کسی بھی انسان سے پوچھ کر دیکھیں ، آپ کے کیا خواب ہیں
تو ہر کوئی کسی نہ کسی قسم کی ایک لسٹ رکھتا ہے مگر بیشتر انسانوں کے خواب
صرف خواب ہی کیوں رہ جاتے ہیں ۔اپنے حقیر سے مطائعہ کی بنیاد پر میں نے اس
کی چند بنیادی وجوہات محسوس کی ۔یہ بنیادی وجوہات مجھے بہت سی کتب میں ایک
سی معلوم ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سچائی کبھی نہیں بدلتی ۔ ہر دور میں ہر
علاقے میں کامیابی اور خوابوں تک رسائی کے اصول یکساں ہی رہے ہیں۔ڈیل
کارنیگی ہو یا وائن ڈائر۔جم رون ہو یا ڈیوڈ ہاکن ہر کوئی ہی محنت کرنے اور
مکمل دھیان دے کر خوابوں کی تعبیر کے لیے دن رات ایک کر دینے کی بات کرتا
ہے۔ لیکن ایسا انسان جو آپ کے سامنے ایک مزدور سے لوگوں کے لیے رہنما بن
گیا ہو ،اس کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے ہر کوئی تیار ہو جاتا ہے۔ ہمارے
ہاں ایسے ہی ایک انسان کی کتاب کا جب میں نے مطالعہ کیا تو میرا جی چاہا کہ
آپ کو بھی اس میں شریک کر لیا جائے ممکن ہے کہ کسی کو فائدہ ہو جائے ۔
قیصر عباس کو آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہوں گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک
سائیکالوجسٹ ہوں مگر میں دماغ کی نہیں بلکہ بہانوں کی سرجری کرتا ہوں ۔ ان
بہانوں کی جو لوگوں کو آگے نہیں جانے دیتے ۔ سب سے پہلا بہانہ یہ ہوتا ہے
کہ میرے پاس تو ذرائع ہی نہیں ، جبکہ میں جب پڑھتا تھا تو جنگ اخبار کی
کینٹین میں کام کرتا تھا۔ دوسرا بہانہ جو سب سے بڑا سامنے لایا جاتا ہے
جسمانی کمزوری ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے آفس میں ایسی کام کرنے
والی خاتون بھی ہیں ،جن کے دونوں بازو نہیں ہیں ۔ جسمانی کمزوری اہمیت کی
حامل نہیں ہو تی۔ انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کے اور میرے بہانوں کی
سرجری کرتی ہیں ۔ جس کتاب کا تجزیہ آج میں آپ کو پیش کرنے جا رہی ہوں یہ
نہ صرف آپ کے خوابوں کے حصول میں مددگار ہو گی بلکہ آپ کو سوچنے پر بھی
مجبور کرئے گی کہ کہیں ہم ہمارے طے شدہ منصوبہ کو جان بوجھ کر پس پشت تو
نہیں ڈال رہے۔وہ کتاب ہے ۔
ٹِک ٹِک ڈالر
سننے میں آپ کو لگا ہو گا کہ یہ کتاب شاہد ڈالر کمانے سے متعلق ہے مگر اگر
آپ غور وفکر سے کام لیں تو واقعی آپ زندگی کی حقیقی دولت کے مالک بن سکتے
ہیں ۔ یہ کتاب نہ صرف وہ اصول بتاتی ہے جن سے آپ اپنے خوابوں تک رسائی
حاصل کر سکتے ہیں بلکہ یہ کتاب پڑھ کر آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم جیسا
ہی ایک عام پاکستانی ایک مزدور کا بیٹا اور ایک مزدور جب اس قدر اونچے مقام
تک پہنچ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ۔
کتاب کا تجزیہ شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو یہ کہنا چاہوں گی کہ بہترین
کتب کا مطالعہ کریں ، اگر کتاب کودرمیان سے پکڑ کر ہوا میں لہرائیں تو ایسے
لگتا ہے کہ کتاب کے بھی پر ہوتے ہیں ۔ اچھی کتابیں آپ کو یہی پر دے کر
