عشق روگ

اہل تصوف خو ب جانتے ہیں کہ راہ حق کے مسافر ساری عمر پل صراط پر سے گزرتے ہیں زندگی کے ہر لمحے کو تزکیہ نفس کے آہنی شکنجے میں کستے ہیں فقیر کواپنی ذات کے محاسبے سے ہی فرصت نہیں ملتی سالک جب عشق حقیقی کے کٹھن سفر پر نکلتا ہے تو اُسے ہر موڑ پر کڑے مجا ہدے سے گزرنا پڑتا ہے معرفت الٰہی کا مسافر ہر کڑے مجاہدے سے گزرتے ہوئے مرشد کی رضا کو ہی اول و آخر سمجھتا ہے مرید جب تک فنا فی الشیخ سے نہیں گزرتا اُس وقت تک اُس کی روحانی ترقی نہیں ہو تی مرید ساری عمر اِس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ اُس کی ادنی سے غلطی اُسے مرشد کی نظر سے گرا نہ دے کسی بھی مرید کا سب سے مشکل جان لیوا لمحہ وہ ہو تا ہے جب کسی بات سے مرشد مرید سے نا راض ہو جائے ایسے ناز ک مو قعوں پر مرید جان پر کھیل کرمرشد کی نا راضگی دور کر نے کی کو شش کر تا ہے ایسا ہی مشکل کٹھن جان لیوا مو ڑ بابا بلھے شاہ ؒ کی زندگی میں بھی آیا تا ریخ تصوف میں اِس واقعہ کو لازوال شہرت حاصل ہے ریا ضت مجا ہدے کے بعد مرشد کے حکم پر جب بلھے شاہ نے شہر قصور میں قیام کر لیا تو یہ واقع اِس طرح پیش آیا کہ بلھے شاہ کی جان سولی پر اٹک گئی اور پھر بلھے شاہؒ کی زندگی اندھیر نگری میں بد ل گئی جسم کا روا ں رواں آگ میں جھلسنے لگا ایک دن بلھے شاہ ؒکے مرشد حضرت عنا یت شاہ قادری ؒ کے بھتیجے اور داماد مو لوی ظہورمحمد قصور تشریف لا ئے مو لو ی ظہور محمد نے کسی کے ہا تھ بلھے شاہ ؒ کو پیغام بھیجا کہ میں قصور میں آیا ہوا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں بلھے شاہ ؒ پیغام سن کر بہت خو ش ہو ئے کہ مرشد کریم کے داماد آئے ہیں آپ ؒ نے بہت مسرت کا اظہا ر کیا اور جوابی پیغام بھیجا کہ میرے لیے یہ حقیقی خو شی کا مو قع ہے میں نہایت اہم کام میں مصروف ہوں لیکن جلد ہی کام نمٹا کر آپ کے دیدار کے لیے حاضر ہو تا ہوں عام کام ہو تا تو بلھے شاہ ؒ فو ری چھو ڑ کر چلے جا تے قارئین یقیناً جانتے ہونگے کہ بلھے شاہ ؒ نے مدرسے کی تعلیم بھی قصور میں ہی غلام مر تضیٰ صاحب سے لی تھی اُس دن غلام مر تضیٰ صاحب کی بیٹی کی شادی تھی جو آپؒ کے استاد محترم تھے استاد محترم نے بلھے شاہ کی ڈیو ٹی مہما نوں کے کھا نے پر لگا ئی کہ آنے والے مہما نوں کی خا طر مدارت بلھے شاہ ؒ کی نگرانی میں ہو گی کیونکہ غلام مر تضی صاحب مشہور و معروف خطیب و امام تھے اِس لیے بہت زیا دہ مہمان آئے ہو ئے تھے شدید رش اور مصروفیت میں پتہ ہی نہ چلا کہ رات کے 12بج گئے بلھے شاہ ؒ جب شادی سے فارغ ہو کر رات کو مو لو ی ظہو ر محمد سے اِس لیے ملنے نہ گئے کہ مہمان اور میزبان اب سو چکے ہو نگے اس لیے صبح فجر