مسلمانوں کے اندر جو تصوف یا احسان یا تزکیہ کی روایت ہے
اگر اس کو کچھ رسومات کا مجموعہ کہا جائے تو یہ دوسرے مذاہب میں بھی پائی
جاتی ہیں، اگر اس کو مکشوفات و واردات قلبی کا مجموعہ کہا جائے تو اس کی
مثل بھی دوسرے مذاہب میں وافر مل جائیں گی، اگر اس کو کچھ معارف کا مجموعہ
کہا جائے تو اس کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ دوسروں میں مل جائے گا جیسے یہ مباحث
کہ اشیاء کی حقیقت کیا ہیں، انسان کیا ہے، روح کیا ہے، خالق و مخلوق کے
تعلق کی نوعیت کیا ہے وغیرہ، اسی طرح سب مذاہب تزکیہ نفس اور روح کی
بالیدگی پر زور دیتے ہیں طریق مختلف ہیں۔
لیکن اگر تصوف کو وصول الی اللہ کا راستہ بواسطہءِ رسول اللہﷺ کہا جائے تو
پھر یہ صرف اسلام کے حصہ ہے اور اس میں کسی سے کوئی مماثلت نہیں ہو سکتی
اور نہ ہے۔ بس یہی وہ بنیاد ہے اور محور ہے کہ جس کہ بنیاد پر تصوف کھڑا
ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ یا راستہ بہت سے احوال کا مبداء تو ہو سکتا
ہے مگر ہرگز قرب الٰہی تک نہیں پہنچا سکتا۔ قرب الٰہی کا صرف ایک ذٓریعہ ہے
اور وہ رسول اللہﷺ کی اتباع۔ بس۔
کشف و خرق عادت امور اور نفس کے تزکیہ کی مباحث اور اسرار و رموز کی
فلسفیانہ مباحث یہ سب غیر مسلموں میں بھی وافر ملتی ہیں۔ ہندووں کے اندر
وید ان مباحث سے بھرے پڑے ہیں اسی لیے تو اورنگزیب عالمگیر کا بھائی
داراالشکوہ ان ویدوں کی طرف اتنا مائل ہوا، اسی طرح یہودیوں کے اندر قبالہ
کی روایت ہے، عیسائیوں کے اندر رہبانیت کی روایت موجود ہے یا نو افلاطونی
فلسفہ ہی پڑھ لیں۔ کیونکہ ہر مذہب اگر صرف قوانین اور پابندیوں کا مجموعہ
ہو تو انسانی فطرت ہے کہ وہ پابندیوں سے تنگ پڑھ جاتی ہے اور صرف اطاعت کے
اصول پر کوئی بھی مذہبی روایت لوگوں کے باطن میں نفوذ نہیں کر سکتی۔ اس لیے
ہر مذہب کے اندر اور ایک روایت بھی ہوتی ہے۔ جو خدا سے اپنا تعلق محبت کی
بنا پر بھی قائم کرتے ہیں۔ جو کہ ہر مذہب کی اصل جازبیت ہوتی ہے۔ اسی لیے
ہمیں تصوف یا احسان سے ملتی جلتی مماثلت ہر مذہب یا نظریہ کے اندر ضرور
ملتا ہے اور یہ بالکل فطری ہے۔
لیکن مسلمان جس کو تصوف یا احسان کہتے ہیں اس میں احوال مواجید کو صرف اسی
وقت سند جواز مل سکتی ہے جب اس کی اصل قرآن و سنت کے چشمے سے پھوٹتی ہو۔ ہر
کشف، الہام، القاء، خواب یا حال کر رد کرتے ہیں اگر وہ قرآن و سنت کی
تعلیمات کے موافق نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ یہ احوال ایک سالک پر کم یا زیادہ
وارد ہو سکتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی حجت نہیں۔ اہل تصوف کا اس بات پر
اجماع ہے کہ سوائے اللہ کے رسولﷺ کے کسی کا بھی کشف و الہام حجت نہیں چاہے
وہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو۔ سوائے اللہ کے نبی کے کوئ معصوم نہیں سب سے
غلطی کا امکان باقی رہے گا۔ ان کے تعلق باللہ میں محبت کی شدت بھی پائی
جاتی ہے مگر ایک لحظہ بھی اس غافل نہیں ہوتے کہ وہ آقا ہے اور ہم بندے ہیں۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
من لم يقرأ القرآن ويكتب الحديث لا يقتدى بہ في ھذا الشان لان علمنا مقيد
بالكتاب والسنۃ.
’’جس نے قرآن پڑھا، نہ حدیث لکھی، وہ اس (تصوف) کے باب میں لائقِ اقتدا
نہیں ہے کیوں کہ ہمارا علم کتاب و سنت کا پابند ہے۔‘‘
سنت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں:
الطرق كلھا مسدودۃ عن الخلق الا من اقتفى اثر الرسول صلى اللہ عليہ وسلم،
واتبع سنتہ، ولزم طريقتہ، فان طرق الخيرات كلھا مفتوحۃ عليہ.
’’مخلوق پر تمام راستے مسدود ہیں سوائے اس کے جس نے پیغمبر اکرم ﷺ کے نقوش
قدم کی پیروی کی، آپؐ کی سنت کا اتباع کیا اور آپؐ کے طریقے کو لازم پکڑا
تو اس کے لیے بھلائیوں کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں ۔ ‘‘
حضرت مجدد الف ثانی مکتوب ۴۱ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
”واضح ہو کہ علومِ صوفیاء علومِ احوال ہیں اور احوال، نتیجہ وثمرہ اعمال کا
ہیں۔ پس علوم احوال اُسی کے لیے مسلم ہیں جس نے اعمال کو درست کیا ہو اور
پورا پورا حق اعمال کا ادا کیا ہو اور صحتِ اعمال اسی وقت ہوسکتی ہے کہ
اعمال کو جانے اور ان کا علم حاصل کرے اور کیفیتِ اعمال کو سیکھے اور علم
شریعت ہے کہ نماز وروزہ تمام فرائض ومعاملات نکاح وطلاق وبیوع وجمیع امور
لازمہ کا علم اس سے حاصل ہوتا ہے اور یہ علم کسبی ہے سیکھنے سے حاصل ہوتا
ہے، کسی کو اس علم کے حاصل کیے بغیر چارہ نہیں۔“
حضرت مجدد اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ شریعت اور طریقت میں کوئی ٹکراؤ نہیں
ہے؛ بلکہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؛ چناں چہ مثال دیتے ہوئے فرماتے
ہیں ”زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل سے بھی وسوسہٴ کذب دور کرنا
طریقت وحقیقت ہے۔ یعنی اگر یہ نفی بہ تکلف ہوتو شریعت ہے اور اگر بے تکلف
میسر ہو تو حقیقت۔
پس تصوف کی اصل یعنی اتباع قرآن و سنت کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جا سکتی
جبکہ احوال و توابع میں مما ثلت ممکن ہے۔ مگر یہ مماثلت بھی محض صورت میں
ہے حقیقت میں نہیں۔ یہ اسی طرح ہے کہ جسیے استدراج وکرامت میں فرق ہے کہ
صورتا تو ایک جیسے ہیں مگر حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ |