کبھی کبھی ایک مختصر سا شعر مکمل زندگی کی حقیقت بیان کر
دیتا ہےمگر ہم میں سے اکثر چیز کو اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح ان کی اپنی سوچ
ہوتی ہے۔ اس طرح وہ غیر جانبداری سے چیزوں کو سمجھنے سے محروم ہو جاتے ہیں
۔ یہ شعر پڑ ھیں اور اندازہ کریں کہ شاعرکس چیز کی اور کیا بات کر رہا ہے۔
لڑ لڑ کر چھوڑ دیا ہم نے کہ بہہ لیں آنسوٍ
لہریں اُٹھتی ہیں تو پانی میں اچھال ہوتا ہے
میں بھلا کیسے روکوں کہ روتی ہیں میری انکھیں
جب بھی دل میں ابھرتا ہوا تیرا خیال ہوتا ہے
اب کسی کی سوچ محبت کی طرف جائے گی تو کسی کی رونے کی طرف۔ کسی کو تنہائی
میں سمندر کا خیال آئے گاتو کسی کو محبوب کے بچھڑنے کا مگر میں جس چیز کی
طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہ رہی ہوں وہ سوچ ہے ۔ آپ کی اور میری سوچ ۔ خیال
جو ہر پل ہمارے اذہان سے لپٹے رہتے ہیں ۔ انسان ہر پل سوچوں میں گِرارہتا
ہے۔ کبھی مثبت اور کبھی منفی سوچوں سے۔ میں نے کبھی سوچوں سے متعلق نہیں
سوچا تھا۔ کیونکہ بہت عرصہ تک میں یہی سمجھتی رہی کہ زندگی خوشی کو حاصل
کرنے اور دوسروں کو خوش رکھنے کا نام ہے ۔ جیسے جیسے وقت گزرا تو احساس ہوا
کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔خوشی تو ایک حالت کا نام ہے ،جو کسی شے کی وجہ سے
نہیں بلکہ ہمارے اطمینان سے جنم لیتی ہےاور یہ اطمینان فقط ہماری سوچ کی
وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ سوچ ہم خود تشکیل دیتے ہیں ۔
دوسروں کو خوش کرنے کی جدہ جہد بھی بے کار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ
خوشی ہمارے اطمینان اور ہماری سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے تو کوئی دوسرا یہ
اطمینان ہمیں نہیں دے سکتا ،نہ ہی ہم یہ اطمینان کسی کو دے سکتے ہیں ۔دوسروں
کو خوش کرنا ایسا ہی ہے ۔جیسے کوئی کتا اپنی دُم پکڑنے کے لیے خود اپنے ہی
گرد چکر لگاتا رہے۔ لہذاہر انسان اپنی خوشی اور غم کا خود زمہ دار ہے۔
آپ خوش اخلاق ہو سکتے ہیں ۔ آپ با کردار ہو سکتے ہیں ، آپ زمہ دار و
باوقار ہو سکتے ہیں ۔ آپ دنیا کو خوبصورت کر سکتے ہیں مگر آپ کسی کو خوش
نہیں کر سکتے ۔ یہ خالصتاً خود سے متعلقہ کام ہے۔جو خود ہی خود کے لیے کیا
جاتا ہے۔ آپ یہ بات جس قدر جلد سمجھ جائیں اچھا ہے ۔ جن سے آپ کو پیار ہے
انہیں بھی یہ بات ضرور بتائیں ۔ بے شک آپ فقط بتا ہی سکتے ہیں۔ سمجھنے کی
زمہ داری ان کی ہو گی۔ جنہیں آپ بتا رہے ہیں ۔ میں نےجب زندگی کے بنیادی
حقائق تسلیم کئے، تب ہی زندگی میں بالیدگی شروع ہوئی۔
میں نے جاگتی انکھوں سے جو خواب دیکھے ہیں ان میں سب سے خوبصورت اور مکمل
اپنی ذات کی تکمیل کے لے ہمہ وقت سرگرداں رہنا ہے۔ ہر وقت اس فکر میں رہنا
کہ میرا آج کا دن گزرے ہوئے دن سے ہر لحاظ سے بہتر ہو۔ جس دن میں کچھ بھی
بہتر سیکھ نہیں پاتی وہ دن مجھے لگتا ہے کہ ضائع ہو گیامگرمیں دوسرے دن
مذید جوش کے ساتھ اپنے خواب کی تکمیل کے لیے کھڑی ہو جاتی ہوں بجائے اس کہ
