری جانب قیام پاکستان کی جدوجہد آسان نہ تھی اس عظیم جدوجہد میں برصغیر
کی مسلم خواتین نے بھی لازوال کردار ادا کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ مسلمانان
برصغیرکو آزادی کی نعمت سے سرفراز رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے والی
محترم خواتین میں مادر ملت فاطمہ جناحؒ، بیگم مولانا محمد علی جوہر، بیگم
سلمیٰ تصدق حسین، بیگم جہاں آرا شاہنواز، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم جی
اے خان، بیگم نذیر طلہ محمد، بیگم اعزاز رسول، آغا طاہرہ بیگم، بیگم حمید
النساء، بیگم شیریں وہاب، بیگم شفیع احمد، بیگم اقبال حسین ملک، بیگم
پروفیسر سردار حیدر جعفر، بیگم گیتی آرا، بیگم ہمدم کمال الدین، بیگم فرخ
حسین، بیگم زری سرفراز، بیگم شائستہ اکرام اﷲ، فاطمہ بیگم، بیگم وقار النسا
نون، لیڈی ہارون، خاور سلطانہ، بیگم زاہد قریشی، امتہ الحمید رضا اﷲ، امتہ
العزیز، نور الصباح، بیگم صاحبزادی محمودہ، بیگم شمیم جالندھری سمیت متعدد
عظیم خواتین شامل ہیں جنہوں نے برصغیر کی مسلم خواتین میں آزادی کے حصول کا
شعور بیدار کرکے انہیں قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار کیلئے منظم
کیا۔
اسی طرح اگر ہندو مت کی بات کی جائے تو کئی ہندو دیویوں کے کردار اس بات کی
علامت ہیں کہ ہندو ازم بھی عورت کے غیر معمولی کردار کو جانتا ہے مگر تسلیم
کرنے اور اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے یہی وجہ ہے اس خطے کی عورت آج بھی
اپنے جائز حق کے لیے معاشرے کے فرسودہ رواجوں کی محتاج ہے۔
جیسا زندہ رہنے، تعلیم حاصل کرنے اور شادی کا حق۔ جس سے اسے محروم رکھا
جاتا ہے اور عورت اپنے دائرے میں گم ہو کر رہ جاتی ہے اور گھٹ گھٹ کر مر
جاتی ہے۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان ، مرد ہو یا عورت اگر اس
کی صلاحتیوں کو تسلیم نہیں کیا جائے تو وہ گھٹن کر شکار ہو کر ہمیشہ ایسے
راستوں کا راہی بنتا ہے جس کا انجام یقینی طور پر اچھا نہیں ہوتا۔
پڑھی لکھی عورت ہو یا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے تعلیم نہ ہونے کے
باوجود کھیتوں میں، فیکٹریوں میں کام کرتی ہوئی بنت حوا، کپڑے سی سی کر
اپنے خاندان کی کفالت کرتی ہوئی رادھا کہ بیٹی ہو یا سڑکوں پر روڑی کوٹتی
ہوئی دینو کی بیوی۔ وہ نہ اپنے خاندان پر بوجھ ہے اور نہ ہی کمزور۔ ہاں جو
اس کو کمتر سمجھتے ہیں وہ ذہنی طور پر خود ایک ایسے خوف کا شکار ہیں جس کا
کوئی علاج نہیں نہ ہی روحانی اور نہ ہی دنیاوی۔ وہ ان سے وابستہ مرد بھی ہو
سکتے ہیں او ر خواتین بھی۔
آج کی جدید معاشرتی زندگی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں عورت اپنے خاندان اور
رفیق کے کے شانہ بہ شانہ جہدِ ِ مسلسل میں مصروف ہے اور اپنے شریک سفر کی
بہترین رفیق ہے۔ وہ معاشی بوجھ اٹھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ طب سے
لیکر تعلیمی میدانوں میں ، ہواؤں اور خلاؤں میں ہر جگہ حوا کی بیٹی،یشودھا
کی ہم جنس، رادھا کی بیٹی، زلیخا کی بیٹی ، پیغمبر کی امت ، ہر جگہ کامیابی
کی جھنڈے گاڑ رہی ہے۔بے شک یہ ان خاندانوں کی بیٹیاں ہیں جہاں انہیں بطور
انسان تسلیم کیا گیا، عزت دی گئی، چاہیے وہ گاؤں کے پسماندہ ماحول سے ہو یا
شہر کے گھٹن ذدہ دائرے سے ۔ جن خاندانوں نے بیٹیوں کو بوجھ اور کمزور نہیں
سمجھا ، انہیں جینے کا حق دیا ، شعور دیا وہ ماں باپ اور خاندان بلاشبہ داد
و تحسین کے مستحق ہیں۔ جو اس خوف سے باہر نکل گئے کہ معاشرہ کیا کہہ گا کہ
بیٹی ذات کو سر پر چڑھا لیا ۔ وہ اس معاشرے کے لیے مثال ہیں جہاں ایک بیٹے
کی خواہش میں آٹھ آٹھ بیٹیاں پیدا کر کے کم عمری میں بیاہنے کا رواج عام
ہیں۔ آئیں ہم بھی یہ عہد کریں کہ عورت، بوجھ نہیں وہ کمزور نہیں۔ وہ توانا
ہے اور توانا سوچ کی مالک ہے اس لیے نہ صرف گھر کی ذمہ داری اٹھاتی ہے بلکہ
معاشی دوڑ میں بھی شامل ہے۔ عورت تجھے سلام |