سوال : پروفیسر انوار احمدزئی صاحب، گذشتہ دنوں بورڈ کے
زیراہتمام امتحانات ہوئے، جس میں بجلی کی بدترین بندش رہی اور یہ سلسلہ
تاحال جاری ہے ،اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
پروفیسر انواراحمد زئی: طالبعلم ساراسال پڑھنے کے بعدتعلیمی سال کے اختتام
پرامتحان کے مرحلے سے گذر تاہیں،دوران امتحان بجلی کی بندش جو کمرہ امتحان
میں ہوتی ہے اس سے طلبہ شدید متاثر ہوتے ہیں۔نویں و دسویں کے حالیہ
امتحانات میں بچوں کے سینٹرز میں بجلی کی طویل بندش رہی جس سے طلبہ کو کمرہ
امتحان میں بہت تکلیف کا سامنا کرناپڑا۔ بجلی کی بندش تو ویسے بھی نہیں
ہونی چاہئے تاہم اس بندش کی وجوہات کی طرف بڑھنے کے بجائے یہ کہوں گاکہ بچے
طلبہ ملک کا مستقبل ہوتے ہیں۔شہر قائد میں میٹرک بورڈ کے زیراہتمام
امتحانات میں لاکھوں بچے شریک ہوتے ہیں۔ ان دنوں جبکہ موسم گرم ہے اور بجلی
کی بندش عروج پر رہی جس سے کمرہ امتحان میں موجود طلبہ و طالبات کے جذبات و
احساسات ناقابل بیان ہوتے ہیں۔ صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے حکام کو چاہئے
کہ دوران امتحان کم از کم تین گھنٹوں تک کیلئے کسی بھی طرح کی لوٖڈ شیڈنگ
نہیں ہونی چاہئے۔
سوال :کمرہ امتحان میں بجلی کی عدم دستیابی سے طلبہ پر کیا اثرات مرتب
ہیوتے ہیں؟
پروفیسر انوار احمد زئی: دیکھیں پاکستان کی مجموعی آبادی میں سے نصف سے
زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔طلبہ و طالبات 14سے 15کی عمر میں میٹرک پاس
کرلیتے ہیں۔نوجوان نسل حساس تر ہوتی ہے۔ معاشرے کی صورتحال سب ہی کے سامنے
ہے، اس صورتحال میں بھی جب طالبعلم جب کمرہ امتحان میں بیٹھتے ہیں اور اگر
بجلی نہیں ہوتی تو اس کے منفی اثرات طلبہ پر پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا
کہ سارا سال پڑھنے کے بعد بچے کمرہ امتحان میں وارد وہوتے ہیں اور انہیں
ابتداء میں ہی بجلی اور پانی کی بندش نظر آجاتی ہے جس طلبہ پر منفی اثرات
مرتب ہوتے ہیں۔ یہ منفی اثرات پورے معاشرے کیلئے کسی طور پر درست نہیں ہے۔
سوال : ملک میں آغاخان بورڈ بھی تعلیمی خدمات سرانجام دے رہاہے ،انٹر بورڈ
کی موجودگی میں نئے بورڈز پر آپ کیا کہیں گے؟
پروفیسر انوار احمد زئی: شہر قائد میں مجموعی طور پر 5 لکاکھ سے زائد اطلبہ
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوئے ہیں۔ مجوعی طور پر وطن عزیز میں جن میں سے
26بورڈ بی آئی ایس سی اور ایک بی آئی ای ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے خصوصی
توجہ دیتے ہوئے 2005میں آغاخان بورڈ قائم کیا، اس وقت یہ گمان تھا کہ اس
بورڈ کے اثرات جلد ہی مرتب ہونگے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت بھی آغاخان کے
زیر تسلط 360جبکہ سندھ بورڈ کے زیر تسلط اداروں کی تعداد 6ہزا سے زائد ہے۔
دونوں کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ آغاخان بورڈ
معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں کرسکاجس کی توقع تھی۔
سوال : پروفیسر صاحب ،دینی مدارس میں بھی کثیر طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں،
ان کے امتحانی مراحل و بورڈز کے معاملات پر آپ کیا کہیں گے؟
پروفسیر انوار احمد زئی: دینی مدارس میں 32لاکھ سے زائد طلبہ تعلیم حاصل
کرتے ہیں۔ شعبہ مدارس کے تعلیمی نظام کو قطعی نظرانداز نہیں کیا جاسکتاہے ۔
وہاں دین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دینی مدارس کی اک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ
وہاں پر طلبہ سے کسی بھی نوعیت کی فیس نہیں لی جاتی ،جس سے والدین کو
تعلیمی اخراجات کا سامنا نہیں کرناپڑتا۔ مدارس میں امتحانات کیلئے وفاق کے
زیر اہتمام وفاق المدارس قائم ہے جو کہ ہر سال امتحانات لیتا ہے۔ ملک میں
