لاہور قلندر۔۔ کہیں پوری دال ہی تو کالی نہیں

وہ کروڑ پتی تھا لیکن گمنام تھا۔تین سال ہوئے جب پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوا تو اس کا شہرہ بھی بہت ہوا۔ شہرت کا نشہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے دولت کی لذتیں بھی پھیکی لگتی ہیں۔ ہر طرف اسی کی تعریفیں تھیں۔ اس نے پاکستان سپر لیگ کو کامیاب بنانے اور پاکستان میں کرکٹ کو بحالی کے لئے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔ اور پی ایس ایل کی پہلی ٹیم کا مالک بن گیا۔ لاہور قلندر کے نام سے اس نے اپنی ٹیم ترتیب دی۔ اپنے سارے اثاثے ایف بی آر کے سامنے ظاہر کر دئیے۔وہ راتوں رات میڈیا پر چھا گیا۔ عوام تو عوام سیلیبیریٹیزبھی اس کے ساتھ سیلفیاں بنوانے لگے۔چار سو اس کی نیک نیتی، حب الوطنی اور قلندرانہ فطرت کا ڈنکا بج گیا۔ اور یہی شائد لاہور قلندر کے مالک رانا فواد کا پہلا ہدف بھی تھا۔

پی ایس ایل ون سے پی ایس ایل تھری تک لاہور قلندر کی ٹیم تسلسل سے آخری نمبر پر آتی رہی ہے۔ رانا صاحب کو معصوم شخص خیال کیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پہلے کرکٹر اعجاز احمد اس سادہ لوح شخص کو بے و قوف بنا کر مزے کرگئے اور اب وہ عاقب جاویدکی باری ہے۔عاقب جاوید نے پوراسال ٹیلنٹ کی تلاش اورلاہور قلندر کو بہترین ٹیم بنانے کا لارا لگا کر خوب خرچہ کروایا۔مگر ٹیم جس نمبر سے چلی تھی اس سے بھی ایک نمبر اور نیچے آگئی۔ پہلے پانچ ٹیمیں تھیں تو قلندر کا پانچواں نمبر تھے۔اب ملتان سلطان کی اینٹری سے ٹیموں کی تعداد چھ ہو گئی تو لاہور قلندر چھٹے نمبر کی ٹیم بن گئی۔پی ایس ایل سیزن تھری میں لاہور قلندر نے اب تک پانچ میں کھیلیں ہیں اور سارے ہی ہارے ہیں۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ صرف ہار ہی لاہور قلندر کے کھیل کا حصہ ہے۔ پہلے میچ یوں بنایا جاتا ہے کہ قلندروں کی جیت نوشتہ دیوار محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن پھر یوں ہوتا ہے جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا اور لاہور قلندر کے جغادری کھلاڑی پت جھڑ میں درختوں کے پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔پانچ کے پانچ میچوں کو ایک ہی انداز میں ہار دیا گیا۔

پی ایس ایل کی ٹیموں کے مالکان بھی اپنی اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کئے لئے اسٹیڈیم میں موجود ہوتے ہیں لیکن ان کا انداز بہت مدبرانہ ہوتا ہے۔ سلمان قبال ہوں یا جاوید آفریدی، ندیم عمر ہوں یا علی نقوی یا ناصر شون، ہار رہے ہوں یا جیت رہے ہوں دونوں صورتوں میں نارمل انداز میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں جبکہ لاہور قلندر کے مالک رانا فواد بالکل الٹ ہیں۔ وہ ٹیم اونر کی بجائے ایک ٹین ایج لابالی کرکٹ فین کی طرح برتاو کرتے ہیں۔ ان کی ٹیم کا کوئی بلے با چوکا یاچھکا جڑ دے تو وہ کسی چئیر گرل کی طرح اٹھ کر ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور وہیں اگر وکٹ گر جائے تو قلندرانہ انداز میں رقص کے عالم میں ہوا میں اٹھی ایک ٹانگ کووہیں چھوڑکردعا کے لئے ہاتھ باندھ لیتے ہیں۔ یہ منظر اکثر دیکھا گیا ہے کہ رانا صاحب پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ٹیم کے لئے دعا مانگنے میں مشغول ہیں اچانک ان کی ٹیم نے کی پوزیشن بہتر ہوئی۔ انہوں نے دعا کے لئے اٹھے ہاتھ چہرے پر پھیرنے کی بجائے ڈائریکٹ ہوا میں اٹھائے اور محوئے رقص ہو گئے۔

عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ہماری پسندیدہ ٹیم جب میچ ہارے اور ہارے بھی ایسے کہ عقل تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ ایسا کبھی کبھار ہو تو ہم اسے اگنور کر دیتے ہیں لیکن اگر یہ معمول بن جائے تو ذہن میں جو پہلا خیال آتا ہے وہ میچ فکس ہونے کا ہوتا ہے۔ ہم ایسی ٹیم سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ اور ٹیم پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ مگر، لاہور قلندر اور میچ فکسنگ۔۔۔، ایسا ہم کو گمان بھی نہیں گزرتا۔ ہم کو غصہ بھی نہیں آتا۔

