اس وسیع وعریض کائنات کی وسعت انسانی عقل کو دنگ کیے ہوئے
ہے، جس کا حیرت انگیز توازن اور اس کے حوالے سے سامنے آنے والے حیرت انگیز
حقائق اس کے خالق کی عظمت کے سامنے ہمارا سر جھکا دیتے ہیں اور اس کے ساتھ
ہمارا سارا علم، عقل وشعور بھی سربہ سجود ہوجاتے ہیں۔ اس حیرتوں سے بھری
کائنات کا سب سے حیران کُن حصہ یہ کرہء ارض ہے جس پر زندگی سانس لیتی ہے۔
جی ہاں، یہ زمین جس پر ہم بستے ہیں۔
ہماری زمین کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ انسان اس زمین پر اس کے باسیوں میں سے
سب سے نیا ہے۔ یہاں فلک بوس پہاڑ انسان کی آمد سے بہت پہلے سے شان کے ساتھ
سر اٹھائے کھڑے ہیں، دریا اس دھرتی پر ابن آدم کے وجود میں آنے سے ہزاروں
سال پہلے سے گنگنا رہے ہیں، سرسبز گھنے جنگلات کی عمر بھی ہم سے کہیں قدیم
ہے، پھولوں سے مہکتی وادیاں بھی عمر میں ہم سے بہت بڑی ہیں، اور جنگلوں
سمیت اس دنیا کے نشیب وفراز میں زندگی کرتے جانور بھی یہاں ہم سے بہت پہلے
سے بس رہے تھے۔ ہم انسانوں نے آکر دھرتی پر ایسا حق جتایا کہ یہاں کے ان
پرانے باسیوں کا جینا محال ہوگیا۔ پہاڑ کاٹ ڈالے گئے، ان پر لگے درختوں کا
قتل عام کیا گیا، دریاؤں کا پاکیزہ اور چاندی سا پانی آلودہ کردیا گیا، ہرے
بھرے جنگلات چٹیل میدان بنادیے گئے، گُل پوش وادیاں گارے، سیمنٹ اور اینٹوں
کی بے رنگ بستیوں میں تبدیل ہوگئیں اور جانوروں کا وہ حال کیا گیا کہ ان
میں سے کتنے ہی اپنا وجود کھو بیٹھے ہیں اور لاتعداد کی نسلیں معدومیت کے
خطرے سے دوچار ہیں۔
بہ طور مسلمان تو ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ قدرت کے یہ تمام مظاہر ہمارے
لیے حُسن اور دل چسپی ہی کا پہلو نہیں رکھتے، بل کہ ان کا وجود دنیا میں
انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، کیوں کہ اس کائنات کے بنانے والے نے ایک
ذرہ بھی بلاضرورت تخلیق نہیں کیا، یہاں جو کچھ بھی ہے وہ رب العالمین کی
شاہ کار مخلوق انسان کی زندگی کے لیے مفید اور ضروری ہے۔ سائنس بھی اس
نتیجے پر پہنچی ہے کہ مختلف قدرتی مظاہر اور مچھر مکھی سے لے کر بڑے بڑے
جانوروں تک مختلف مخلوقات کس طرح اس زمین کا وجود برقرار رکھنے اور اس میں
ہماری زندگی کو محفوظ اور سہل بنانے کے لیے ضروری ہے۔
یہ نکتہ سائنس کی سمجھ میں تو ایک مدت پہلے آگیا، لیکن ترقی، سرمایہ بڑھانے
ہوس اور ذاتی مفادات کی روش سب کچھ جاننے کے باوجود ان جان بنی ہوئی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ترقی کی خواہش نہ ہوتی تو سائنس سے تہذیب تک انسان کے
پاس کچھ نہ ہوتا، اور اس میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ سرمائے کا پھیلاؤ
ترقی کی راہیں کھولتا ہے، لیکن جب ترقی کی خواہش اور سرمائے کے حصول کی لگن
انسانیت کے مفاد اور دیگر اعلیٰ اقدار سے انحراف کی راہ پر گام زن ہوجائیں
تو ان کی منزل تباہی قرار پاتی ہے۔ سو ہم اسی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
دنیا کو اسی تباہی کے سفر سے روکنے کی خاطر اس کے باسیوں میں شعور اجاگر