شرخ خواندگی کی اضافے میں دینی مدارس کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان میں شرخ خواندگی کی موجودہ شرخ 56فیصد ہے اور اس میں ان دینی مدارس
کا نمایاں کردار قابل تعریف ہے۔
سوال : ملک میں اس وقت مجموعی طورپر کتنے نظام تعلیم ہیں، معاشرے میں اس
کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
پروفیسر انوار احمد زئی: کسی بھی ملک میں نظام تعلیم ایک ہی ہونا چاہئے ،
اسی نقطے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہوں گا کہ ہمارے ملک میں گوکہ اس وقت چار
نظام تعلیم ہیں جو کہ قطعی مناسب نہیں ،میں سمجھتا ہوں کہ نظام تعلیم ایک
ہی ہونا چاہئے۔دینی مدارس، سرکاری و غیر سرکاری اور اے و او لیول ذریعہ
تعلیم ہیں۔ان کا بھی جائزہ لیا جائے تو ان کی مزید اقسام بھی سامنے آتی
ہیں۔ جبکہ ملک کے دستور کی شق نمبر 25Aمیں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ
شہریوں کی مفت تعلیم کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اس پر کوئی عملدرآمد نہیں
ہوا اس کے ساتھ ہی تعلیمی ایکٹ 2013پر بھی کوئی عمل ہواہے۔ ملک کی غریب
عوام اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجتے ہیں ،کم اخراجات کیلئے مدارس
کی جانب بھی بھیج دیتے ہیں۔ دوسری جانب صاحب حیثیت لوگ اپنے بچوں کو غیر
سرکاری اداروں میں بھیج دیتے ہیں۔ جہاں انگریزی و اردو کے معاملات بھی
درپیش ہوتے ہیں۔
سوال : آپ مختلف اداروں سے وابستہ رہے ہیں ،تعلیم کی اس صورتحال پر آپ کیا
کہیں گے؟
پروفیسر انوار احمد زئی : میرے خیال میں تعلیمی انقلاب ، تعلیم مسائل کا
واحد حل ہے۔ ماہر تعلیم کو ہی مکمل تعلیمی پالیسیاں بنانے کی ذمہ داری دی
جانی چاہئے ۔ محکمہ تعلیم ہو یا وزیر تعلیم ،حکومت کو چاہئے کہ پیشہ ور
ماہر تعلیم کوان محکموں میں تعینات کیا جائے ۔ وہ لوگ بہتر انداز میں نہ
صرف ملک کے اندر شعبہ تعلیم میں خدمات سرانجام دے سکتے ہیں بلکہ مختلف
اندرونی و بیرونی مسائل کو بھی حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک کو مکمل
طور تعلیم یافتہ بنانے کیلئے اور جدید ترقی و اہداف کے حصول کیلئے یہ ازخد
ضروری ہے کہ شعبہ تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے اور پیشہ ور ماہر تعلیم سے
اس ضمن میں خدمات لی جائیں۔
سوال : تعلیمی اداروں میں لائبریریاں ہوتی ہیں، تعلیمی میدان میں ان کا
کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
پروفیسر انوار احمد زئی: لائبریری کا ذکر اور پھر اسی حوالے سے آپ نے ایک
دکھی سوال کیا ہے۔ لائبریری کسی بھی تعلیمی ادارے میں نہایت اہمیت کی ہوتی
ہے۔شہر میں بھی اس کا وجود ہوتاہے ، شہر قائد میں تو اب متعدد لائبریریاں
موجود ہیں ۔کتب بینی کا گوکہ اب شوق بہت کم ہوگیا ہے اسی وجہ سے لائبریریوں
کے بھی حال ناقابل بیان ہے۔کم تعداد لوگوں کی ایسی ہے جنہوں نے کتب بینی کے
شوق کیلئے اپنے گھروں کتاب گھر بنائے ہوئے ہیں۔ لائبریریوں کی اس حالت کو
بہتر بنانے اشد ضرورت ہے۔میری لئے لائبریری کی بہت اہمیت ہے ۔ سابقہ اداروں
میں دوران ذمہ داری لائبریری ڈے منانے کا اہتمام کیا ۔ ہر سال 21فروری کو
کالجوں میں لائبریری ڈے منایا جاتاہے۔ اس دن کو منانے کے ساتھ ہی اس شعبہ
لائبریری کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہئے۔ذاتی طورپر اب بھی روزانہ رات کو
12سے 2بجے تک اپنے گھر کی لائبریری میں مطالعہ کرتا ہوں۔
سوال : پروفیسر انوار احمد زئی صاحب طلبہ کو کیا پیغام دیں گے؟
پروفیسر انواراحمد زئی : میری شعبہ تعلیم سے وابستگی برسوں سے رہی ہے ۔
انٹر و میٹرک بورڈ کی ذمہ داریاں نبھائیں اس کے ساتھ ہی میرپورخاص میں بھی
بورڈ قائم کیا ۔ ان دنوں نارتھ ناظم آباد میں ڈاکٹر ضیاء الدین انسٹی ٹیوٹ
اسکول و کالج میں ذمہ داریاں نبھا رہا ہوں۔ میرا پیغام ہے کہ اپنے مطالعے
کو بڑھائیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ |