حدیث مبارک
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ عرض کیا گیا اللہ اور اُس
کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت یہ ہے کہ
تو اپنے بھائی کا ذکر اس طریقے سے کرے کہ جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اگر وہ بات میرے بھائی میں پائی جاتی ہو
تو پھر بھی غیبت ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر وہ بات جو
تو کہتا ہے اُس کے اندر موجود ہو تو یہ غیبت ہوگی اور اگر اُس کے متعلق وہ
بات کہی جو اُس کے اندر نہیں ہے تو پھر تو نے اُس پر بہتان لگایا۔ (مشکوات
شریف)
اگر کسی شخص کی کوتاہی پر اُسے خیر خواہانہ انداز میں وجہ دلائی جائے تو یہ
اصلاح کا ایک طریقہ ہے جو جائز ہے مگر اُسے ذلیل و رسوا کرنے کیلئے اُس کی
عدم موجودگی میں اُس کی خامیاں بیان کریں تو ظاہر ہے کہ اس سے اُس کو تکلیف
ہوگی لہٰذا اسے غیبت شمار کیا جائے گا۔
بخاری شریف میں ہے حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تم لوگ آپس میں ایک
دوسرے پر حسد نہ کرو نہ ایک دوسرے سے بغض و کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے کی
غیبت کرو۔
ایک اور حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آگ خشک لکڑی
میں اتنی جلدی اثر نہیں کرتی جتنی جلدی بندے کی نیکیوں میں غیبت کا اثر
ہوتا ہے۔
نیز فرمایا قیامت کے دن کچھ لو ایسے ہوں گے جن کے نامہ اعمال میں بہت ہی
نیکیاں ہوں گی یہ دیکھ کر وہ رب کریم کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ اے
اللہ! اتنی نیکیاں ہم نے نہیں کیں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ جن لوگوں
نے دنیا میں تمہاری غیبت کی تھی ان کی نیکیاں اُن کے نامہ اعمال سے مٹا کر
تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دی گئی ہیں۔ (الحدیث)
غیبت کی مذمت میں بزرگان دین رحمتہ اللہ علیہم کے بھی بہت سے اقوال مروی
ہیں جن سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے غیبت کو نفاق سے تعبیر کیا ہے
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ آپ نے ساری
زندگی کبھی کسی کی غیبت نہیں کی۔
حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے سنا کہ فلاں شخص نے ان کی غیبت کی ہے تو
آپ نے اس کے پاس کچھ ہدیہ بھیجا اور فرمایا کہ تو نے غیبت کر کے اپنی
نیکیاں مجھے دے دی ہیں۔ لہٰذا اس کے بدلے میں یہ ہدیہ میں آپ کو بھیج رہا
ہوں۔
کسی نے علامہ ابن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے حجاج کی غیبت کی تو آپ نے
فرمایا کہ حجاج اگرچہ ظالم شخص ہے لیکن اس کی غیبت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ
اللہ تعالیٰ غیبت کرنے والوں سے حجاج کی طرف سے حساب لے گا۔
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ اللہ علیہ ایک دعوت میں تشریف لے گئے وہاں پر
لوگوں نے کسی کی غیبت کی تو آپ فورا اُٹھ کر چلے آئے اور فرمایا کہ غیبت
والی محفل میں ہرگز شریک نہیں ہو سکتا۔
بزرگان دین کے ان ارشادات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیبت کتنا بڑا
گناہ ہے۔ |