کی نماز کے فوری بعد مر شد کے داماد سے ملنے جاؤں گا اب بلھے شاہ ؒ رات کو عبا دت میں مشغول ہو گئے صبح فجر کی نماز کے فوری بعد جب گئے تو مو لو ی ظہور محمد صاحب نا راض ہو کر چلے گئے مو لو ی ظہو رصاحب نے بلھے شاہ ؒ کے نہ آنے کو اپنی تو ہین سمجھا اور نا راض ہو کر واپس لا ہو ر چلے گئے جاتے ہی اپنے سسر کے پاس گئے عنا یت قادری ؒ نے داما د کو دیکھا تو کہا میرا بلھا کیسا ہے اُس نے تمہا ری خا طر داری عزت بہت کی ہو گی تو داماد حسد اور غصے سے بولا وہ اب آپ کا بلھا نہیں رہا اُس کو شہرت کا غرور ہو گیا ہے وہ خو د کو ولی سمجھتا ہے اُس نے تو مجھے بلکل بھی گھا س نہیں ڈالی خد مت تو دور کی با ت اُس نے تو مُجھ سے ملنا بھی منا سب نہیں سمجھا میں ساری رات بلھے شاہ کا انتظار کر تا رہا لیکن وہ ملنے نہیں آیا وہ مجھ سے ملنا اپنی شان کی تو ہین سمجھنا تھا ۔ اِسطرح کی اور بھی بہت ساری باتیں کیں اپنا غصہ خو ب نکا لا حضرت عنا یت قادری ؒ چونکہ بلھے شاہ ؒ سے سب سے زیا دہ پیا ر کر تے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بلھے شاہ ؒ ایسا بھی کر سکتا ہے حضرت عنا یت قادری ؒ کا رنگ جلا ل ابھرا مرید سے نا راضگی ہو ئی اور بلھے شاہ ؒ کی ولا یت سلب کر لی ‘روحانی طو رپر بلھے شاہ کو خا لی کر دیا بلھے شاہ ؒ کی شہرت اور مرشد کا بلھے شاہ سے بے مثال عشق لوگوں کو نہیں بھا تا تھا اہل حسد مو قع کی تلاش میں تھے کہ کس طرح بلھے شاہ ؒ کو مر شد کی نظروں سے گرا یا جا ئے اِسطرح انہیں مو قع مل گیا غرور تکبر بلھے شاہ میں نہیں تھا بلکہ غرور تکبر کا شکا ر تو مو لو ی ظہو رمحمد تھا جو ذرا بھی انتظا رنہ کر سکا خو د کو کو ئی خا ص چیز سمجھ رہا تھا کہ میں بلھے شاہ کے مرشد کا داماد ہوں میرا خاص مقام ہے وہ لو گو ں کو دکھا نا چاہتا تھا کہ بلھے شاہ لوگوں کے لیے درویش با کما ل ہو گالیکن میرے سامنے وہ کچھ بھی نہیں اب اُسے مو قع مل گیا تھا اس نے حضرت عنا یت قادری ؒ کو خو ب بد گما ن کیا اور حضرت عنا یت قادری ؒ بلھے شاہ سے نا راض ہو گئے اہل روحانیت تصوف کے اِس بھید سے بخو بی واقف ہیں کہ جب مرشد کسی مرید کے با طن کو نور سے بھر دیتا ہے اُسے ولا یت عطا کر تا ہے اور اگر مرید کی کسی کو تا ہی غلطی گستاخی سے مرشد کو دکھ پہنچے تو مرید کی روحانیت خو د بخو د ہی ختم ہو جا تی ہے کڑے مجا ہدوں عبا دت ریا ضت کے بعد یہ نعمت اگر کسی کے حصے میں آجا تی ہے تو یہ کسی حما قت غلطی سے واپس یا سلب بھی ہو سکتی ہے تاریخ تصوف کے اوراق ایسے بے شما ر واقعات سے بھرے پڑے ہیں جب مرشد مرید سے نا راض ہوا تو مرید کی دنیا ہی لُٹ گئی یہاں بھی چونکہ حضرت عنا یت قادری ؒ کو بلھے شاہ ؒ سے