مٰیں ایک سپاہی تھا ۔۔۔۔۔

پاکستانی فوج پر بلا وجہ تنقید اور بجٹ کھانے کا پروپگنڈا کرنے سے پہلے ضرور اپنا اپنا احتساب بھی کریں کہ آپ نے اس ملک کے کیا کیا۔۔دنیا کی بہترین فوج کے خلاف منہ کھولنے سے پہلے ایک دفعہ اپنا محاسبہ ضرور کریں۔ اگر آج سکون کی نیند سو رہے ہیں تو اللہ کریم کے فضل و کرم کے بعددُنیا کی بہترین فوج کی بدولت ہی ہے۔ اگر چند اشرافیہ کو نیند نہیں آتی تو اپنا ذاتی مفاد وجہ ہو سکتاہے۔ محبت وطن طن کر سپاہی کی زندگی کا ایک بہترین نمونہ سپاہی مقبول حسین کی زندگی کو ضرور پڑھنا۔۔۔

جب سے ہوش سنبھالا ہے،بڑوں سے سنتے اور کتابوں میں پڑھتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی پاکستان کہتے تھے پھر وقت اور حالات، سیاستدانوں کی اپنے ملک اور اقتدار سے محبت میں مشرقی اور مغربی الفاظ سمٹ گئے اور صرف پاکستان رہ گیا۔سیاستدان الگ راگ الاپتے ہیں، مفاد پرست ٹولہ کچھ کہتا ہے، محب وطن کچھ کہتے ہیں بعد میں سیاستدان اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں تو ساتھ ہی پاکستان کا ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن جانا کی تشریح اس ٹولے کے انداز میں کرتے ہیں۔ بھٹوصاحب کی سیاست، تم اُدھر ہم اِدھر کو بھول جاتے ہیں، اپنی جان چھڑوانے کے لیے سارا ملبہ فوج پر ڈال دیتے ہیں اور پوری قوم کو فوج کے خلاف یا بدگمانی پیدا کرنے کی بے بنیاد کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کارگل کی جنگ کے بارے سب فوج کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں، اسے کوئی کچھ نہیں کہتا جو سر عام کہتا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور زیادتی کی ہے میرا بس چلے تو اس لکیر کو ہی ختم کر دوں جسے بارڈر کہا جاتا ہے۔16دسمبر ہمارے لیے اذیت کا دن ہے۔ جسے یاد کر کے سبق حاصل نہیں کرتے بلکہ فوج کو عوام کے سامنے رسوا کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور پھر جنرل نیازی صاحب کے سر سارا گناہ تھوپ دیتے ہیں۔ میں اس سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا، پاکستانی فوجی کبھی بھی ہتھیار نہیں پھینکتا کیونکہ موت سے گھبراتا نہیں شہادت کا وہ طالب ہوتا ہے۔ آخر وہ کونسی وجہ بنی کہ جنرل نیازی صاحب کے نام یہ جرم لگا دیا گیا۔ کیا کبھی کسی نے تاریخ کا مطالعہ کیا؟ نہیں تو ضرور کریں۔سقوط ڈھاکہ، مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا۔جنرل نیازی صاحب اس لیے منظر نامے میں آگئے کیونکہ وہاں کی کمانڈ ان کے پاس تھی۔ پچھلے دنوں ایک بزرگ ملا جو اس وقت ڈھاکہ میں جنگی قیدی رہا،اس کے مطابق کہ ہمیں آرڈر ملاکہ ڈھاکہ پہنچو، ہماری یونٹ ڈھاکہ پہنچی۔ وہاں کم و بیش 90ہزار فوجی جوان تھے، اس میں ملٹری افسربھی تھے، وہ کہتا ہے ہم نے وہاں رپورٹ کی جنگی مشن کے مطابق ہم سب تیار اپنی اپنی تعیناتی، پلاٹون اور پلاٹون کمانڈر کے زیر کمانڈ تیار تھے کہ ہمیں اطلا ع ملی کہ آپ لوگوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہے،آپ لوگوں کے خلاف بغاوت ہو گئی ہے، عجیب کیفیت پیدا ہو گئی، سب ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے، پتہ چلا یہ سب ایک پلان کے تحت کیا گیا اور اپنے اپنے سول اقتدار کی خاطر فوج کو رسوا کیا گیا۔ سپاہی کہنے لگا کہ ہم نے اپنے کمانڈر سے کہا کہ ہم جنگ لڑیں گے غازی یا شہید واپس جائیں گے۔ لیکن جنگ کا سماں ناقابل بیان ہے کہ وہاں کیسے حالات پیدا ہو چکے تھے۔ جنرل نیازی صاحب کو زبردستی مغربی پاکستان سے حکم ملا کہ اب جنگ بندی ہو گئی لہذا ہتھیار ڈال دو اور جنرل نیازی صاحب کے اس وقت کے تاثرات بیان کرنا بہت مشکل ہیں۔ ہمیں جنگی قیدی بنا لیا گیا، اور بھارتی گاڑیوں میں لاد کر کسی انجان جگہ پر لے گئے وہاں کھلے میدان میں چھوڑ دیا، اس میدان کے ار د گرد بجلی کی ننگی تاریں لگی ہوئی تھیں تاکہ کوئی فوجی نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہاں ہم تین تین دن تک بھوکے اور پیاسے رہے، گھاس کے خشک پتے کھانے کو ملے، گندے نالوں کا پانی پلایا گیا، خشک روٹی جسے چبانا ناممکن تھا اسے ہاتھوں سے پیس کر باریک کر کے کھانے پر مجبو ر تھے۔ وقت گزرتا رہا پھر ایک دن اچانک فوجی ٹرک آئے اور ہمیں زبردستی بھیڑبکریوں کی طرح لوڈ کرنے لگے، میں پیچھے چھپتا رہا کہ شائد ہمیں کسی جگہ لے جا کر فائر کرنے لگے ہیں۔ خیر اللہ اللہ کرکے پریشانی کے حالات میں ٹرک میں سوار ہوا، ہمیں طویل مسافت کے بعد اتارا گیا تو پتہ چلا کہ واہگہ بارڈر پہنچ گئے ہیں، وہاں انڈین فوجی تھے، یعنی فوجیوں کے بدلے فوجیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ میرے وہ ساتھی جو ٹرک میں سوار نہ ہو سکے اب ان کے ساتھ کیا بیتے گی؟میں بھی بارڈر پار کرکے پاکستان کی سرزمین پر پہنچ گیا، سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اپنے ملک میں آگیا اور دوسرا یہ کہ جان بچ گئی۔ میں سیدھا گھر کو پہنچا رات ہو گئی تھی۔ اپنے گھر پر اجنبیوں کی طرح دستک دی گھر سے بھابھی نے پوچھا میں نے اپنی ماں کا پوچھا (اپنا اس لیے نہیں بتایا شائد یقین نہ کریں اگر یقین ہو جائے تو اچانک خوشی سے کچھ ہو نہ جائے)۔ بھابھی نے دروازہ کھولا تو میں جلدی جلدی اندر گھس گیا، وہ بیچاری آوازیں دیتی رہیں لیکن میں نے کوئی نہ سُنی، اندر سے ماں جی کی آواز آرہی تھی کہ بیٹی کون ہے؟ کیوں شور مچا رہی ہو، ماں جی اجنبی پتہ نہیں کون ہے نہ کچھ بتاتا ہے سیدھا گھر میں گھس آیا ہے۔ ماں جی نے کہا چلو آنے دو۔۔ میں سیدھا ماں جی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ ماں نے پوچھا بیٹاکون ہو؟ میں سوچ میں پڑھ گیا، میں نے رنگ برنگے سوال کرنا شروع کر دیئے کہ آپ کا جو ایک بیٹا سپاہی تھا (فوج میں تھا) وہ کہاں ہے،؟ماں جی نے آہ بھرتے ہوئے کہا بیٹا وہ تو فوج میں تھا،ڈھاکہ میں جنگی قیدی ہو گیا ہمیں اطلاع ملی کہ وہ مر چکا ہے۔ ہم نے صبر شکر کر لیا۔ سپاہی کہنے لگا کہ اگر میں کہوں کہ آپ کا بیٹا زندہ ہے تو۔ ماں جی کہنے لگی نہیں وہ اس دنیا میں نہیں۔ سپاہی نے پھر اپنی بوڑھی ماں سے کہا مجھے پتہ ہے وہ زندہ اور کہاں ہے۔ ماں جی کے بوڑھے جسم میں ایک جان سی آگئی اور وہ بڑے ہی خوشی کے انداز میں بولی بتاؤ کہاں ہے؟ سپاہی نے کہا ماں جی بتاتا ہوں مجھے اس کی کچھ باتیں تو بتاؤ۔کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔۔۔ پھر سپاہی نے ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔سپاہی نے کہا اگر آپ کا بیٹاواقعی آپ کو مل جائے تو کیسا لگے گا، ماں، ماں ہوتی ہے اس کے پاس کوئی الفاظ نہ تھے کہ وہ کس طرح اللہ کریم کا شکر ادا کرے گی۔سپاہی نے جب دیکھا کہ اب ماں میں اتنا حوصلہ آگیا ہے کہ وہ اب میری بات کا یقین بھی کر لے اور حوصلے سے میرے زندہ گھر واپس آنے پر خوشی کو سنبھال لے گی۔ سپاہی نے ماں سے کہا کہ ماں بتاؤآپ کا سپاہی بیٹا کہاں ہے؟ ماں دنیا کے ہر غم سے بالا تر اس کی باتوں میں مگن ہو کر سپاہی کی باتیں سننے لگی، آخر ماں نے کہابیٹا مجھے بتاتے کیوں نہیں؟ یا جھوٹی تسلیاں دینے آؤ ہو۔ سپاہی اٹھ کھڑا ہو اماں سے کہا ماں جی آپ بھی کھڑے ہو جائیں ماں جی بھی کھڑی ہو گئیں۔ عجیب کیفیت تھی، سپاہی ماں جی کے گلے لگ کر رو دیا اور کہا ماں میں ہی تیرا وہ جنگی قیدی بیٹا ہوں۔ ماں کے بھی خوشی کے آنسو دیکھنے والے تھے،گھر میں عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ گئی، ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ میری ماں پھر سے جوان ہو گئی ہے اور گھر میں چار سو خوشیاں ہی خوشیاں نظر آرہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں جی اپنے بیٹے کو کیوں نہ پہچانا؟ سپاہی کا جواب سنو! کہتا ہے کہ مجھے بھارت میں کئی کئی روز کھانا یا پانی نہیں ملتا تھا۔ سوکھی گھاس اور سبز پتے کھانے پر مجبور تھے، میرا جسم لاغر، کمزور اور بے ڈھنگا ہو چکا تھا، میرے گال اندر پچک چکے تھے، داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ آواز تبدیل ہو چکی تھی، میرے جسم میں کوئی ایسی نشانی نہیں تھی جسے ماں جی فوراً سے پہچان لتیں۔۔ سپاہی نے کہا دوستو! فوج پر گندی زبان استعمال کرنے سے پہلے سول سیاسی قیادت کو ضرور پڑھا کرو، پاکستانی فوجی مرتو سکتا ہے لیکن ہتھیار نہیں ڈالتا۔ایک لمحہ بھر کے لیے سوچوکہ جس طرح سپاہی کو بھرتی کرنے کے لیے جن مراحل سے گزارا جاتا ہے، کسی بھیMNA, MPA یا کوئی بیوکریٹس کو گزارا جائے تو ہے کوئی جو معیار پر پورا اتر سکے۔ تو پھر فوجیوں پر بے مقصد جملے کسنے سے پہلے ان کی ذمہ داری اور فرائض پر ضرور غور کیا کرو؟اگر آج قوم آرام کی نیند سوتی ہے تو رب کریم کی رحمت کے بعد یہ دنیا کی بہترین فوج کی ہی بدولت ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اچھی سوچ اور سمجھ عطا فرمائے آمین۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173820 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More