آسمان کی اونچائی دے سکتی ہیں ۔ یہ میرے ایک استاد کا کہنا تھا۔
مصنف قیصر عباس نے یہاں خوابوں تک رسائی کے چودہ اصول پیش کیے ہیں ۔ان کو
اپنے طریقے سے بیان کروں گی ،مگر اصل بنیاد میں سوچ ان ہی کی رہے گی۔ یہ
کتاب قیصر عباس نے عام عوام کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کی وجہ سے
دنیا بھر میں ان کی پہچان بنی ہے ۔ دنیا بھر کے لوگوں نے انہیں سراہا ہے۔
اپنے کام میں بہتری لا کر آپ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے جو چودہ
اصول اس سلسلے میں بیان کیے کچھ یوں ہیں ۔
(TICK TICK DOLLAR)
(Think).1
(Ignite Future).2
(Commit 100 per).3
(Kick of Now).4
(Track).5
(Imbed Role Models).6
(Conquer Fear).7
(Kill Excuses).8
(Discipline yourself).9
(Over Deliver.10
(Leverage Success).11
(Live 100 per).12
(Amplify Execution).13
(Reinvent Daily).14
1۔ سوچیں اور بن جائیں ۔
آج دنیا میں بے شمار کتابیں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ملتیں ہیں کہ
انسان کی سوچ ہی وہ پہلی سیڑھی ہے جو انسان کو بلندی تک لے جانے کے لیے
اندھرے میں دیے کی سی روشنی فراہم کرتی ہے۔ انسان اس روشنی کے زیر اثر قدم
بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ ٹِک کا پہلا ٹی قیصر عباس نے سوچ سے منصوب کرتے ہوئے
،سوچنے کی دعوت دی ہے۔ وہ انسان جو چاند کو چھونے کی سوچ لے کر اپنی کوشش
کا آغاز کرتا ہے ، اسے چاند نہ بھی ملے تاروں تک ضرور رسائی پاتا ہے۔ جس
شخص کی سوچ ہی فقظ اچھی سائیکل لے لینے کی ہو وہ گاڑی تک کبھی نہیں پہنچے
گا۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہو گی کہ وہ گاڑی تک پہنچ ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس کی
سیدھی سادی وجہ یہ ہو گی کہ اس کی سوچ نے اسے محنت ہی سائیکل تک کرنے کے
قابل رکھا۔ ٹِک ٹِک ڈالر میں مائیکل اینجلو کی بات بیان کرتے ہوئے لکھا گیا
ہے کہ :
خطر ناک قابل افسوس ،بات یہ نہیں کہ ہم میں سے کوئی بہت اونچی منزل کو چن
لے اور اسے پا نہ سکے بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کوئی کانسی کا ٹکرا
منزل متعین کرئے اور اسے پا بھی لے۔
یہ اس لیے ہے کہ پا لینے کے بعد اکثر کوشش کو ترک کر دیا جاتا ہے۔ آپ کے
خوابوں کو تعبیر ملے گی یا نہیں یہ سوچنے سے پہلے یہ سوچیں کہ آپ سوچ کیا
رہے ہیں ۔ آپ کے خواب ہیں کیا۔ کہیں ایک خزانے کے پاس کھڑے ہو کر فقظ چند
سِکوں کی خواہش تو نہیں کر رہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو پھر سے سوچنے کی
ضرورت ہے۔رب کی ذات سے اپنی اوقات دیکھ کر نہیں بلکہ اس کی حیثیت دیکھ کر
مانگیں اور پھردیکھیں قدرت آپ کو کس طرح نوازتی ہے۔
2۔کل کرنا ہے سو آج کر۔
دوسرا اصول جو آپ کو ٹِک ٹِک ڈالر میں ملتا ہے ، وہ سوچ کے بعد آپ کے لیے
کامیابی کی ضمانت بنتا ہے ۔(Ignite future)
ہم لوگوں میں بیشتر لوگ سوچتے تو بہت بلندی کا ہیں لیکن فقط شیخ چلی کے
خواب ہی ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی سوچ عمل کی محتاج ہوتی ہے ۔ اگر آپ کچھ بھی
کرنا چاہیں تو فقط سوچوں تک محدود نہ کر دے ۔ قیصر عباس نے جب علم حاصل
کرنے کی سوچی تو اس نے اس کی ہر قیمت دینے کی ٹھانی بھی ۔ ایم ایس سی کرنے
کے بعد بھی اٹھارہ سو کی نوکری کرنے کے لیے تیار رہا ۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر
فقظ سوچنا کہ میں آسمان کو چھو لو گا۔ محض بے وقوفی ہو گی۔ سوچ کی روشنی
اندھرے کو دور کر سکتی ہے سوتے کو جاگنے کے لیے پانی کے چند چھینٹے دینا
بھی ضروری ہیں ۔ اس لیے کچھ بھی پانے کا سوچیں تو اس کے لیے محنت کرنے کو
ہر دم تیار رہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کامیابی اور ناکامی کچھ نہیں
ہوتی یہ تو ہمارے عمل کے نتیجے ہیں ۔ عمل بدلتا ہے تو ردعمل بدل ہی جاتا
ہے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہیں ہم اپنے غلط عمل کی بجائے اپنی قسمت کو تو الزام
نہیں دے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان خود
ہی ہوتا ہے۔
۔سو فیصد ارادہ۔ 3
ہم میں سے اکثر لوگ فیصلہ کرنے میں کمزوری دیکھاتے ہیں ۔یہی کمزوری ان کی
ناکامی کی وجہ بنتی ہے۔ ہر ایسی کتاب جو انسان کی کامیابی کی طرف رہنمائی
کرنے کی دعویٰ کرتی ہے کسی نہ کسی طرح اس چیز کی طرف ہی بلاتی ہے۔
) میں بھی مصنف کامیابی کے اصول بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سوفیصد ارادہ ہی
کامیابی کا ضامن ہے۔ Think and grow rich (
زندگی کی جنگ جیتے کے لیے محمد بن قاسم کی طرح اپنی تمام کشتیاں جلا کر
اپنے مقصد کے لیے طے شدہ منصوبہ پر عمل شروع کر دیں ۔ ایک ایسا انسان جو
بہت سے آپشن میں پھنسا رہتا ہے ۔اس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
۔آج میں جینا۔4
ایسے لوگ جو کل میں جیتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے خوابوں کو پورا نہیں کر پاتے
۔ ہر وہ انسان جو اپنے حال کو بہتر بنانے میں لگا ہو ،وہی اپنی محنت سے
دنیا کو بدل سکتا ہے۔ ہم اپنے ماضی کو بدل نہیں سکتے اور مستقبل کو دیکھ
نہیں سکتے ،ایسے میں حال میں رہ کر حال کو سنوارنا گویا عقلمندی ہے۔
اس سلسلے کی ایک عمدہ لکھی ہو کتاب ہیں ۔ حال میں رہنے والے ہی لوگوں نے
دنیا کو اپنے خوابوں کے مطابق ڈھالا۔(Power of now )
ماضی پر افسردہ رہنے اور سوچتے رہنے سے سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں
ہوتا۔ اس لیے لازم ہے کہ ماضی سے سبق لے اور حال میں جینا سیکھیں ۔ مستقبل
کے متعلق سچ یہ ہے کہ ایسے نوے فی صد اندیشے جن سے متعلق سوچ کر ہم پریشان
رہتے ہیں ۔ کبھی ہماری زندگی میں رونما ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے مستقبل کی فکر
کرنے کی بجائے اپنے عمل پر گہری نظر رکھیں ۔ آپ کا مستقبل ویسا ہی ہو گا
،جیسا آج آپ عمل کر رہے ہیں ۔
۔راستہ کے انتخاب ۔5
کسی بھی خواب کی تعبیر کے لیے لازمی ہے کہ آپ متعلقہ ٹریک پر ہی چلیں ۔
سوچیں ریل گاڑی کا انجن کیوں ہمیں ہوائی اڈہ پر نظر نہیں آتا ۔ کیوں کوئی
ہوائی جہاز ریلوے ٹریک پر نہیں ملتا ۔ زندگی اپنے خاموش نظام سے ہمیں غور
فکر کی دعوت دیتی ہے ۔ آپ نے جہاں جانا ہے ، اسی سمت کا سفر کریں ۔ استاد
بننے کے لیے آپ کسی جم میں نہیں جا سکتے بلکہ اس کے لیے تعلیمی اداروں کا
ہی رُخ کرنا ہو گا۔ ہاں یہ لازمی ہے کہ آپ کو بننا کیا ہے یہ پہلے طے کر
لیں ، اسی کے مطابق راستہ کا انتخاب کریں اور پھر یکسوئی سے محنت کرنا شروع
کر دیں ۔ ممکن ہے کہ راستہ دشوار ہو مگر اندھیر ا کتنا ہی ڈراونا کیوں نہ
ہو ،اس بات کی نوید خاموشی سے دیتا ہے کہ صبح ہو گی۔ مشکل کے بعد ہمشہ
آسانی ہی ہوتی ہے۔ وائن ڈائر جو ایک مشہور زمانہ رائٹر ہے کا کہنا ہے کہ
ہم میں سے اکثر لوگ کبھی کچھ نیا کرنے کی کوشش اس لیے نہیں کرتے کیونکہ
انہیں فیل ہو جانے یا پھر مشکلات ملنے کا ڈر ہوتا ہے۔ انسان کا بلندی پر
جانا اسی صورت ممکن ہے کہ وہ مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرئےاور کبھی ہمت
نہ ہارے۔
۔اپنے لیے نمونہ کا انتخاب کریں ۔6
ہر انسان جب کوئی خواب دیکھتا ہے تو اس کے پیش نظر کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔
مثلاً اگرکوئی اداکار بننا چاہتا ہے تو ایسے انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ
کسی اداکار کو رول ماڈل بنائے۔ ایسا اداکارجو کامیاب ہو ۔ درجہ بدرجہ اس کی
ترقی کی وجوہات کی پیروی کرئے تو وہ اپنا خواب ضرور پا لے گا۔ ہمارے ہاں
لوگ خواب کچھ اور دیکھتے ہیں عمل کچھ اور کرتے ہیں ۔ کہتے کچھ ہیں تو کرتے
کچھ۔
یہی وجہ ہے کہ آج ترقی و کامیابی کے معاملہ میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں ۔ اگر
کوئی شخص نیو ٹیکنالوجی میں ماہر ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس فیلڈ کے
ماہرین میں سے کسی کو اپنا رول ماڈل بنا لے اور پھر پوری طرح یکسو ہو کر اس
کی پیروی کرئے۔ اگر کوئی شخص رب تک رسائی چاہتا ہے اور رحانی سکون ہی اس کا
سب سے بڑا خواب ہے تو اس کے لیے نمونہ کوئی ٹیکنالوجی کا ماہر نہیں ہو
سکتا۔ اپنے لیے بہترین نمونہ کا انتخاب آپ خود کریں گئے۔
۔خوف پر غلبہ۔7
انسان کی ترقی اور خوابوں تک رسائی میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔وہ خوف ہی
ہے۔ انسان ہمیشہ خوف کی وجہ سے اپنے جذبات و احساسات کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں
۔ کبھی وہ نہیں کرتے جو کرنا چاہتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے میں کچھ بھی نہیں
لکھتی تھی،یہ سوچ کر کہ پڑھنے والے کہیں میرا مذاق نہ اڑائیں ۔ وقت کے ساتھ
میں نے اپنے خوف پر غلبہ پا لیا اور کچھ آرٹیکل لکھنے کے بعد اب میرے دل
میں یہ خیال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ لوگ کیا کہیں گئے یا کیا سوچیں گئے۔