میں افسوس میں بیٹھی رہوں کہ میں نے کیا ضائع کیا۔ حصول کی خواہش کے لیے
سرگرم رہنا ضائع شدہ لمحات پر افسوس سے کہیں ذیادہ بہتر ہے۔
جس طرح ماں کے پیٹ سے باہر آنے پر نومولود روتا ہے ،اپنی دنیا کے چھین
جانے کی دُہائی دیتا ہے کیونکہ اسے شعور نہیں ہوتا کہ اسے بڑی اور خوبصورت
دنیامل رہی ہے۔ اسی طرح بے شعور انسان مشکلات و مصائب سے گھبرا کر چیخ
اٹھتے ہیں ۔یہ نہیں جان پاتے کہ ان کی آزمائش لے کر رب ان کے لیے مقام طے
کرتا ہے ۔ حضرت ابراہیم نے آگ میں جلنا قبول کر کے خلیل اللہ کا لقب پایا
۔ مشکل ہی ترقی کا وہ زینہ ہے جو بلندی تک لے جائے۔اس بلندی کے لیے بنیاد
بھی آپ کی سوچ ہی فراہم کرتی ہے ۔یہ سوچ آپ کو یقین کی دولت بھی دے سکتی
ہے اور شکوک پر مبنی گڑھا بھی ۔
ایک قدم ، ایک اینٹ اور ایک لفظ ہی زندگی میں کسی منزل ،کسی بلند و بالا
عمارت اور کسی شہکار داستان کا پیش خیمہ بننے والی سنگل یونٹ ہوتے ہیں ۔ اس
لیے اپنے لمحات پر نظر رکھیں ،جوانسان اپنے لمحات کےخرچ پر مکمل دھیان دیں
،یہی لمحات زندگی کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانے کا سبب بنیں گئے۔لمحات
کی تشکیل بہترین سوچ سے کرکریں ۔ سوچ ہی وہ اصل حقیقت ہے جو انسان کو بنا
سکتی ہے ،بگاڑ سکتی ہے۔ خوشی کا سبب بن سکتی ہے ،غموں سے نڈھال کر سکتی ہے۔
ایک کہانی پڑھنے کے بعد مجھے سوچ کی اہمیت کا اصل اندازہ ہوا ۔ جو آپ کے
گوش گزار کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں ۔ ایک دفعہ ایک شخص جو بہت بڑا بزنس مین
تھا۔ کچھ غلط فیصلوں کی وجہ سے بہت بڑے مالی نقصان کا شکار ہو گیا۔ یہاں تک
کہ مارکیٹ میں کوئی بھی اسے قرض دینے کو تیار نہیں تھا۔ کسی کو اس پر یقین
نہ تھا کہ وہ دوبارہ اپنا بزنس بہتر کر پائے گا۔ اسے بھی خود پر یقین نہ
رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا۔ کہ بزنس کو دوبارہ مستحکم کرنے کی بجائے پورا
بزنس ختم کر کے قرضے واپس کر دیے جائیں ۔ ایک شام وہ اسی سوچ میں ڈوبا ایک
ہوٹل میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی جو اچھے سے سوٹ میں ملبوس تھا اس کے قریب
آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بزنس مین سے اس کے اُترے ہوئے چہرے کا سبب پوچھا تو
بزنس مین نے اسے بتایا کہ وہ ایک غریب آدمی تھا۔ سخت محنت سے اس نے کڑوروں
کابزنس کھڑا کیا تھا جو اب شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ مجھے اگر مارکیٹ
میں کو ئی اگر کچھ سرمایہ دے دے تو میں دوبارہ سب ٹھیک کر لوں مگر کسی کو
مجھ پر یقین نہیں ۔
اس سوٹ بوٹ والے آدمی نے کہا مگر مجھے یقین ہے صاحب جو شخص بغیر بڑی رقم
کے بلند پائے کا بزنس مین بن سکتا ہے وہ دوبارہ سے اپنی پوزیشن بھی حاصل کر
سکتا ہے۔ میرا خیال ہے آپ کو سرمائے کی نہیں خود پر یقین کی ضرورت ہے۔ پھر
بھی میں آپ کو ایک ملین دیتا ہوں یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی جیب میں ہاتھ
ڈالا اور چیک بک نکال کر رقم لکھنے لگا۔ بزنس مین حیران تھا۔ اس نے حیرت سے
