تاریخ گواہ ہے جس دور میں انصاف ختم ہوا وہ قومیں نیست
و نابود ہوگئیں۔ حضرت علی ؑ کاقول ہے کہ کفر کا نظام تو قائم رہ سکتا ہے
مگر ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔بلاشبہ یہ قول اسلامی معاشرے میں انصاف
کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔قیامت کے روز جب کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ رب
کائنات کے سامنے لب کشائی کرے مگر ایسے میں عادل حاکم کو رب کریم کے سائے
میں پناہ ملے گی۔دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، ہمیشہ ان معاشروں نے
ترقی کی ہے جہاں پر انصاف کا مضبوط نظام موجود ہے۔حتیٰ کہ دوسری جنگ عظیم
کے دوران برطانیہ اس توقع پر قائم رہا کہ جب تک معاشرے میں لوگوں کو انصاف
مل رہا ہے عظیم سلطنت برطانیہ کا شیرازہ نہیں بکھر سکتا۔دنیا میں انصاف کے
باقاعدہ نظام کا آغاز حضرت عمر کے دور میں کیا گیا۔آپکے دور میں جہاں
اسلامی ریاست تمام براعظموں تک پھیلی وہیں آپ نے ہر علاقے کے لئے ایک موثر
عدالتی نظام متعارف کرایا۔آج بھی دنیا اس عظیم حکمران کے دور کو یاد کرتی
ہے جس نے انصاف کی اولین مثال قائم کرتے ہوئے اپنے ہی گورنر کے بیٹے کو
کوڑوں کی سزا دلوائی۔یہ انصاف ہی ہوتا ہے جو عوام کا ریاست پر اعتماد بحال
رکھتا ہے۔مگر جب معاشروں میں انصاف کو نظر انداز کرنا شروع کردیا جائے تو
پھرریاست کی جڑیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں۔آج میرا وطن عزیز بھی اسی صورتحال سے
دوچار ہے۔قارئین آج آپ کو ایک ایسا واقعہ سنانے جار ہا ہو ں جس کا خیال
ذہین میں آتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاک سرزمین پر
انصاف ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا ہے اور انصاف کے متلاشی سسک سسک کر جان کی
بازی ہار رہے ہیں۔ایسی بربریت اور تشدد کی تو زمانہ جاہلیت میں بھی کوئی
مثال نہیں ملتی۔کرب اور دکھ کی داستان سنانے سے قبل محسن نقوی کا شعر یاد
آگیا ہے....
سنا ہے زلزلے آتے ہیں عرش پر محسن
بے گناہ لہو جب سنا پہ بولتا ہے
وطن عزیز میں ہمیں ظلم،نا انصافی اور بربریت کے آئے روز کئی واقعات دیکھنے
کو ملتے ہیں۔ہمیں نہ تو اللہ کا ڈر ہے اور نہ ہی ہم دیگر اقوام میں اپنی
بدنامی سے ڈرتے ہیں ۔پتا نہیں ہم کس طرف جا رہے ہیں اور ہمیں ہو کیا گیا
ہے۔پنجاب کے ضلع قصور سے اغواءکی جانے والی 7 سالہ بچی زینب کو زیادتی کے
بعد قتل کردیا گیا تھا، جس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے ملی تھی۔زینب کے قتل کے
بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور قصور میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ
پڑے جس کے دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہو گئے
تھے۔بعدازاں چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیا اور 21 جنوری کو
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہونے والی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس میں پولیس تفتیش پر عدم اعتماد کا
اظہار کرتے ہوئے کیس کی تحقیقات کے لیے تفتیشی اداروں کو 72 گھنٹوں کی مہلت
دی۔جس کے بعد 23 جنوری کو پولیس نے زینب سمیت 8 بچیوں سے زیادتی اور قتل