قیصر عباس کا کہنا ہےکہ انہیں اپنی شکل و صورت کی بنا پر دوسروں سے ساتھ
بات کرتے اور تصاویر بنواتے ہوئے عجیب خوف محسوس ہوتا تھا ۔ مگر آج اپنے
خوف پر غلبہ پا کر انہیں دوسروں کے ساتھ تصاویر بنوا کر بہت اچھا لگتا ہے۔
اپنے ذہین سے یہ خوف نکال دیجیے کہ آپ ہار جائیں گئے۔ اگر آپ ایسا کر
پائے تو وہی ہو گا جو ایک کامیاب انسان کے ساتھ ہوتا ہے ۔آپ کو اپنے ہر
خواب کی تعبیر ضرور ملے گی۔
۔اپنے بہانوں کا مار ڈالیں ۔8
ہمارے ہاں لوگ خود ہی خود کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں ۔ سو میں سے نوے لوگ
یہی کہتے ہیں ،میری تو قسمت ہی ایسی ہے۔ میں تو ہوں ہی نالائق۔ اللہ تعالیٰ
نے تھوڑا اورخوبصورت بنا دیا ہوتا تو کیا جاتا۔ میں تھوڑا سا کھانا کھاتا
ہوں اور اتنا موٹا ہوں جبکہ میرے دوست بہت ذیادہ کھاتے ہیں ،انہیں تو اثر
ہی نہیں ہوتا۔ اگر میرے ماں باپ بھی امیر ہوتے تو میں بھی کچھ بن سکتا تھا۔
اگر مرنا ہی ہے تو پھر اتنی محنت کیوں کریں ؟
سچ تو یہ ہے کہ ہم سہل پسندی کے مارے ہوئے لوگ ہیں ۔ محنت کرنے سے کترانے
اور خوابوں کو سجانے میں اپنا سانی نہیں رکھتے ۔یہی وجہ ہے کہ شیخ چلی کی
طرح اپنے خوابوں کے ٹوکرے کو سر پر لیے پھرتے ہیں اور زندگی کے خاتمے پر وہ
ٹوکرہ دھڑام سے نیچے آ گرتا ہے۔ سارے خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور انکھیں بند ہو
جاتی ہیں۔
دنیا میں جن لوگوں نے بھی ترقی کی یا نام کمایا وہ قسمت کی کارستانی نہیں
بلکہ ان کی محنت کا صلہ تھا۔ ہمارا سب سے بڑا مسلہ یہی ہے کہ ہم خواب
دیکھنے کے بعد محنت کو ترجیح دینے کی بجائے ،بیٹھ کر دعا مانگنے لگتے ہیں ۔
دعا بھی رب انہی کی سنتا ہے جو محنت کرتے ہیں ۔ وہ ہر انسان کو نوازتا ہے
جو محنت کرئے ۔ خواہ وہ اس کا انکار کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔سٹیفن ہاکن
موجودہ صدی کا ایک بہترین سائنس دان جس نےنے اپنی کتاب مکمل کرنے کے بعد
آخر میں لکھا تھا کہ انسان کس قدر عجیب مخلوق ہے جس کی اگر ایک پلک بھی بچ
جائے تو وہ اپنا خواب پورا کر لیتا ہے۔ اس نے یہ اپنے بارے میں لکھا ۔ اس
نے مفلوج ہونے کے باوجود بہت کام کیا۔ ہم ٹھیک ٹھاک ہو کر اپنے خوابوں تک
رسائی حاصل کرنے کی بجائے مفلوج بن جاتے ہیں اور پھر کامیاب لوگوں کی
کامیابی کی وجہ ان کی قسمت کو قرار دے کر اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے لیتے
ہیں ۔
آج دنیا میں ایسے کڑوڑ پتی ہیں ،جن کے بچبن غربت میں گزرے ۔ ایسے ان پڑھ
ہیں ۔ جنہوں نے رسمی تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر علم کے حصول کی لگن کی وجہ
سے دنیا میں سکالر بن گئے ۔ ایسے مفلوج و معذور میں جو دنیا کی ترقی میں
ٹھیک ٹھاک لوگوں سے بھی کہیں ذیادہ اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ ہمارا کوئی
بہانہ بھی آج ہماری تسکین کا باعث نہیں بن سکتا۔ آج اگر خوابوں کی تعبیر
