’’خاندانی کرکٹرز‘‘

گریوری خاندان کے چار، محمدبرادران گیارہ اوراکمل فیملی کے چارکرکٹرز نے خوب کھیلا
تین بھائیوں نے ایک ہی میچ میں حصہ لے کر عالمی ریکارڈ قائم کیا


کرکٹ کا کھیل اپنے آغاز سے ہی ’’خاندانی کھیل‘‘ بن گیا۔ باپ کو کرکٹ کھیلتا دیکھ کر بیٹے میں بھی شوق اُجاگر ہوا، جس کے بعد دوسرے بھائی اور پھر دیگر رشتے داروں میں منتقل ہوتاگیا۔ پاکستان میں اس کی ابتدا ’’محمدبرادران‘‘ سے ہوئی ، اس خاندان کے پانچ بھائیوں نے بیک وقت کرکٹ کھیل کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ،جب کہ آج اس کی دوسری نسل بھی اس کھیل سے وابستہ ہے، اس طرح مذکورہ خاندان کےگیارہ افراد کو اس کھیل سے منسلک رہنے کا اعزاز حاصل ہوگیا، جو ایک عالمی ریکارڈ ہے۔15مارچ1877کو میلبورن میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان عالمی کرکٹ کی تاریخ کا پہلا میچ ہوا،اس ابتدائی میچ میں ’’گریگوری ‘‘ خاندان کے دو بھائی ایک ساتھ کھیلےڈیو گریگوری، آسٹریلوی ٹیم کے کپتان تھے، جب کہ ان کے بڑے بھائی ،’’ نڈگریگوری ‘‘نے بلے باز کے طور پر میچ میں شرکت کی۔ 1890میں ان کے تیسرے بھائی ’’ایڈورڈسڈنی گریگوری‘‘ آسٹریلوی ٹیم میں شامل ہوئے، بعد میں انہیں بھی ٹیم کاکپتان بنایا دیا گیا ۔ اسی خاندان کےچوتھے فرد، جیک موریسن گریگوری، نڈ اور ڈیو کے بھتیجے تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئرکا آغاز 1920میں انگلینڈ کے خلاف میچ کھیل کر کیا۔ اسی خاندان کے پانچویں فرد، ہیری ڈونن، نڈگریگوری کے دامادتھے، جنہوں نے 1892سے 1896تک 5ٹیسٹ میچوں میں حصہ لیا۔ گریگوری خاندان کے پانچ افراد کو اس کھیل میں شرکت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔

20ویں صدی کے وسط میں ’آسٹریلیا سےتعلق رکھنے والے’ ’ہاروے برادران ‘‘ کے کرکٹرز عالمی توجہ کامرکز بنے رہے۔اس خاندان کے تین افراد نے کھیل میں شرکت کی۔ سب سے بڑ ے بھائی ’’مرو ہاروے‘‘ نے 1947میںبرطانیہ کے خلاف میچ کھیل کر ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ 1948میں ان کے سب سے چھوٹے بھائی ، نیل ہاروے نے بھارت کے خلاف میچ میں حصہ لیاجب کہ منجھلے بھائی’’ کلیرسن ایڈگرمائیک ہاروے‘‘ فرسٹ کلاس کرکٹر رہے ہیں، انہوں نے 1980میں ایک ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں میںایمپائرنگ کے فرائض انجام دیئے۔