کبھی آپ نے سوچا اس کی وجہ کیا ہے؟۔۔۔اس کی وجہ رانا فواد فیکٹر ہے۔ لوگ غیر فطری ہار کو بھول کر رانا صاحب کے لئے پریشان ہو جاتے ہیں۔ ان کی باڈی لینگوئج، چہرے کے تاثرات سے ابھرنے والا کرب سب کو پریشان کر دیتا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ بیچارا رانا، کس شوق سے ٹیم بنا کر پاکستان کی خدمت کرنے آیا ہے۔ بھاری تنخواہوں پر کوچ، مینجمنٹ اور کھلاڑی خرید لئے۔ کیا حب الوطنی ہے، بے چارے نے کروڑوں روپیہ ضائع کر دیا اور ٹیم کو دیکھو کیا گل کھلا رہی ہے۔حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ، درویشی کا لقب، کرکٹ کا لازوال عاشق کا ٹائٹل اس'' درویش'' کا دوسرا ہدف تھا۔

ٹیم لاہور قلندر بھلے ہی ہمیشہ آخری نمبر پر رہتی ہے۔ہر جیتے میچ کو ہارتی آئی ہے۔لیکن رانا فواد نے پاکستان سپر لیگ کا حصہ بن کرکبھی کچھ بھی نہیں ہارا صرف حاصل ہی کیا ہے۔ اسی پی ایس ایل ہی نے گمنامی سے نکال کر وہ شہرت دی جو کہ اربوں پتیوں کو بھی حاصل نہیں۔ اسی شہرت ہی کی وجہ سے ان کا قطری بزنس بھی ترقی کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔لاہور قلندر پر لگایا گیا پیسہ کئی گنا ہو کر واپس آچکا۔ ان کے پاس آج جتنی دولت ہے ۶۱۰۲ میں وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔یہ ایک بزنسمین کا منصوبہ تھا جو بہت کامیاب رہا۔ نیک دل، محب وطن، کرکٹ کا مسیحا، ایک درویش آدمی کا ٹائٹل اس کے علاوہ ہے۔پاکستان اور کرکٹ پر ان کا احسان کی دھاگ الگ سے بیٹھی ہوئی ہے۔یعنی آم کے ٓام اور دام گھٹلیوں کے بھی نہیں دینے پڑے۔

رانا فوادکے ادائیں د یکھ کرمجھے بولی وڈ فلم'' ِ دس ''کامافیا ڈان'' جموال'' یاد آتا ہے۔جسے پکڑنے کے لئے انڈیا سے ٹاپ پولیس آفیسرکنیڈا جاتے ہیں وہاں مافیا دان کی جگہ اس کا ادنا سا بے ضرر کارندہ ان کے ہاتھ لگتا ہے۔ جو پولیس ٹیم کو بتاتا ہے کہ مافیا ڈان بہت ہی خطرناک شخصیت ہے۔لمبا چوڑاجسہ، دہشت ناک چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں اورشیر جیسی آواز ہے۔ جبکہ کارندے کی اپنی شخصیت بالکل اس کے الٹ تھی۔ ٹھگنا قد، سہما ہوا انداز، اور بات بات پر کانپ کانپ جانا اس کی عادت تھی۔پولیس پارٹی اسے اس ڈر سے چھوڑ دیتی ہے کہ کہیں سختی کرنے پر یہ بے چارہ مر مرا نہ جائے۔ لیکن پولیس کی قید سے رہائی ہی اس کارندے کا ہدف تھا، دراصل وہ کارندہ ہی مافیا ڈان'' جموال'' تھا۔لاہور قلندر کے میچ کے دوران رانا صاحب کی جیسی حالت ہوتی ہیاسے دیکھ کر قوم کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ اگر قلندر ہارے تو کہیں رانا فواد جان کی بازی ہی نہ ہار جائیں۔ قلندر پھر سے ہار جاتے ہیں۔ہارہر بار کی طرح غیر فطری اور غیر متوقع ہی ہوتی ہے۔۔۔ رانا فواد خاموشی سے اٹھتے ہیں۔ تسلی سے ہٹل جاتے ہیں۔ڈنر ونر کرتے ہیں اور اگلے میچ کے وقت پھر اسٹیڈیم میں موجود ہوتے ہیں۔ ایسا ہر بار ہوتا ہے۔ پتہ نہیں قلندر میچ ہار کر رانا صاحب کا امتحان لیتے ہیں یا رانا صاحب قوم کا۔۔سوچتا ہوں کہیں پیچ ہارنا ہی راناصاحب کا ہدف نہ ہو۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔
 

Wasif Malik
About the Author: Wasif Malik Read More Articles by Wasif Malik: 6 Articles with 6075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.