میں کس کے ہاتھ پہ اپنالہو تلاش کروں

کبھی سنا دیکھا یا پڑھا نہیں کہ فلاں شخص نے ہنسی خوشی خود کشی کر لی یا فلاں نے بے انتہاخوشی کے مارے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ،مرنے و الا تو ہمیشہ حالات کی اس نہج پر پہنچ کر زندگی کے خاتمے کا فیصلہ کرتا ہے جب اسکی زندگی کے سارے گوشوارے ، حساب کتاب اسکے خلاف جا رہے ہوتے ہیں ، ہر طرف مایوسیوں کے اندھیرے چھا جاتے ہیں زندگی بوجھ بن جاتی ہے ،اسکے اعصاب جواب دے جاتے ہیں ، وہ اس غیر معمولی دباؤ اور خوف کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتا جسکا اسے سامنا ہوتا ہے ، وہ زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرد یکھنے کی جرات کھو بیٹھتا ہے ،خود کشی جیسے انتہائی قدم تک پہنچنے سے پہلے کے جتنے عوامل ہوتے ہیں وہ سب اس کے اس عمل میں برابر کے شریک اور ذمہ دار ہوتے ہیں اور اسے پنکھے سے لٹکنے، نہر میں کودنے ، نیند کی گولیاں کھانے یا کنپٹی پرپسٹل کے فائر تک لے کر آنے کے شریک مجرم بھی، اس لئے خودکشی کر نے والے کو اپنی جان خود لینے کا ذمہ دارکہہ کر ،رشتے دار ، دوست، افسران اور ماتحت وغیرہ وغیرہ اپنے حصے کی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا سکتے ، سہیل ٹیپو کی تو بڑے افسران سے ملاقاتیں ہوئی تھیں اور پوسٹ مارٹم رپورٹ جس وقت اسکی موت کا وقت بتا رہی ہے اسکی پنجاب کے شہزادے حمزہ شہباز سے ملاقات طے تھی ، سہیل ٹیپو کے پاس کیا کوئی ثبوت تھے، وہ کس وجہ سے دباؤ میں تھا ، وہ دباؤ اتنا شدید کیوں تھا کہ اسے اپنے ’’محتاج ‘‘ معذور والد اور ضعیف ماں ہی نہیں بلکہ 3معصوم بچیاں اور ایک بیٹے اور اپنی بیوی کسی کا خیال نہیں آیا اور وہ خوف یا دباؤاسے اس انتہائی اقدام تک لے آیا، ڈی سی سہیل ٹیپو کو کسی نے گھر آ کر قتل کیا یا بے حس معاشرے میں ذاتی مفادات کے اندھے اسیروں نے اسے خود کشی پر مجبور کیاد ونوں صورتوں میں اس پر ظلم ہو اہے اور اس میں بدنصیبی کا پہلو شدید ہونے کے باوجود قانون کی کسی ڈکشنری کا حصہ نہیں اور قابل دست اندازی ء پولیس بھی نہیں ہے، یہ بد نصیبی قدم قدم پر عوام کے سامنے ہر روز کھڑی ہو تی ہے ، یہ ان گندے بدبودار غریب ،غلیظ عوام کی بدنصیبی ہی ہے جو کام کروانا تو درکنار سرکار کے کسی دفتر میں بغیر سفارش کے داخل تک نہیں ہو سکتے ،یہ بدنصیبی ہی ہے کہ ہم سب اس آلودہ، ملاوٹ زدہ معاشرے کے بے حس پتھر ہیں ۔۔۔۔وہ انسان نمابت ہیں جن کی عبادت ، سیاست ، ، تجارت ، صحافت ، عدالت اور حکومت سمیت ہر شے ملاوٹ زدہ اور دکھاوے کی ہے ، جہاں درد دل اور خوف خدا تونام کو نہیں ہے، انصاف مذاق بن چکا اور احتساب انتقام کا مؤثر ہتھیار ، طاقت ور اور سرمایہ دار قانون کی گرفت سے اتنی دور ہے جتنا غریب آدمی بنیادی ضروریات زندگی سے ،اس غریب بیٹے کی محض کسی الزام اور جھوٹے مقدمے پر بھی ساری جوانی جیلوں میں گل سڑ جانا عام بات ہے ، یہاں طاقت کے قانون کے تحت بڑی مچھلیوں کی چھوٹی مچھلیوں کو کھا جانے کا رواج ہے ملک میں کوئی بڑاشخص قوم کی متاع لوٹ کر بھی کبھی پھانسی کے گھاٹ تک نہیں گیا ، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں طاقتور کمزوروں کی جان لینے ہی نہیں بلکہ انہیں کچا چبا جا نے کے در پہ ہے ، ہم اس معاشرے میں۔۔۔۔ حرص و ہوس کی اندھی دوڑ میں اندھا دھند ، سرپٹ بھاگنے والے وہ گھوڑے ہیں جن کے پاس، منزل کا پتا ہے نہ کوئی نشان اوربے نشان منزلوں کو بھی ہمارے قدموں کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی، ایم این اے شازیہ سہیل میر مجھے بھائی کہتی ہے ، ڈی سی سہیل ٹیپو کی یوں یوں ناگہانی موت اس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی ، وہ کئی دن روتی رہی ، اس جیسے درد دل رکھنے والے لوگ آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں، کسی نے مشورہ دیا مرحوم کے لئے قرآن خوانی کرا دیں اور شہر کے لوگوں کو بلا لیں ، سب مل کر مرنے والے کے لئے دعا کریں گے ، آپ کو بھی ثواب ہو گا اورمرنے والے کی روح کوبھی پہنچے گا ، ا س نے دعوت عام دی اورا راکین اسمبلی کو بھی مدعو کیا ، پروگرام والے دن تما م وقت اسکی آنکھیں شہر کے اراکین اسمبلی کو ڈھونڈتی رہیں مگرشہر سے توفیق بٹ اور ضلع سے اشرف وڑائچ کے سوا کوئی نہ پہنچا ، اسے اندازہ نہ تھا کہ یہ وہ معاشرہ ہے جس میں ہم سب میں ملاوٹ اور ڈرامے بازی بری طرح سرایت کرچکی ہے ، جہاں عوام کے ٹیکس کے پیسے سے سیاست چمکاتے ہوئے اشتہار بازی کے شوقین حکمرانوں کے افتتاح ، اظہار تعزیت اورشادی مبار ک بھی دکھاوا ہیں ، جہاں حکومت میں آنے کے لئے میرے عوام ہمارے عوام کی گردان اچھی لگتی مگر اقتدار میں آ جانے کے بعدیہی عوام زہر لگنے لگتے ہیں ، جہاں منصف اعلیٰ تک بھی اپنی بے سروپا تقریروں اور امتیازی فیصلوں سے سیاسی جماعت کا سربراہ لگنے لگتا ہے اور اسکا یہ حال کہ اسکے جوڈیشل ایکٹو ازم یا سوموٹو ایکشن تک سب فوٹو سیشن ہے ، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں عدالتیں اپنے در پہ آنے والوں کو دھتکار کر نئی تاریخ پر انصاف مانگنے کاحکم نامہ جاری کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتیں کہ سائل کتنے سفر کے بعد ، کن حالات میں ، کن خطرات اور حالات سے لڑتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے ، اندھا قانون اپنی دہلیز پر غریب کی فریاد نہیں سنتا مگر فوٹو سیشن کے لئے اسے یہ جچتا ہے کہ ہے کہ وہ خود چل کر جائے اور اسپتالوں اور سکولوں کو چیک کرے، سرکار کے بڑے بڑے دفترو ں سے لے کر سیاستدانوں کے ڈیروں تک، اوپر سے لے کر نیچے تک سب دکھاوا ہی تو ہے، مگر بدنصیبی ۔۔۔۔کہ مرنے والا خود اس معاشرے کے ایک بڑے ضلع کا انتظامی سربراہ تھا ، اس بدنصیب کوگوجرانوالہ کے طاقتور اور عوامی نمائندگی کے دعوے داروں نے تو فوٹو سیشن کے بھی لائق نہیں سمجھا ، ڈی سی کاباپ فوت ہوا ہوتا تو اراکین اسمبلی لائین میں لگ کر سہیل ٹیپو سے افسوس کے لئے آتے۔۔۔افسوس ۔۔۔۔سہیل ٹیپو اگر قتل نہیں کیا گیا تو اسکی خودکشی بھی ہم سب کے مردہ ہونے کا ثبوت ہے ،گویا اس نے خودکشی ہی نہیں کی، ہم سب بے ضمیروں ، بے حسوں کو مار کے چلا گیاہے کیونکہ اس معاشرے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں توہم سب مردے ہی نظر آرہے ہیں ،وہ مردے جو ایک دوسرے کی لاشوں کو بھی نہیں چھوڑ رہے انہیں بری طرح نوچ رہے ہیں ، بھنبھوڑ رہے ہیں ۔ڈی سی کا دونوں ہاتھ بندھا لاشہ لٹک رہا ہے اور بے بسی سے ۔۔لکھنے والوں،این جی اوز کے نمائندوں انسانی حقوق کی تنظیموں ، سیاست کے کھلاڑیوں اور حکومت میں بیٹھے جعلی چارہ گروں اور’’ جمہوری‘‘ شہزادوں جن میں اس ایک ساتھ موت والے دن بھی اسکی ملاقات بھی طے تھی سوال کر رہاہے کہ مجھے صرف اتنا تو بتا دو کہ میرا لہو کس کے سر ہے۔۔؟ کیامیں اس قابل بھی نہ تھا کہ اہل گوجرانوالہ میری دعا کے لئے بھی نہ آتے۔۔؟کئی دن سے میرے دوست مجھے چپ کراتے ہیں نہ لکھنے دیتے نہ بولنے دیتے ہیں ،مگر مجھے لگتا ہے کہ میں چپ رہوں گا تو گھٹ گھٹ کے مرجاؤں گا، میں نے شادیوں اور جنازوں کی ہزاروں تصویریں بنائی ہیں مگرڈی سی سہیل ٹیپو جیسا بدنصیب نہیں دیکھا وہ اتنا بدقسمت تھاکہ اسکے مرنے پر بڑے اور نامور لوگوں نے دعا کی تقریب میں فوٹو سیشن کے لئے بھی آنا گوارا نہیں کیا، ملاوٹ ، دکھاوے اور ظلم کے معاشرے میں دن رات چپ کا درس والے دوستومجھے لگتا ہے کسی دن میں بھی اس بے حسی کے پھند ے سے جھول جاؤں گا اور مجھے یقین ہے تم سب میں سے آدھے دوست میرے جنازے کو کندھا دینے تک نہیں پہنچ سکو گے ۔

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 66976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.