پاکستان میں ’’محمد برادران‘‘ اسپورٹنگ گھرانے کے طور پر معروف ہوئے۔’’محمد برادران ‘‘ کے والد،شیخ اسماعیل محمد،قیام پاکستان سے قبل، بھارت میں، کلب کرکٹ کھیلتے تھے ۔ والدہ ،امیر بی جوناگڑھ میں ریجنل بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس چیمپئن تھیں۔ اس خاندان کے پانچ بھائی، بیٹے، بھتیجے اورپوتے سمیت خاندان کے بیشتر افراد پاکستان میںکرکٹ کے کھیل سے وابستہ رہے ہیں، ان کی تیسری نسل آج بھی اس سے منسلک ہے۔وزیر محمد، حنیف محمد، مشتاق محمد، رئیس محمد اور صادق محمد، قومی کرکٹ ٹیم کے معروف کھلاڑی تھے، جب کہ خاندان کے چھٹے فرد، حنیف محمد کے بیٹے نے بھی قومی ٹیم کے ساتھ کھیلتے ہوئے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ایک میچ میں اس خاندان کے تین بھائی بیک وقت قومی ٹیم کی جانب سے کھیلے جو ایک منفرد عالمی ریکارڈ ہے۔حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے 1969-70کے دوران کراچی ٹیسٹ میں شرکت کرکے آسٹریلیا کے گریگوری برادران کا ریکارڈ توڑا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر،پاکستان کر کٹ کے حکام کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیںقومی کرکٹ ٹیم ’’بھائیوں‘‘ کی ٹیم نہ بن جائے ، اس لیے سب سے پہلے حنیف محمد کو ریٹائرکیا گیا ۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے چند کرکٹرز کا ذیل میں تذکرہ پیش کرتے ہیں۔

پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے وزیر محمدنےنومبر 1952میں پاکستان ٹیم کے ساتھ ، بھارت کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا، اس میچ میں ان کے چھوٹے بھائی حنیف محمدبھی شامل تھے۔سات سالہ کرکٹ کیرئیر کے دوران انہوں نے بیس ٹیسٹ میچوں میں شرکت کرکے 801جب کہ فرسٹ کلاس میچوں میں 4930رنز اسکور کیے ۔ وہ اسپن بالر کے علاوہ بہترین فیلڈر بھی تھے۔ انہوں نے ٹیسٹ میچز میں پانچ اور فرسٹ کلاس میں 35بلے بازوں کو کیچ آؤٹ کیا۔ ان کا شمار ملک کے بزرگ ترین کرکٹرز میں کیا جاتا ہے۔

وزیر محمد کے بعدرئیس محمد، دوسرے نمبر پر تھے ۔ ان کا شمار بھی بہترین کرکٹرز میں ہوتا ہے لیکن وہ زیادہ تر فرسٹ کلاس میچز کھیلتے رہے۔1954-55میں قائد اعظم ٹرافی میں انہوں نے وزیر محمد اور حنیف محمد کے ساتھ میچ میں حصہ لیا اور تینوں بھائیوں نے ایک ہی میچ میں سنچری اسکور کرکے ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ قومی ٹیم میں دو مرتبہ ان کا سلیکشن ہوا لیکن دونوں مرتبہ سلیکٹرز کی تنگ نظری کا شکار ہوگئے۔ ڈھاکا ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف انہوں نے بارہویں کھلاڑی کے طور پر شرکت کی۔

