ہماری تعلیم اور عالمی دنیا‎

فن لینڈ رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے۔ اس کے اطراف میں سوئٹزر لینڈ اور ناروے موجود ہیں۔ اس ملک کے مشہور ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں ماسوائے اس کے تعلیمی نظام کے۔ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کو دنیا بھر میں قبول کیا جاتا ہے۔ یہاں اساتذہ کا انتخاب ملک کے ٹاپ 10 گریجویٹس میں سے کیا جاتا ہے اور ان کو ماسٹر ڈگری حاصل کر نے کی ضروت پڑتی ہے۔ فن لینڈ میں تعلیم کی شرح 39.3 فیصد ہے۔

ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ مارجو کائیلونن کا اس انقلاب تبدیلی کے بارے میں کہنا ہے کہ ہمارے سکولوں میں اب بھی بیسویں صدی کا نصاب ہی پڑھایا جا رہا ہے جو دورِ جدید کے تقاضوں سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ ہم 2020ء تک فن لینڈ کا پورا نظام تبدیل کر کے بدل کر رکھ دیں گے۔ مثال کے طور پر ہم اپنے طلبا کو دوسری عالمی جنگ کے بارے میں بتائیں گے تو ضرور لیکن اسے جغرافیہ، تاریخ اور ریاضی کے زاویے سے پڑھایا جائے گا۔ اب ہمارے طلبا انگریزی زبان، معاشیات اور رابطے کی مہارت سیکھیں گے۔
اس نئے نظام کے تحت اب طلبہااپنے رجحان اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اپنی تعلیم کا فیصلہ خود کریں گے۔ طلبا کا کلاس رومز میں بیٹھنا لازمی نہیں ہوگا۔ اس نئے تعلیمی نظام میں استاد اور شاگرد کا روایتی تعلق ہی ختم کر دیا جائے گا۔ اس کے بجائے وہ مسائل حل کرنے کے لیے چھوٹے گروپوں میں مل جل کر کام کریں گے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہیلسنکی کے 70 فیصد اساتذہ نئے نظام پر اپنی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اپنے تعلیمی نظام کی طرف جو قرونِ وسطیٰ کے دور میں بھی نہیں پڑھایا گیا ہوگا۔ وہی رٹا فکیشن اور زبردستی سبق کو یاد کرانے کا نظام اب تک شوق سے رائج ہے۔ اسکول وہ واحد ادارہ ہے جہاں بچوں کو غور و فکر کرنے اور انھیں سوچنے، سمجھنے اور اپنے مستقبل کے بارے میں صحیح راہ کا تعین کرانا سکھایا جاتا ہے۔ آگے چل کر یہی طالب علم انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، ادیب، فلاسفر، بیوروکریٹس اور بزنس مین بن جاتے ہیں۔ جب کہ یہاں سوچنا، سمجھنا دور کی بات طالب علم جب اسکول یا کالج سے فارغ ہوتا ہے تو اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے آگے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے بجائے خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے بجائے خود ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ کل کی بات ہے کہ کسی نوجوان نے گوادر میں اپنے آپ کو پھانسی دی تھی۔ ایسے بہت سے نوجوان ہیں جن کو نشے کی لت نے آن گھیرا ہے۔

اگر دیکھا جا ئے تو ہر ایک برا کام جو ہمارے یہاں ہوتا ہے، اسے زیادہ تر ہمارے تعلیم یافتہ ہی کرتے ہیں۔ لفظ کرپشن کو ہمارے یہاں تعلیم یافتہ ہی نے متعاراف کرایا ہے۔ آپ نے کبھی یہ سنا ہے کہ فلاں کرپشن کسی ماہی گیر، کسان یا مزدور نے کی ہے؟ نہیں، کبھی نہیں…. بلکہ وہ ایک تعلیم یافتہ ہی کا کام ہے۔ ایسا لگتا ہے اس نے کرپشن میں ماسٹر یا پی ایچ ڈی کی ہے۔

اگر بچہ اپنی کلاس میں سیکنڈ آتا ہے تو ماں باپ پوچھتے ہیں بیٹا فرسٹ کیوں نہیں آئے ہو؟ پھر بچہ زندگی بھر فرسٹ کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ اسی تعلیمی نظام نے ہمیں خود غرض اور لالچی بنایا ہے۔ جس کسی کو دیکھو وہ جلدی میں رہتا ہے۔ جس کسی کو دیکھو زیادہ کمانے میں لگا رہتا ہے۔ ہمارے یہاں لائن کا تصور ہی نہیں ہے۔ 2011 کو جب جاپان میں زلزلہ اور سونامی آیا تو وہاں نہ کوئی کسی کی دکان لوٹ رہا تھا اور نہ ہی کوئی امداد حاصل کرنے کے لیے اپنی لائن توڑ رہا تھا بلکہ وہ ایک مہذہب قوم کی طرح اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ دراصل ان کو یہ سب ان کے اسکول کی تعلیم سے ہی ملا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ہم ان کے شروعاتی دور کا اب تک مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ہمارا تعلیمی نظام انسان کو سست، کام چور اور زنگ آلود مشین ہی بنا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔ اگر آج ہم ان قوموں کی مثالیں دیتے پھرتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی انسان دوستی اور اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ وہ اپنے بجٹ کا %75 تعلیم پر ہی خرچ کر تے ہیں۔ وہ ٹلینٹ کی قدر کر تے ہیں۔ اگر پسنی کے وہ تین نوجوان کسی اور ملک میں ہوتے جہنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تری ڈی سینڈ آرٹ کے نمونے نائے ہیں تو وہ انہیں طرح طرح کے انعام سے نوازتے، ان کو استاد کا درجہ دیتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔
ہمیں آخر ایک دن اپنے ہنرمند افراد کی قدر کرنا ہو گی اور ایسا ایک اچھے تعلیمی نظام سے ہی ممکن ہے۔
 

Habib Karim
About the Author: Habib Karim Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.