ایک ایسا مسئلہ جو بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک
ناسور کی مانند پھیل چکا ہے۔ اس مسلے کے خاتمے کے لیئے اگر نوجوانوں نے
کردار ادا نہ کیا تو میرے خیال میں یہ اسانی سے ہمارا معاشرہ تباہ کر سکتا
ہے جس کے اشارے ہم آج کل کے دور میں محسوس کرسکتے ہیں۔ نقل ایک ایسی بیماری
کا نام ہے جو اپنے بیمار کو وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے مگر اپنے ساتھ بہت
کچھ لے بھی جاتی ہے جس میں محنت کا جذبہ، لگن، ایمانداری اور خود اعتمادی
شامل ہیں جس کے جانے کے بعد اس مریض کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہو
جاتا ہے۔ ایک طالب علم نقل کے ذریعے پاس ہو کر اچھے نمبر لے کر اچھے ادارے
تک تو پہنچ جاتا ہے لیکن اس کا معیار اور اس کو سوچ اس تعلیمی ادارے کے
معیار کے مطابق نہیں ہوتے لہذا وہ آگے چلنے سے قاصر ہوتا ہے جس کی وجہ سے
طالب علم کو ناکامی اور شرمندگی دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا عالم کچھ یوں ہے کہ کم نمبر لینے والے طالب علموں کو ذلت
کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کو کند ذہن تصور کیا جاتا ہے حالانکہ میرے
نزدیک قابلیت کا دارومدار نمبروں پر ہرگز نہیں بلکہ طالب علم کے سوچ و فکر
اور معاشرتی کردار پر ہے۔ بعض طالب علم نقل کا سہارا لیئے بغیر بھی اچھے
نمبر لے لیتے ہیں لیکن اونچا میرٹ ہونے کی بدولت اچھے ادارے تک رسائی میں
ناکام ہوتے ہیں۔
وجوہات:
معاشرے میں نقل کے رجحان کے کئی وجوہات ہیں جن میں سر فہرست آج کل کا بڑھتا
ہوا میرٹ ہے جو آسمان سے باتیں کرتا ہے۔ اچھے اداروں نے اپنا میرٹ اتنا
ذیادہ رکھا ہے کہ ایک اوسط معیار کا طالب علم اس کا سوچ بھی نہیں سکتا جس
کی وجہ سے وہ نقل کا سہارا لیتا ہے اور ذیادہ نمبر لینے کی کوشش کرتا ہے۔
اس ناسور کی دوسری بڑی وجہ غیر ذمہ دار امتحانی عملہ ہے جو اپنے فرائض
بخوبی سرانجام نہیں دیتے اور اس مسلے کے روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا
کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جو معاشرے کے لیے تباہ کن ہے۔
نقل کے رجحان کی تیسری وجہ طالب علموں میں محنت اور لگن کی کمی ہے طالب علم
وقت پر محنت نہیں کرتے اور بعد میں امتحان میں نقل کا سہارا لیتے ہیں۔
اس مسلے کی چوتھی بڑی وجہ امتحانی بورڈ کی جانب سے برتی جانی والی کوتاہی
ہے۔ دور دراز امتحانی مراکز میں امتحانی پابندیاں نہ ہونے کے برابر ہوتی
ہیں۔
اثرات:
اس مسلے کے اثرات نہایت منفی ہیں۔ نقل کا رجحان معاشرے پر نہایت منفی اثرات
مرتب کرتا ہے۔ جس میں طالب میں موجود محنت کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے
خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے، اور طالب علم لوگوں کے سامنے بلہ جھجک بولنے
میں شرم محسوس کرتا ہے۔ نقل کا سہارا لینے والے طالب علم دوسروں پر انحصار
کرتے ہیں اور خود تخلیقی سوچ نہیں رکھتے ، قوت فیصلہ نہایت کمزور ہوتا ہے ،
قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں۔
قابو:
چونکہ یہ مسلہ ہمارے معاشرے میں گڑ چکا ہے لہذا اس پر قابو پانا مشکل ضرور
مگر نہ ممکن ہرگز نہیں ہے۔ اس مسلے پر قابو پانے کے لیے نوجوان نسل کو بھر
پھور کردار ادا کرنا ہوگا۔ طالب علموں کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کرام
کو بھی انتھک محنت کرنی ہوگی۔ نوجوانوں کا اس ناسور سے بائیکاٹ اس مسلے کا
بہت بڑا حل ہے۔ طالب علموں کو نقل کی امید دینے کی بجائے محنت پر امادہ
کرنا ان میں احساس ذمہ داری اور محنت کا جذبہ پیدا کرنا والدین اور اساتذہ
کی اولین ذمہ داری ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے سے اس ناسور کو ہر قیمت پر ختم کرنا ہوگا تا کہ انے والی
نسلیں اس سے پاک ہوں اور بہتر معاشرے کے لیے وہ اپنا پورا کردار ادا کر
سکیں۔ |