چاہیے تو ہمیں اپنے بہانوں کا قتل کرنا ہی ہو گا۔
۔نظم و ضبط کو زندگی بنائیں۔10
اگر دنیا کو دیکھیں تو ایک خاص ترتیب سے ہر شے ہوتی ہے۔ نظام قدرت خاص نظم
و ضبط کا اظہار کرتا محسوس ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کے عقل والوں نے اپنی زندگی
کو بھی نظم و ضبط کا عادی بنا لیا ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کا
مطالعہ کر کے دیکھیں آپ کو صاف طور پر پتہ چلے گا کہ وہ کس قدر منظم
تھا۔خواہ وہ کسی بھی علاقے کا ہو ،ہر کامیاب انسان کی زندگی میں نظم و ضبط
کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔عبدالکلام ہوں یا قائداعظم محنتی ہونے کے ساتھ
ساتھ نظم و ضبط کے عادی بھی تھے۔کوئی بھی انسان جو اپنے خوابوں کو حاصل
کرنا چاہتا ہے۔اپنے کام کو اچھےطریقے سے انجام دینا چاہتا ہے ۔اسے اپنے
منصوبوں کو حقیقت بنانے کے لیے نظم ضبط کی ضرورت پڑھتی ہے۔
کوئی بھی انسان جب کوئی خواب دیکھتا ہے تو یہ خواب مخصوص نظم و ضبط کا
تقاضا کرتا ہے ۔ خاص محنت و مشقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ ایک راستہ کے انتخاب
پر اکساتا ہے۔ ایک قیمت مانگتا ہے۔ جو لوگ اپنے دامن کو جھٹک دیتے ہیں وہ
تہی دامن ہی رہ جاتے ہیں ۔ اپنی ناکامی کی زمہ داری کسی نہ کسی پر ڈال کر
بہانے بازی سے پرسکون ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو
نظم و ضبط کو اختیار کرتے ہوئےاپنے خواب کی ہر قیمت دینے پرراضی ہو تے ہیں
۔اپنے ہر عمل کی زمہ داری خود لیتے ہیں اور خواب کے پورا ہونے تک جدوجہد
جاری رکھتے ہیں ۔
۔ضرورت سے ذیادہ دینا۔11
کسی بھی انسان کی چاہت یہ ہی ہوتی ہے کہ اسے اس کی محنت سے ذیادہ ہی پھل
ملے ۔ ایک عام ذہین یہی خیال کرتا ہے کہ جس قدر ہو فائدہ اُٹھایا جائے۔
لیکن اگر مطائعہ کیا جائے تو یہ ایک ابدی سچائی ہے کہ وہی انسان کامیاب و
کامران ہوئے ہیں جو دیتے ہوئے کچھ ذیادہ ہی دیتے ہیں ۔ وہ اپنے فائدہ سے
ذیادہ دوسروں کے فائدہ سے متعلق سوچتے ہیں ۔ دوسروں کا فائدہ ان کے فائدہ
کا باعث بن جاتا ہے ۔
قدرت کا قانون ہے کہ دینے والے کے ہاتھ خالی نہیں ہونے دیتا۔ آپ کے خواب
جتنی محنت کے متقاضی ہیں اس سے ذیادہ محنت کرنے کی ٹھان لیں ۔قدرت کبھی آپ
کو مایوس نہیں کرئے گی۔
۔سو فیصد جینا۔12
ہم میں سے اکثر لوگ زندگی گزار کر مر جاتے ہیں ۔انہیں جینا کیا ہوتا ہے پتہ
ہی نہیں چلتا۔ جو اپنے خوابوں کو پانا چاہتے ہیں ،ان کے لیے لازمی ہے کہ
کڑی محنت کریں ۔اپنی زندگی کے ہر لمحے کو دھیان میں رکھتے ہوئے منصوبہ بندی
کے تحت جینا ہی مقاصد کے حصول کا ضامن ہوتا ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے قدم ہی
کچھ سالوں میں ہمیں میلوں کا فاصلہ طے کرنے کے قابل بنا دیتے ہیں ۔ غیر
محسوس طریقے سے ہمارے عمل جیون کو بدل کر رکھ دیتے ہیں ۔ایسے میں ہر لمحے
کو جینے والا انسان ہی دیکھ پاتا ہے ۔ وقت گزارنے والے اکثر افسوس کرتے نظر
