زندگی کی فریاد

ایک دن زندگی نے پوچھا موت سے تم اتنی خوش نصیب کیوں ہو
موت نے حیرت سے،تعجب سے پوچھا وہ کیسے بہن
زندگی بولی اُ سے تم مر بھی زندہ رہتی ہو سماج میں
یہ رواج ہے میری بستی کا کہ مُردوں کو یاد رکھا جاتا ہے
مُردوں کے لئے دیگیں چڑھائی جاتی ہیں اس بے حس سماج میں
یہ قوم مُردوں کی برسی مناتی ہے اور زندوں کو بنیادی حقوق تک نہیں میسر
غریب کا بچہ روٹی مکان ا و رکپڑے کو ترستا ہے
تم مر بھی زندہ ہو اس بے حس سماج میں
میں زندہ ہوکر بھی دیکھتی نہیں کہیں
تم شہید ہوکر بھی زندہ ہو آج تک
میں غازی ہوکر بھی لڑتی ہوں سماج میں
کیا یہ ظلم نہیں بہن کہ زندگی "زندگی"کو ترستی ہے
اور موت راج کرتی ہے اس ظالم سماج میں۔۔

Hameeda
About the Author: Hameeda Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.