حنیف محمداس خاندان میں تیسرے نمبر پر تھے ۔انہوں نے صرف13سال کی عمر میں اس کھیل میںپہلا انفرادی ریکارڈ قائم کیا۔کرکٹ کے کھیل کا آغازانہوں نے سندھ مدرسۃ الاسلام اسکول کراچی سے کیااوراس کی جانب سے کھیلتے ہوئے 305 رنز کی ناقابل شکست اننگزکھیل کر ٹرپل سنچری کا ریکارڈ بنایا۔ یہ منفرد اننگز ساڑھے سات گھنٹے جاری رہی۔ 1951میں جب عبدالحفیظ کاردار، میاں محمد سعید کی جگہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تو انہوں نے باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش کے لیے مختلف شہروں کے دورے کیے ۔ کراچی کے چند میچوں میں انہوں نے17سالہ نوجوان، حنیف محمد کا کھیل دیکھ کر انہیں، قومی ٹیم کے لیے منتخب کرلیا۔پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز1952میں بھارت کے دورے سے ہوا۔اس افتتاحی میچ میں قومی ٹیم کے ساتھ دیگر سینیئر کھلاڑیوں کےعلاوہ حنیف محمدکے ساتھ ان کے بڑے بھائی بھی کھیل رہے تھے۔ 1958میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلتےہوئے بابارڈوس ٹیسٹ میں دو عالمی ریکارڈ قائم کیے۔ 970منٹ تک بیٹنگ کرتے ہوئے ٹرپل سنچری اسکور کی ، اور وہ ٹرپل سنچری بنانےوالے دنیا کے چھٹےاور پاکستان کے پہلے بلے باز بن گئے ۔ 1959میں ایک فرسٹ کلاس میچ کے دوران وہ صرف ایک رن کی کمی سے’’فتھ سنچری ‘‘ کا ریکارڈ قائم کرنے سے محروم رہ گئے لیکن انہوں نے اس میچ میں ڈان بریڈ مین کا ریکارڈ توڑا۔1954-55میں میلبورن کرکٹ کلب کی پاکستان کے دورے پر آئی۔دوسرا ٹور میچ لاہور میں کھیلا گیا، کاردار نے بیٹسمینوں کو سست رفتاری سے بیٹنگ کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر حنیف محمد نے 525منٹ تک بیٹنگ کرتے ہوئے تاریخ کی سست ترین سینچری بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ان کے اس کارنامے کا تذکرہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں موجود ہے۔ 1955 میں شائع ہونے والے پہلے ایڈیشن میں پاکستانی لیجنڈ کرکٹر کانام، سست ترین سنچری اسکورکرنے والے بلےباز کے طور پر کیا گیا ہے۔

محمدبرادران کے چوتھے نمبر پر بھائی مشتاق محمد، حنیف سے نو سال چھوٹے تھے انہوں نےکرکٹ کیرئیر کا پہلا میچ 1959میں ویسٹ انڈیز کے خلاف لاہور میں کھیلا۔ ان کا شمارملک کے بہترین آل راؤنڈر اور رائٹ آرم گگلی بالر میں ہوتا ۔ قومی ٹیم کے وہ پہلے آل راؤنڈ ہیں جنہوں نے ایک ٹیسٹ میچ میں دو نوں اننگز میں نہ صرف سنچری اسکور کی بلکہپانچ، پانچ وکٹیں لینے کا ریکارڈ قائم کیا۔کئی میچز میں انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ شرکت کی۔ انہوں نے 19میچوں میں ٹیم کی قیادت کی اور انہیں پاکستان کرکٹ کا کامیاب کپتان کہا جاتا ہے۔
 
صادق محمد، مشتاق محمد سے دوسال چھوٹے تھے۔ انہوں نے پہلاٹیسٹ میچ کراچی میں 1969میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف کھیلا۔ا س میچ کی خاص بات یہ تھی کہ عالمی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بیک وقت تین بھائیوں نے ایک ہی میچ میں حصہ لیا۔صادق محمدنے اپنے کیرئیر کے دوران 41ٹیسٹ اور 19ایک روزہ میچ کھیلے جن میں ان کی کارکردگی اوسط درجے کی تھی۔2010میں انہوں نے ایشین گیمز میں حصہ لینے والی قومی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کے فرائض انجام دیئے اور ان کی سخت محنت کے باعث پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 2000ءمیں ایک ون ڈے میچ میں صادق محمد نے ایمپائرنگ کے فرائض بھی انجام دیئے۔
محمد برادران کی دوسری نسل میں شعیب محمد ہیں۔وہ لٹل ماسٹر، حنیف محمد کے بیٹے ہیں۔اپنے والد اور چچا کی کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1983سے1995کے دوران وہ بھی کرکٹ کے قومی اسکواڈ میں شامل رہےہیں۔ اپنے کرکٹ کیرئیر کے دوران انہوں نے45ٹیسٹ اور 63ون ڈےمیچ کھیلے۔ 1989اور 1990میں انہیں دو مرتبہ ناٹ آؤٹ ڈبل ٹیسٹ سنچری کا اعزاز حاصل ہوا ،جب کہ نیوزی لینڈ کے خلاف ولنگٹن میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ میں انہوں نے ناٹ آؤٹ سنچری بنائی۔ تین مرتبہ پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ حاصل کیا۔