بہت عشق تھا بہت ناز تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بلھے شاہ ؒ غرور تکبر کا شکا ر ہو کر اس طرح بھی کر سکتے ہیں جب داماد مو لو ی ظہو ر محمد نے خوب مرچ مسالہ لگا کہ بلھے شاہ کی بد تعریفی کی تو حضرت عنا یت قادری کا دل دکھا اور پھر مرید کا باطن نو ر سے خالی ہو گیا اور جب بلھے شاہ ؒ کا باطن نو ر سے خا لی ہوا لذت سرور مستی ختم ہو گئی جذب وسکر کانشہ ختم ہو گیا با طن جو رنگ و نور میں غرق تھا اچانک وہا ں سلگتے جھلستے صحراوں کا احساس ہو نے لگا نخلستا ن پھو لوں کی جگہ بنجر ریگستان پھیل گئے بلھے شاہ ؒ جنہوں نے مرشد کے عشق میں تما م مراحل انتہا ئی کا میابی سے طے کئے تھے گھر بار چھوڑ کرکئی سال مرشد کے حکم پر دریا کنا رے عبا دت مجا ہدے فاقہ کشی کی دنیا جہاں چھو ڑ کر سینکڑوں شب وروز جنگل تنہا ئی میں گزارے پھر ان کٹھن ترین مرحلوں سے گزر کر نو ر حق سے ہمکنار ہو ئے مرشد نے بلھے شاہ ؒ کے خالی کشکول کو نور ولا یت سے لبا لب بھر دیا پھر جب گھر والوں نے مرشد کریم سے دور کر نے کے لیے بلھے شاہؒ پر بہت زور دیا کہ شادی کر لو لیکن بلھے شاہ نے شادی سے صرف اس لیے انکا رکر دیا کہ شادی کہ ذمہ داریا ں مر شد سے کہیں دور نہ کر دیں گھر بار ماں باپ بہن بھائی رشتہ دار سب کو چھو ڑ دیا لیکن مر شد سے دوری گوارا نہ کی لیکن یہاں قدرت نے اِس درویش با کمال کو ایک اور امتحان میں ڈال دیا ۔ بلھے شاہ کو جب پتہ چلا کہ ویرانی بے قراری بے کیفی بے لذتی کی وجہ مر شد کی نا راضگی ہے تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا جان لبوں تک آگئی سانسیں رکنے لگیں بلھے شاہ ؒ کو لگ رہا تھا جیسے با ل سے با ریک تلوار سے تیز کسی تیز دھار آلے سے جسم کے کرو ڑوں ٹکڑے کر کے جہنم کے شدید ترین حصے میں پھینک دیئے ہوں ہر پل مو ت بے قراری سب کام چھو ڑ کر تیزی سے مرشد خا نے کی طرف دوڑے آستانہ مرشد پر قدم چھو نے کی اجا زت چاہی لیکن مرشد کا پہلے سے حکم تھا کہ بلھے شاہ ؒ کو اندر آنے کی اجا زت نہ دی جا ئے ‘بلھے شاہ ؒ نے دیدار مرشد کے لیے بہت منتیں کیں خا ص لو گوں سے سفارش کی کہ مرشد کا دل نرم ہو جا ئے بلھے شاہ ؒ غلام کی طرح دن رات آستا نہ مرشد کے در پر کھڑا تھا کہ لب مرشد اجازت دیں لیکن کئی کو ششوں کے با وجود بلھے شاہ ؒ کو مرشد کی اجازت نہیں مل سکی بلھے شاہ کی دنیا لٹ چکی تھی بلھے شاہ ؒ تا ریک اندھیرے میں مدد مدد پکا ر رہا تھا لیکن ملنے کی اجازت نہیں مل رہی تھی مرشد سے نا راضگی کا روگ دیمک کی طرح بلھے شاہ ؒ کو چاٹ رہا تھا یہ عشق روگ خو ن میں جدائی کی آگ بن کر دوڑ رہا تھا ۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.