میں ملوث ملزم عمران کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، جس کی تصدیق وزیراعلیٰ پنجاب
شہباز شریف نے بھی کی۔بعد ازاںملزم عمران کے خلاف کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل
ہوا، جس پر 12 فروری کو فرد جرم عائد کی گئی۔زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے
خلاف جیل میں 4 دن تک روزانہ 9 سے 11 گھنٹے سماعت ہوئی، اس دوران 56 گواہوں
کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور 36 افراد کی شہادتیں پیش کی گئیں۔سماعت کے
دوران ڈی این اے ٹیسٹ، پولی گرافک ٹیسٹ اور 4 ویڈیوز بھی ثبوت کے طور پر
پیش کی گئیں۔15 فروری کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر انسداد دہشت گردی
عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا۔
اگر ہم کچھ سال پہلے کے واقعات کی طرف جائیں کہ جب قصور میں ہی بچوں سے
جنسی زیادتی کے واقعات کو 2015 کا سب سے بڑا سکینڈل سمجھا جا رہاتھا۔
2006ءسے 2014ءکے دوران حسین والا ضلع قصور میں 300 بچوں کو جنسی زیادتی کا
نشانہ بنا کر ا ±ن کی ویڈیو بنائی گئی اور پھر ان ویڈیوز کی مدد سے ماں باپ
کو بلیک میل کر کے لاکھوں روپے بٹورے گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا
کہ اس واقعے میں پولیس اور مقامی ایم پی اے ملک احمد سعید بھی ملوث تھے۔کیا
کسی عوامی نمائندے کا یہ کردار ہوتا ہے اور کیا وہ قانون کی حکمرانی کی
بجائے خو دہی قانون اور انصاف کے ساتھ کھلواڑ کرنا شروع کردے۔اگر اس وقت ان
مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جاتی تو شاید مستقبل میں اس طرح کے واقعات
رونما نہ ہوتے۔
حالیہ قصور کے واقعہ کے بعد جڑانوالہ میں بچوں سے جنسی سکینڈل کا انکشاف
ہوا ہے جس میں ملزمان عرصہ سے معصوم بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر
ویڈیو ریکارڈ کرکے بلیک میل کر رہے تھے ۔پولیس ان مجرموں کو گرفتار کرنے
کےلئے چھاپے مار رہی ہے۔ چند روز قبل جڑانوالہ میں ہی جی سی یونیورسٹی کی
ایم اے انگلش کی طالبہ عابدہ کو اغواءکے بعد بے دردی سے قتل کردیا گیا
تھا۔اس واقعہ میں پولیس کا کردار بھی منفی رہا عابدہ کی گمشدگی کے کئی روز
بعد تک اس کی گمشدگی کی رپورٹ تک اندراج نہیں کیا گیا اور تاحال اس کے قاتل
گرفتار نہیں ہوسکے۔عابدہ کے گھر والوں سے تعزیت کےلئے وزیراعلیٰ پنجاب نے
جڑانوالہ کا دورہ کرنا تھا ۔اسی دوران ہیلی کاپٹر کا ہیلی پیڈ دیکھنے کےلئے
چھ سالہ مبشرہ وہاں گئی جسے نامعلوم درندوں نے اغواءکے بعد قتل کردیا۔
ہمارے ملک میں ہونے والے ظلم اور بربریت کے چند واقعات ہمارے سامنے ہیں۔یہ
وہ واقعات ہیں جو میڈٰیا پر آئے یا پھر رپورٹ ہوئے اسی طرح کے کئی واقعات
اور جنسی زیادتی کے سیکنڈل تو اکثر اوقات نہ تو میڈیا پر آتے ہیں اور نہ ہی
ان کی رپورٹس کااندراج ہوتا ہے۔ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی اصلاح
کرنا ہوگی اس میں میڈیا اور تمام مکاتب فکر کو اپن اپنا کردار ادا کرنا
ہوگا ۔ان ظالموں اور مجروموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر کڑی سے کڑی سزا دی
جانی چاےئےے تاکہ آئندہ کوئی بھی اس طرح کی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے۔ |