اب محمد برادران کی تیسری نسل بھی اس کھیل سے منسلک ہے۔ ان کا بیٹا شہزر محمد ، فرسٹ کلاس کرکٹر ہےاور قومی ایئر لائن کی ٹیم کی طرف سے کھیلتا ہے۔ اس کا شمار سنچری میکر کرکٹرز میں ہوتا ہے ۔ رئیس محمد کے تین صاحب زادے آصف محمد، شاہد محمد، طارق محمد، صادق محمد کے بیٹے عمران محمد بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے ہیں اور تمام کرکٹرز، سوائے شاہد محمد کے سنچری بنانے کا کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔

نذر خاندان
نذر محمد کا شمارکرکٹ کے اس خاندان کے بانی کی حیثیت سےہوتا ہے۔ وہ 1952میں پاکستان کی نوتشکیل قومی ٹیم میں شامل ہوئے اور پہلا ٹیسٹ میچ بھارت کے دورے کے دوران کھیلا۔ انہوں نےاس دورے کے دوسرے میچ میں قومی کرکٹ کی تاریخ کی پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان کا کرکٹ کیریئر مختصر ترین رہا۔اکتوبر 1952سے دسمبر 1952میں دو ماہ کے عرصے کے دوران انہوں نے پانچ ٹیسٹ میچ کھیلے۔ وہ اوپنر کے طور پر کھیلتے تھے اور ایک میچ میں ناٹ آؤٹ سنچری اور بیٹ کیری کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ ایک حادثے میں بازو کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے انہیں کھیل سے ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔

نذر محمد کے بیٹے ، مدثر نذرکو یہ کھیل ورثے میں ملا تھا۔ وہ اپنے والد کی طرح اوپننگ بیٹس مین کے طور پر کھیلتے رہے ہیں، ان کا شمار ملک کے ریکارڈ ساز کرکٹرز میں ہوتا ہے۔ 1976ء میں انہوں نے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا اور قومی ٹیم کی جانب سے ایڈیلیڈ میں آسٹریلیا کے خلاف پہلا میچ کھیلا۔ 1982-83میں بھارت کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے پانچویں میچ میں اوپنر کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے بیٹ کیری کیا۔ مدثر نذر ، بھارت کے خلاف بیٹ کیری کرنے والے اپنے والد کے بعددوسرے پاکستانی بیٹس مین ہیں اور یہ پہلا عالمی ریکارڈ ہے جب باپ بیٹوں نے ایک ہی ملک کے خلاف میچ کھیلتے ہوئے بیٹ کیری کیا۔ 1983ء میں حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں بھارت کے خلاف میچ میں انہوں نے جاید میاں داد کے ساتھ تیسری وکٹ کی شراکت کا طویل ترین ریکارڈ قائم کیا ۔ مدثر نذر بہترین اسپن بالربھی تھے، 1982میں لارڈز کے گراؤنڈ میں انہوں نے برطانیہ کے خلاف میچ میں شاندار بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’گولڈن آرم ‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔

غلام احمد اور آصف اقبال
بھارتی کرکٹر غلام احمد پاکستا ن کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان آصف اقبال اور بھارتی ٹینس اسٹار، ثانیہ مرزا کے چچا تھے۔ وہ فرسٹ کلاس کرکٹر تھے اور حیدرآباد دکن کی ٹیم کی جانب سے 1940سے 1959تک کرکٹ میچوں میںحصہ لیتے رہے۔ 1948سے1958ء تک بھارتی ٹیم کی جانب سے کھیلتے رہے۔اپنی ٹیم کے ساتھ 1952میں انہوں نے انگلینڈ اور 1954میں پاکستان کا دورہ کیا۔1955-56میں نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف میچوں میں بھارتی ٹیم کی قیادت کی۔ ان کا شمار بہترین آف بریک بالرز میں ہوتا تھا۔ کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ1967-68میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کرنے والی بھارتی ٹیم کے منیجر رہے ،جب کہ کئی سال تک انہوں نے بی سی سی آئی کے سکریٹری کے فرائض انجام دیئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پانچ سال تک پاکستان میں بھی رہے۔