کرنے کے لیے ہر سال 22 اپریل کو یوم ارض منایا جاتا ہے، جس کا مقصد فطری
مظاہر کی حفاظت اور ماحولیاتی تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
یومِ ارض یا زمین کے دن (Earth Day) کے موقع پر دنیا بھر میں ماحولیاتی
تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لیے تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ دن پہلی بار
1970 میں منایا گیا تھا، اور اب ہر سال 192 سے زاید ممالک میں اسے منایا
جاتا ہے۔
1969 میں، سان فرانسسکو میں منعقدہ یونیسکو کانفرنس میں، امن کا پرچار کرنے
والے جان مک کونل نے زمین کے احترام اور امن کا تصور اجاگر کرنے کی غرض سے
ایک دن منانے کا خیال پیش کیا اور 21 مارچ 1970 (شمالی ہمپشائر میں بہار کے
پہلے دن) کی تاریخ تجویز کی۔ بعد ازاں مک کونل نے اس تجویز کو ایک اعلان
نامے کی صورت میں تحریر کیا، جس پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اوتھاں نے
دستخط کیے۔
ایک ماہ بعد ریاست ہائے متحدہ کے سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے ماحولیاتی تعلیم
کی غرض سے ایک علیحدہ دہ یومِ ارض کی بنیاد رکھی، جو 22 اپریل 1970 کو
منایا گیا۔ چوں کہ 22 اپریل کو یومِ ارض منانے کا مرکزی نقطہ ریاست ہائے
متحدہ ہی تھا، لہٰذا پہلے یومِ ارض (1970) کی تقریبات کے قومی رابطہ کار
ڈینس ہائز نے یہ دن منانے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ 1990 میں اس
تنظیم کا دائرہ کار عالمی پیمانے پر پھیل گیا اور 141 ممالک میں اس دن کو
منانے کا اہتمام کیا گیا۔
یہ دن ہمارے ملک میں بھی منایا جائے گا، کچھ تقریبات ہوں گی، تقاریر ہوں گی،
دعوے اور وعوے ہوں، پھر یہ دن گزرتے ہی سب فراموش کردیا جائے گا، حالاں کہ
ہمیں اس دن کہی جانے اور سوچی جانے والی باتوں کو ہر روز یاد کرنے، دہرانے
اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ہمارا ملک
ماحولیاتی آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور ماحول کے حوالے سے دیگر سنگین مسائل
کا شکار ہے۔
میں اپنے شہر کراچی کی بات کروں تو یہاں کے رہنے والے تو اچھے ماحول کے لیے
ترسے ہوئے ہیں۔ ہم کراچی والوں کو سبزے کی جھلک دیکھنے کے لیے فارم ہاؤسز
جانا پڑتا ہے۔ مجھے پارکوں کو دیکھ کر، جن کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں،
لگتا ہے جیسے ہم درختوں، پھولوں اور گھاس کے بھی میوزیم بنارہے ہیں، فطرت
اور سبزے کو ہم نے خاص مقامات پر قید کرنے کا چلن اپنا لیا ہے، تو چلیے، ان
درختوں اور پھولوں کو آزاد کریں، اپنی گلیوں محلوں کو درختوں کا سایہ اور
پھولوں کی خوشبو دیں، ہر تہوار پر ہر موقع پر درخت لگانے کو اپنا شعار
بنالیں، شادی، بچے کی پیدائش، سال گرہ، کسی پیارے کی برسی، ہر خوشی ہر غم
پر درخت لگانے کو خوشی اور یاد منانے کا ایک ذریعہ بنا لیں، اسے قومی عادت
اور رسم کی صورت دے لیں، تو کچھ ہی سالوں میں ہمارے شہروں سمیت پورا ملک
شاداب ہوجائے گا، مہکنے لگے گا۔
|