آتے ہیں ۔ ان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلا جانے کب بچےبڑے ہو
گئے اور ہم بوڑھے ہو گئے۔ پتہ اس لیے نہیں چلتا ،جب ہم زندگی جینے کا سوچتے
ہی نہیں ۔
سوچنا سمجھنا اور اپنے جیون سے بھر پور فائدہ اُٹھانا فقط ہمارے ہاتھ میں
ہے ۔ کوئی انسان ہاتھ پکڑ کر ندی کے پاس لے جا سکتا ہے مگر پانی پینے کی
زمہ داری فقط اپنی ہی ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ماضی اور مستقبل کوچھوڑ کر
فقط آج کو بہتر بنانے میں لگ جائیں ۔ اپنے ہر دن کو ایسے جینا شروع کریں
کہ اپنے آپ کو رات کو اطمینان سے کہہ سکیں ۔ آج میں نے اپنے حصے کا مکمل
جی لیا۔ کل اس سے بھی بہتر ہو گا۔ میں مذید محنت کروں گا۔
۔اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں۔13
بہت سے لوگ اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنے کی سوچتے ہیں اور محنت کرتے رہتے
ہیں ۔جو وہ کرنا چاہتے ہیں،وہ کرتے نہیں بلکہ اچھے وقت کا انتظار کرتے رہتے
ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے اچھا وقت کبھی نہیں آتا۔ ایک انسان جو کسی کی مدد
کرنا چاہتا ہے ۔ اگر وہ کڑوڑ پتی بننے کا انتظار کرتا رہے تو کبھی دوسرے کی
مددنہیں کر پائے گا۔ اگر کسی کے پاس بڑا بزنس شروع کرنے کا سرمایہ نہیں ہے
تو اسے چھوٹے سے کام سے شروعات کرنی چاہیے ۔ اگر کوئی بہت اعلی ٰ لکھاری
بننا چاہتا ہے تو چھوٹے چھوٹے مضامین سے ابتدا کر لینی چاہیے ۔ بجائے اس کے
کہ انتظار کرتا رہے۔ جب کوئی کام محنت سے شروع کر دیا جاتا ہے تو رب اس میں
برکت دیتا ہے۔
۔بہتری کی کوشش۔14
کسی بھی چیز کو مکمل سمجھ لینے سے نامکمل بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ دنیا
میں جو چیز ہمیشہ کے لیے ہے اور ہمیشہ رہے گی وہ رب کی ذات نے فقط تبدیلی
ہی بنائی ہے۔ ہر شے وقت کے ساتھ مذید بہتری کی متقاضی ہوتی ہے۔ جو اس تقاضا
سے نظریں چراتے ہیں وہ کبھی اپنے خوابوں کو پورا نہیں کر سکتے ۔ بہترین اور
کامیاب لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں ۔وہ اپنی ہر شے کو اور اپنے علم کو بہتر
سے بہتر بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہم کل تک جس کو
ٹھیک سمجھ رہے تھے وہ آنے والے کل میں غلط ثابت ہو جائے ۔ بہتر سے مذید
بہتر کا سفر ہی آج ہمیں آسانی سے مذید آسانی میں پہنچا رہا ہے۔
یہ ایسے اصول اور باتیں ہیں ، آپ کو بہت سی کتب میں ملتی ہیں ۔ہر وہ کتا ب
جو انسان کو اپنی ذات کی بہتری میں مدد دینے کا دعویٰ کرتی ہے۔ آپ کو ضرور
پڑھنی چاہیے۔ میں نے ٹِک ٹِک ڈالر کتاب کو لفظ بالفظ نہیں بیان کیا۔فقط جو
سمجھا اسے اپنے طور پر بیان کر دیا۔ آپ کو اسے خود پڑھنے کا وقت ملے تو
ضرور پڑھیں ۔ میرا یقین تو اس بات پر ہے کہ اگر کوئی ایک بات بھی آپ کو
عمل کی طرف آمادہ کرئے تو ایسی بات سے روشناس کرانے والی کتاب ہی بہترین
دوست ہوتی ہے۔ دنیا میں کتاب سے بہترین دوست کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
|