آصف اقبال 1943میں بھارتی ریاست، حیدرآباد دکن میں پیداہوئے۔ کرکٹ کا آغازانہوں نے اپنے آبائی شہر سے کیا۔ 1961ء میں وہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں انہوں نے رائٹ آرم اسپن بالر کی حیثیت سے کرکٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ اکتوبر 1964میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے اور پہلا میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔انہوں نے 1964سے1980تک کرکٹ میچوںمیں حصہ لیا،وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔انہوں نے دو عالمی کپ ٹورنامنٹس میں ٹیم کی قیادت کی۔قومی ٹیم نے 1975کےافتتاحی ورلڈ کپ اور 1979کے دوسرے عالمی کپ میں ان ہی کی کپتانی میں حصہ لیا ۔وہ بالر کے علاوہ جارح مزاج بلے باز بھی تھے۔ کھیل سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے شارجہ کے تاجر ، عبدالرحمن بخاطر کا کرکٹ کے کھیل میں رجحان دیکھتے ہوئےان کے ساتھ مل کر کرکٹرز کی فلاح و بہبود کے لیے کرکٹ بینیفٹ فنڈ سیریز شروع کی۔ شارجہ کو کرکٹ کا حب بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس وقت وہ آئی سی سی ریفریز پینل میں شامل ہیں۔

اکمل برادران
اکمل خاندان ، پاکستان کرکٹ کا دوسرا بڑا خاندان ہے، تین بھائیوں کے علاوہ ایک کزن بھی اس کھیل سے وابستہ ہیں اور اس کھیل میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔

2002ءمیںزمبابوے کے خلاف اپنے کیرئیر کا پہلا میچ کھیلنے والے کامران اکمل ،قومی ٹیم میں وکٹ کیپرہیں لیکن وہ اپنی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے بھی مقبول ہیں۔ کئی بین الاقومی میچوں میں انہوں نے اپنی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے قومی ٹیم کی لڑکھڑاتی ہوئی بیٹنگ لائن کو سہارا دیا۔ وہ آخری نمبروں پر بیٹنگ کرتے رہے ہیں لیکن کئی میچوں میں ان سے اوپننگ کروائی گئی۔ انہوں نے ایک اہم میچ میں ناٹ آؤٹ سنچری اسکور کی۔ وہ فرسٹ کلاس میچوں میں وکٹوں کے پیچھے 850سے زائد بلے بازوں کو آؤٹ کرنے والے ایشیاء کے پہلے کھلاڑی ہیں۔

2008ء
اکمل برادران کے سب سے چھوٹے بھائی ، عمر اکمل بھی اپنے بھائی کی طرح قومی ٹیم میں وکٹ کیپر بیٹس مین کے طور پر کھیلتے رہے ہیں۔ 2008میں انہوں نے ملائشیاء میں منعقد ہونے والے انڈر-19ورلڈ کپ میں حصہ لیا اور اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کی سینئر ٹیم میں جگہ حاصل کرلی۔ 2009ء میں انہیں آسٹریلیا کا دورہ کرنے والے ٹیم اسکواڈ میں شامل کیا گیا۔ ایک روزہ سیریز میں انہوں نے وکٹ کیپنگ کے علاوہ شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا۔ اِسی سال انہوں نے نیوزی لینڈکے خلاف میچ سے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا۔ 16میچوں میں ان کی بیٹنگ کا ریکارڈ انتہائی شاندار ہے جب کہ وکٹ کیپر کی حیثیت سے انہوں نے 127بیٹس مینوں کا شکار کیا۔ کئی ایک روزہ میچوں میں کامران اور عمراکمل ایک ساتھ کھیلے۔ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح پاکستان کرکٹ ٹیم سے باہر ہیں لیکن حال ہی میںفرسٹ کلاس میچوں کا انہوں نے انوکھا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ 24مرتبہ صفر پر آؤٹ ہونے والے دنیا کے دوسرے بلے باز ہیں۔

