ثقافتی تغیرات اور میڈیا کے اثرات

ثقافت:
تعارف:
تہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم و رواج اور طور طریقے جو ہماری زندگی پر حکم فرما ہیں۔ تہذیب و ثقافت یعنی ہمارا ایمان و عقیدہ اور وہ تمام عقائد و نظریات جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں شامل ہیں۔ہم تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔تہذیب وثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکیں گی اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔
پس منظر:
ثقافت کے حصے:
ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہر و آشکار ہیں اور نگاہیں انہیں دیکھ سکتی ہیں۔ ان امور کا قوم کے مستقبل اور تقدیر میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ امور قوم کی اہم منصوبہ بندیوں میں موثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس کیسا ہو، کیسے پہنا جائے اور بدن ڈھانکنے کا کون سا انداز نمونہ عمل قرار دیا جائے؟ یہ چیزیں تہذیب کے ظاہر و آشکار امور میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں معماری کا انداز کیا ہے؟ گھر کس طرح بنائے جاتے ہیں، رہن سہن کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب معاشرے کی ظاہری ثقافت کا آئینہ ہے۔عوامی ثقافت کا دوسرا حصہ جو پہلے حصے کی ہی مانند ایک قوم کی تقدیر طے کرنے میں موثر ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فورا ظاہر ہو جاتے ہیں اور انہیں بآسانی محسوس بھی کیا جاتا ہے یعنی یہ ثقافتی امور خود تو نمایاں اور واضح نہیں ہیں لیکن ان کے اثرات معاشرے کی ترقی اور اس کی تقدیر کے تعین میں بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ عوامی ثقافت میں انسان دوستی، مرد میداں ہونا، خود غرضی اور آرام طلبی سے دور ہونا، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینا وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
زوالِ ثقافت:
دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا جس کی ثقافت غالب رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کا غلبہ بہت ممکن ہے کہ سیاسی، اقتصادی، اور فوجی غلبے کی مانند ہمہ گیر برتری کا پیش خیمہ ہو۔
میڈیا کے اثرات:
میڈیا نے ثقافت میں خاطر خواہ طور پراس حد تک تبدیلیاں اور انحطاط پیداکردیاہے کہ دینا کی ہر تہذیب ااور ہرمعاشرے میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوگیا کہ سنہری ثقافتوں کو دوردورہ ختم ہوکررہ گیا ، لیکن بہرحٓال آج بھی کئی ایسی قومیں جواپنی روایتی ثقافتوں کے نام سے آج بھی جانی جاتی ہیْں، ثقافتوں میں تبدیلیوں کی سب سے مربوط وجہ میڈیا اور ماڈرنزم بن گیا ہے جسکی وجہ سے انسان نئے ادوار کا غلام بن کررہ گیا ہے، اسکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں تک تبدیل ہوکررہ چکی ہیں،۔

ثقافتی عناصر:
ثقافتی عناصرجو میڈیاکی بھیٹ چڑھے ان سب کا تذکرہ کرنا ممکن تو نہیں مگر چند اہم مندرجہ ذیل ہیں۔

زبان:
ماضی میں انسان کی پہچان کا طریقہ زبان کو سمجھا جاتا تھا، ہرانسان ،قوم غرض کہ ہر مخلوق ا پنی زبان کی وجہ سے منفرد حیثیت و مقام رکھتے تھے لیکن جب سے میڈیا نے انسانوں کی سوچوں پر غلبہ پایا اسی دن سے زبانوں کے مزاج میں اس قدرتبدیلی پیداہوئی کہ آج قومیں اپنی مادری زبان کو چھپانے میں خوشی محسوس کرتی ہیں یہی وہ واحد وجہ بنی ہماری پیاری مادری زبان اردو کے زوال کی۔ آّج ہم غیرملکی زبانیں اور خصوصآ انگریزی بولنے میں عزت اور اسٹیٹس سمجھتے ہیں، یہ سب سے اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے زبانوں کا اختراع ہوا اور ثقافتی پہچان کی اہمیت لوگ بھول گئے ہیں۔
روایات:
میڈیا نے روایت و تہذیبوں میں اس قدر پھٹکی ڈال دی ہے کہ کل تک جس معاشرے میں ماں باپ ، ضعیفوں کے سامنے آنکھ اٹھانا کبیرہ گناہوں کی مانند سمجھاجاتا تھا آج انہی بوڑھوں کو کسی خاطر میں نہیں رکھاجاتا کیونکہ ثقافت میں اب اولڈ ہوم نامی گھر بھی غیرملکی ثقافتوں سے اخذکرلیاگیاہے۔
لباس:
ماضی کی پاکستانی نیوز اینکرز سر پر دوپٹہ زیب تن کیئے خبرنامے پڑھے کرتی تھیں مگر افسوس کہ آج دوپٹے کی غریبی کی نشانی سمجھا جاتا ہے ، یہ سب میڈیا اور مغربی اثرات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ آج ایک عام گھرانے کی خاتون دوپٹے کو سر کی زینت بنانے میں خود کوحقیر سمجھتی ہے،، مشرق کی عورت دوپٹے کو اتارنے میں فخر محسوس کرتی ہے مگر وہی عورت مسلم عورت مغرب میں رہ کر حجاب کے حقعق کیلیئے لڑتی ہے، کیا مزاحقہ ہے یہ سب میڈیا کی بدولت ہوا ہے کہ لباس کا رنگ ڈھنگ فیشن شو سے ثقافت میں اپنایاگیاہے۔
رہن سہن:
روایتی رہن سہن پرخلوص اور قدرے پرسکون ہواکرتا تھا کہ زمین پر دسترخوان بچھا کر تمام فردِ خانہ ایک ہی صفت میں کھانا کھاتے تھے مگرمیڈیا کے ذریعہ جو ماڈرن کھانے کی ڈائننگ ٹیبل کا فیشن آیا یوں معلوم ہوتا ہے کہ میز سب کو جمع کرنے کیلیئے نہیں سب کو دور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوٗئی۔ ٹی وی کی جگہ آج انٹرنیٹ اور ذاتی موبائل فونز نے لے لی ہے۔
کھانا پینا:
ہر چیز ردوبدل کا شکار ہوئی تو ظاہر ہے کہ کھانے کی تقدیر بھی ایسی بدلی کہ دیگر ثقافتوں کے کھانے آج ہماری زبان کے چٹکھاروں کیلیئے مفید ثابت ہونے لگے ہیں۔
حرفِ آخر:
میڈیا نے میکلوہن کی کہاوت تو ممکن کردی گلوبل ولیج بناکر لیکن ثقافتوں کی اس ردوبدل کی ایسی منفی کہانی کوجنم دیا کہ جس سے معاشرے زوال کی طرف گامزن ہورہے ہیں۔

HUMAIRA ASLAM
About the Author: HUMAIRA ASLAM Read More Articles by HUMAIRA ASLAM: 10 Articles with 14050 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.