ضم اضلاع میں کھیل، کاغذوں میں زندہ، میدانوں میں دفن
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا مسئلہ صرف ناقص انتظام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل نظامی ناکامی کی تصویر ہے۔ ایک ایسا نظام جو کاغذوں میں تو کھلاڑیوں کی فلاح، ترقی اور سہولیات کے دعوے کرتا ہے، مگر عملی طور پر وہی کھلاڑی سب سے زیادہ محرومی کا شکار ہیں۔ حالیہ آر ٹی آئی کے ذریعے سامنے آنے والا یو این ڈی پی کی جانب سے دی گئی قیمتی سائیکلوں کا معاملہ اس پورے نظام کی عکاسی کرتا ہے۔
سال 2024 میں جب یو این ڈی پی کی جانب سے فراہم کی جانے والی سائیکلوں کے بارے میں باضابطہ سوال کیا گیا تو لمبے انتظار کے بعد ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے جواب دیا کہ تقریباً بارہ سائیکلیں سابقہ فاٹا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو دی گئی تھیں، جو اب ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ کہلاتا ہے۔ مزید یہ بھی بتایا گیا کہ یہ سائیکلیں ایک کوچ عمران خان کے حوالے کی گئی تھیں۔یہاں سے اصل مسئلہ شروع ہوتا ہے۔
ریاستی اداروں میں عطیہ شدہ سامان، خصوصاً بین الاقوامی اداروں کی جانب سے دیا گیا، کسی فرد کی ذاتی تحویل میں نہیں دیا جاتا۔ اس کے لیے باقاعدہ اسٹاک رجسٹر، حوالگی کی رسید، مقصد کی وضاحت، اور استعمال کی رپورٹ لازمی ہوتی ہے۔ مگر جب انہی نکات پر مزید سوالات اٹھائے گئے تو سال 2025 میں ڈائریکٹریٹ کی جانب سے جو جواب آیا، وہ انتظامی کمزوری نہیں بلکہ ایک سنگین اعتراف تھا۔
تحریری جواب میں کہا گیا کہ چونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ مرجڈ سال 2019-20 میں پشاور سپورٹس کمپلیکس منتقل ہو چکا ہے اور اس سے قبل فاٹا سیکرٹریٹ ورسک روڈ پر قائم تھا، اس لیے موجودہ دفتر میں مطلوبہ ریکارڈ دستیاب نہیں۔ یعنی نہ سائیکلوں کی وصولی کا ریکارڈ، نہ حوالگی کی دستاویز، نہ استعمال کی رپورٹ، اور نہ ہی یہ معلوم کہ وہ سائیکلیں اس وقت کہاں ہیں۔یہ محض فائلوں کے گم ہونے کا معاملہ نہیں۔ یہ سوال ہے کہ اگر کروڑوں نہیں تو کم از کم لاکھوں روپے مالیت کا سامان بغیر کسی ریکارڈ کے غائب ہو سکتا ہے، تو پھر ضم اضلاع میں باقی کھیلوں کے منصوبوں کا کیا حال ہوگا؟
ذرائع کے مطابق یو این ڈی پی کی جانب سے فراہم کی جانے والی ہر سائیکل کی قیمت تقریباً تین لاکھ روپے تھی۔ بارہ سائیکلوں کی مجموعی مالیت لاکھوں روپے بنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سائیکلیں واقعی کھلاڑیوں تک پہنچیں؟ اگر پہنچیں تو کن کھلاڑیوں کو، کس بنیاد پر، اور کس پروگرام کے تحت؟ اور اگر نہیں پہنچیں تو ذمہ دار کون ہے؟یہ معاملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا انسپکشن سیل صوبے بھر میں، خصوصاً ضم اضلاع میں، تقریباً ایک ہزار اسپورٹس سہولیات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ان تحقیقات میں مبینہ بدعنوانی، ناقص تعمیر، جعلی بلنگ، غیر فعال گراونڈز اور صرف کاغذوں میں موجود منصوبوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں خرابی انفرادی نہیں بلکہ ساختی ہے۔
ضم اضلاع میں کھیلوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بیشتر گراونڈز یا تو غیر فعال ہیں یا بااثر افراد کے قبضے میں۔ اسپورٹس کمپلیکسز میں کوچ موجود ہیں مگر کھلاڑی نہیں، کہیں عمارت ہے مگر سامان نہیں، اور کہیں سامان ہے مگر اس کا کوئی حساب نہیں۔ یو این ڈی پی کی سائیکلوں کا معاملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔حکومت خود کو “تبدیلی” کی علامت قرار دیتی ہے، مگر ضم اضلاع کے کھلاڑی آج بھی اسی سوال کے ساتھ کھڑے ہیں کہ تبدیلی آخر آئی کہاں ہے؟ اگر تبدیلی آئی ہے تو پھر ریکارڈ کیوں غائب ہیں؟ اگر اصلاحات ہو رہی ہیں تو پھر بین الاقوامی عطیات کی نگرانی کیوں نہیں؟ اور اگر احتساب کا نظام موجود ہے تو ایسے معاملات آر ٹی آئی کے ذریعے کیوں سامنے آتے ہیں، سرکاری آڈٹ کے ذریعے کیوں نہیں؟
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ضم اضلاع میں کھیل کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی گئی۔ یہاں کھیل ترقی کا ذریعہ بن سکتا تھا، نوجوانوں کو شدت پسندی، منشیات اور بے روزگاری سے نکالنے کا راستہ فراہم کر سکتا تھا۔ مگر جب کھیل کے نام پر آنے والے وسائل ہی غائب ہو جائیں، تو نوجوانوں کے اعتماد کا کیا بنے گا؟
یہ کالم کسی ایک کوچ، ایک افسر یا ایک دفتر کے خلاف نہیں۔ یہ سوال پورے نظام سے ہے۔ وہ نظام جو عطیات لیتا ہے مگر حساب نہیں دیتا۔ جو کھلاڑیوں کے نام پر فنڈز حاصل کرتا ہے مگر کھلاڑیوں کو بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کر پاتا۔اب گیند وزیراعلیٰ انسپکشن سیل کے کورٹ میں ہے۔ اگر واقعی اصلاحات اور احتساب مقصود ہیں تو یو این ڈی پی کی سائیکلوں کا معاملہ بھی ان جاری تحقیقات کا حصہ بننا چاہیے۔ صرف عمارتوں اور کنکریٹ کا آڈٹ کافی نہیں، سامان، عطیات اور انسانی وسائل کا حساب بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ضم اضلاع کے کھلاڑی خیرات نہیں مانگ رہے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ ان کے نام پر آتا ہے، وہ واقعی ان تک پہنچے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں، تو پھر کھیل، ترقی اور تبدیلی کے تمام دعوے محض نعرے ہی رہ جائیں گے۔
#MergedDistricts #SportsCorruption #RTI #UNDP #CMInspectionCell #KPGovernment #PublicFunds #Accountability #SportsGovernance #TabdeeliSarkar
|