منجھلے بھائی، عدنان اکمل بھی اپنے دونوں بھائیوں کی طرح وکٹ کیپراوربیٹس مین ہیں۔ 2010میں انہیں ذوالقرنین حیدر کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا اور انہوں نے پہلا میچ شارجہ میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلا۔ ۔ وہ قومی ٹیم کی جانب سے 20ٹیسٹ، 5ایک روزہ میچ کھیل چکے ہیں۔

متعدد عالمی ریکارڈ کے حامل کرکٹر بابر اعظم، اکمل برادران کے کزن ہیں۔2016میں سری لنکا کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے بابر، اب تک 11ٹیسٹ،41ایک روزہ اور 17ٹی ٹوئنٹی میچز کھیل چکے ہیں۔انہوں نےاکتوبر 2017میں ایک ہی ملک میں کھیلتے ہوئے لگاتار پانچ سنچریاں اسکورکرکےجنوبی افریقہ کے بلے باز اے بی ڈی ویلیئر جب کہ سات مسلسل سنچریاں بنا کر ہاشم آملا کا ریکارڈ توڑا۔ حال ہی میں انہوں نے کرکٹ کے مختصر ترین فارمیٹ، ٹی-10میںصرف 26گیندوں پر تیزترین سنچری بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔

الہٰی برادران
الہٰی خاندان کے بھی تین بھائی اس کھیل سے وابستہ رہے ہیں۔دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والےظہورالٰہی، اپنے دو کرکٹر بھائیوں سے بڑے ہیں۔ان کا ٹیسٹ کیرئیر صرف ایک ہفتے پرمشتمل ہے۔ اس دوران انہوں نے دو ٹیسٹ میچ کھیلے جب کہ ایک روزہ کیریئر جس کا آغاز نومبر 1996زمبابوے کے خلاف میچ سے شروع ہوا، جنوری 1997میں اختتام پذیر ہوا۔ انہوں نےآخری ایک روزہ میچ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے خلاف کھیلا۔

سلیم الہٰی نے 1995سے 2013تک 13ٹیسٹ اور 48ایک روزہ میچ کھیلے۔ پہلا ایک روزہ میچ سری لنکاکے خلاف گوجرانوالہ میںکھیلا جس میں انہوں نےڈبیو ناٹ آؤٹ سنچری اسکور کرکے پہلا قومی ریکارڈ بنایا۔2002میںٹیم کے ساتھ زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران انہوں نے چار میچوں میں تین سنچریاں اسکورکرنے کا منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ ان میچوں میں شاندار کارکردگی کی بنیاد پر وہ 2003کے عالمی کپ کے لیے منتخب ہونے والی ٹیم اسکواڈ کا حصہ بنے۔

منظور الٰہی سب بھائیوں سے چھوٹے ہیں، قومی ٹیم میں شامل رہ کر 11سال تک ٹیسٹ اور ایک روزہ میچ کھیلے۔وہ میڈیم فاسٹ بالر اور بیٹس مین تھے۔ 6ایک روزہ میچوں میں 123رنز بنانے کے علاوہ انہوں نے بہترین بالنگ کارکردگی سے سات وکٹیں لیں، جب کہ آل راؤنڈ کھیل کا مظاہرہ کرکے سات بلے بازوں کو کیچ آؤٹ کیا۔

فرحت برادران
اس خاندان کے دو بھائی، عمران فرحت اور ہمایوں فرحت قومی ٹیم میں شامل رہے۔

ہمایوں فرحت، وکٹ کیپر اور بیٹس مین تھے۔ انہوں نے 8مارچ 2001میں سری لنکا کے خلاف پہلا ایک روزہ میچ کھیلا جب کہ اس کے19دن بعد نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ میچ کھیلا۔ ان کا ایک روزہ اور ٹیسٹ کیرئیر صرف 12روز پر محیط رہا۔ وہ آئی پی ایل میں لاہور بادشاہ کی ٹیم میں شامل رہے ہیں۔یہ ماضی کے نام ور کرکٹر، محمد الیاس کے داماد ہیں۔

عمران فرحت، ہمایوں فرحت سے ایک سال چھوٹے ہیں اور پاکستان کی جانب سے تینوں فارمیٹ کی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں کراچی سٹی کی ٹیم کی طرف سے ملائیشیا کے خلاف پہلا میچ کھیلا۔ اس میچ میں ان کے ساتھ توفیق عمر، بازید خان اور کامران اکمل بھی شریک تھے۔2001سے 2011تک انہوں نے 40ٹیسٹ،58ایک روزہ اور سات ٹی 20میچوں میں حصہ لیا۔ اپنے دس سالہ کرکٹ کیریئر میں انہوں نے تین ٹیسٹ اور ایک ون ڈے سنچری بنائی۔

انیل دلپت اور دانش کنیریا
ہندو برادری کے دو نام ور کرکٹر کزن،جنہوں نے قومی ٹیم میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں

نیل دلپت1980میں بہ طور وکٹ کیپر اور ٹاپ آرڈر بیٹس مین کے قومی ٹیم میں شامل ہوئے۔ انہیں وسیم باری کے زخمی ہونے کی وجہ سے ٹیم میں لیا گیا تھا اس سے قبل وہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے۔ 1984میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف پہلا میچ کھیلا۔ اپنے کیریئر کے نویں ٹیسٹ میچ میں جو نیوزی لینڈ کے ساتھ کراچی میں کھیلا گیا تھا، انیل دلپت نے وکٹوں کے پیچھےمتعددکھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کے علاوہ 52رنز بھی بنائے۔ 1983-84میں انہوں نے برطانیہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں 67بلے بازوں کی وکٹیں لیں۔

دانش کنیریا کا شمار دنیا کے بہترین اسپنرز میں ہوتا ہے جو اپنی گگلی کی وجہ سے معرو ف رہے۔ نومبر 2000میں بھارت کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے والےدانش اپنے سات سالہ کیریئر کے دوران 61میچوں میں 261وکٹیں لے کر عمران خان، وقار یونس اور وسیم اکرم کے بعد سب سے زیادہ کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے چوتھے پاکستانی کھلاڑی ہیں۔ ٹیم کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران، انہوں نے ڈھاکا کے ’’بنگلہ باندھونیشنل اسٹیڈیم‘‘ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگ میں سات وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا۔ 2003-4میں پروٹیز ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں دوسری مرتبہ سات وکٹیں لیں۔2004میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں سری لنکا کے خلاف بالنگ کراتے ہوئے دس بیٹس مینوں کو آؤٹ کیا۔ اس میچ کی خاص بات یہ رہی کہ مسلسل ساٹھ اوور کرانے کی وجہ سے ان کی انگلیوں سے خون رسنے لگا تھا۔ 2005میں انہیں آئی سی سی ٹیسٹ پلیئر ایوارڈ میں نام زد کیا گیا۔ انہوں نے دو مرتبہ دس وکٹیں لینے والے بالر کا ریکارڈ قائم کیا۔

امام الحق اور انضمام الحق
انضمام الحق کا شمار پاکستان کے جارح بلے بازوں میں ہوتا ہے، یہ قومی ٹیم کے کپتان رہ چکے ہیں۔ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بییٹس مینوں میں وہ تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس وقت پاکستان کی قومی ٹیم میں چیف سلیکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کے بھتیجے، امام الحق بھی اپنے چچا کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ 2016-17میں قائداعظم ٹرافی کے ایک میچ میں انہوں نے 200ناٹ آؤٹ رنز کی اننگ کھیلی۔ 2017میں ابوظبی میں سری لنکا کے خلاف پہلے ایک روزہ میچ میں انہوں نے جارحانہ بیٹنگ کرکے شاندار سنچری اسکور کی۔ وہ پہلے ہی ایک روزہ میچ میں میڈن سنچری اسکور کرنے والے پاکستان کے دوسرےبیٹس مین ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223115 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.