کہا مگر آپ کو میں یہ رقم واپس کیسے کروں گا۔ اس سوٹ والے آدمی نے
مسکراتے ہوئے کہا، ہم ٹھیک ایک سال بعد یہاں ہی ملیں گئے۔ آج سال کا پہلا
دن ہے کیا آپ کو نہیں پتہ ۔ میں ہر سال کی شروعات کسی انجان کی مدد سے
کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ آدمی خدا حافظ کرتے ہوئے چلا گیا ۔
بزنس مین دیر تک سوچتا رہا کہ وہ آدمی ٹھیک کہہ رہا تھا۔مجھے پیسے کی نہیں
خود پر یقین کی ضرورت ہے۔ اس نے وہ ایک ملین کا چیک اپنے دراز میں سنبھال
کر رکھ لیا۔ نئے نئے طریقے سوچنے لگا ،جس سے اپنے بزنس کو دوبارہ مستحکم کر
سکے ۔یہاں تک کہ دن رات کی محنت کی وجہ سے دوبارہ اپنی پوزیشن حاصل کر لی ۔وہ
بہت خوش تھا۔ وہ اپنی کامیابی کی وجہ اس شخص کو قرار دیتا تھا جس نے اسے
اپنی سوچ بدلنے کی صلاح دی تھی۔ سال کا پہلا دن تھا وہ صبح ہی ہوٹل میں آ
کر بیٹھ گیا ۔ ساتھ ہی اس نے وہی چیک اپنی جیب میں ڈال دیا جو اسے اس سوٹ
والے آدمی نے کاروبار کے لیے دیا تھا ۔ جو اس نے استعمال ہی نہ کیا تھا۔
صبح سے شام ہو چکی تھی ،وہ سوٹ والا آدمی نہ آیا تھا۔ بزنس مین مایوسی سے
گھڑی دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ممکن ہے کہ ہو سوٹ والا آدمی
بھول گیا ہو کہ اس نے اپنی رقم واپس لینی ہے۔ مگر اس نے اپنے سال کی شروعات
کسی کی مدد سے کرنی تھی یہ تو وہ نہیں بھول سکتا۔ یہ سوچ کر وہ وہیں انتظار
میں تھا کہ رات کے گیارہ بجے ایک آدمی اسے سوٹ میں آتا دیکھائی دیا۔ اس
کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ کیونکہ یہ وہی شخص تھا جس نے اسے رقم دی تھی۔ وہ
فوراً اپنی کرسی سے اُٹھا اور کھڑا ہو گیا تا کہ اپنے محسن کا شکریہ ادا کر
سکے۔
سوٹ والا آدمی تیزی سے اس کے پاس سے گزر گیا۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے اس کے
پیچھے آئے اور اسے پکڑ لیا۔ بزنس مین نےپکڑنے والوں میں سے ایک کو روک لیا
اورپوچھنے لگا کہ اس بھلے آدمی کو کیوں پکڑ رہے ہو ؟ تو اس نے بتایا یہ
پاگل ہے ۔ بزنس مین نے کہا ،نہیں نہیں یہ تو دوسروں کی مدد کرتا ہے۔ وہ میل
نرس مسکرایا اور بولا۔ جی جی یہ دوسروں کی چیک بانٹتا پھرتا ہے ، دس سال سے
یہی کر رہا ہے۔ یہ پاگل ہے۔ ہر نئے سال کی پہلی تاریخ کو اِسے سخی بننے کا
یہ دورا پڑتا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے وہ چل دیا۔
بزنس مین نے اپنی جیب میں سے چیک نکالا اور دیکھنے لگا۔ کیسے ایک جعلی چیک
نے اس کی سوچ کا دھارا بدل کر اسے کنگال سے مالدار بنا دیا تھا۔ وہ سمجھ
چکا تھا۔کیسےانسان کی سوچ اس کے لیے بہترین ڈھال بن سکتی ہے اور یہی سوچ ہے
جو اس کو کنگال کر سکتی ہے۔
جہاں تک ممکن ہو اپنی سوچوں پر نظر رکھیں ۔ آپ کی خوشی، غم ،ترقی اور
بدحالی کی زمہ دار فقط آپ کی اپنی سوچیں ہیں ۔ سوچ وہ بیچ ہے ،جو عمل کو
جنم دیتا ہے ۔عمل زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔آپ آج جو کچھ بھی ہیں
اپنی ہی وجہ سے ہیں ۔ اس بات کو جس قدر سمجھ جائیں ،اتنا ہی آپ کے لیے
اچھا ہے۔ |