نجات کی تلاش میں بھٹکتی انسانیت!

موجودہ دور سائنسی دور کے نا م سے موسوم کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسا دور جہاں سائنس کے ذریعہ ہر چیز کو ثابت کیا گیا ہو کہ آیا وہ اپنے وجود کے اعتبار سے موجود ہے بھی یا نہیں۔وہیں اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ ہر وہ چیز جو تجربہ گاہ سے گزر تے ہوئے نتائج اخذ کرے سائنسی بنیادوں پر کھری اور کھوٹی میں فرق واضح کرتی ہے۔ان دو مفروضوں کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ جس چیز کو ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اپنا وجود رکھتی ہو ساتھ ہی اس کو تجربہ گاہ سے گزارنے کے مواقع بھی میسر ہوں۔برخلاف اس کے اگر یہ دو اعمال کسی چیز کے تعلق سے پورے نہ ہوتے ہوں تو اس کے وجود ہی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ایسے میں نہ اُسے تسلیم کیا جاتاہے اور نہ ہی اُس کا اعتبار ہوتا ہے۔پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا کہ وہ اپنے آپ میں موجود ہے بھی یا نہیں؟متذکرہ جدید سائنسی نظریہ کی بنا پر جب بات آگے بڑھتی ہے تو خدا کے وجود پر سوال اٹھائے جاتے ہیں نیز آخرت،جنت ،دوزخ اورفرشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ان تمام عقائد کوجو غیب پر مبنی ہیں عقلی بنیادوں پر کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور ثابت کرنے والے جس نظریہ پر قائم ہیں اسے نہ صرف یہ کہ خود حتمی سمجھتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس پر قائل کرنے میں زور صرف کرتے ہیں۔جدید سائنسی نظریہ پر یقین رکھنے والوں کا ایک دوسرا دلچسپ پہلو انفرادی اور اجتماعی ہر دوسطح پر یہ سامنے آتا ہے کہ معاشرتی معاملات میں وہ کسی نہ کسی سماجی روایت پر عمل پیرا ضرورہوتے ہیں۔گرچہ وہ سائنسی نظریہ پر یقین رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ جس سماج کا حصہ ہوتے ہیں، انہیں عقائد و نظریات پر مشتمل نظام کو وہ اختیار کرتے ہیں۔خصوصاً خاندانی نظام کو چلانے اور برقرار رکھنے والے معاملات میں،جیسے شادی بیاہ،موت و حیات وغیرہ ۔ایسے متضاد فکر و نظر یہ اور عمل کے حامل افراد و گروہ،جو ایک جانب خدا کے وجود کے منکر بھی ہیں وہیں دوسری جانب کسی نہ کسی مافوق الفطرت نظام کے قائل بھی،جب معاشرہ اور نظام تشکیل دیتے ہیں، تو اس میں ایسی بے شمار بڑی غلطیاں موجود ہوتی ہیں،جن کی موجودگی میں قائم ہونے والا نظام و معاشرہ ،انفرادی و اجتماعی ہر دوسطح پر سکون و اطمینان کی بجائے بے چینی، بے قراری، تذبذب، کرب، تشویش، گھبراہٹ، پریشانی، بوکھلاہٹ اور اضطراب میں مبتلا ہوتا ہے۔لہذا اس بے چینی اور اضطراب کے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں وہ مزید معاشرہ اور نظام کو بدصورت شکل میں پیش کرتے ہیں۔ٹھیک یہی معاملہ ان افراد، گروہ اوراقوام کا بھی ہوتا ہے جو اپنے خالق حقیقی کو پہنچانتے میں غلطی پر ہیں اور حقیقی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں۔نتیجہ میں یہ بھی اور وہ بھی ،اُن تمام غیر فطری طریقوں کو اختیار کرتے ہیں جو ان کو نجات دلانے کا دم بھرتے ہوں۔

ابتدائی گفتگو کے پس منظر میں آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر دور میں انسان سکون کا طالب رہا ہے۔اگر ایک جانب وہ دنیا میں مسائل سے نجات چاہتا ہے تو مرنے کے بعد کی زندگی کے تعلق سے بھی وہ نجات کا شوق اپنے دل میں بسائے پھرتا ہے۔ان حالات میں جب حق اس پر واضح نہیں ہوتا اور سچے افراداسے نہیں ملتے تو وہ ہر اُس انسان کو سچا سمجھ بیٹھتا ہے جو سچائی کا دعویٰ کرے اور اس کے دسترس میں ہو۔پس یہیں سے ان جھوٹے خدائی ٹھیکے داروں کی دکانیں چمکتی ہیں ،جن کے چرچے ہم پوری دنیا میں اور خصوصاًوطن عزیز ہندوستان میں وقتاً فوقتاً سنتے رہتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ آج سے چند دن قبل ایک ڈھونگی بابا کا سامنے آیا ہے جس پر 2013سے عصمت دری کا مقدمہ درج ہوا تھا۔گزشتہ25؍اپریل2018 کو اس ڈھونگی باباکو جودھپور کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔31 ؍اگست 2013 میں اس بابا کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کو جودھپور لے جایا گیا اور وہیں مقدمہ چلا ۔ اس بابا کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 342، 376، 504 اور 509 کے تحت مقدمہ درج ہے۔اس کے علاوہ پاکسو کی دفعہ 8 اورJuvenile Justice (Care and Protection of Children) Actکی دفعہ 23 اور 26 کے تحت مقدمہ درج کیاگیا ۔بابا پر گجرات کے سورت میں بھی عصمت دری کا ایک الزام ہے۔ وہاں دو لڑکیوں نے اس بابا اور اس کے بیٹے کے خلاف عصمت دری اوربندی بناکر رکھنے کا الزام لگایا ہے۔

بابا آسارام کی پیدائش 17 اپریل 1941 برطانوی ہند کے نواب شاہ ضلع کے بیرانی گاؤں میں ہوئی، جو اب پاکستان میں ہے۔ ان کی ماں کا نام مہنگی با اور والد کا نام تاؤمل سیروملانی تھا۔1947میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت خاندان کے تمام لوگ ہندوستان کی ریاست گجرات کے احمد آباد میں مقیم ہوئے۔ احمد آباد آنے کے بعد روزی روٹی کے لیے تاؤمل نے لکڑی اور کوئلے کا کاروبار شروع کیا۔ حالات میں بہتری آنے پر شکر کا کاروبار بھی کیا۔والد کے انتقال کے بعد، اسومل نے اپنی ماں سے دھیان اور روحانیت کی تعلیم حاصل کی ورگھر چھوڑ ملک گھومنے نکل پڑے۔ گھومتے پھرتے وہ سوامی شری لال جی مہاراج کے آشرم، ورنداون پہنچے ۔ورنداون میں گرو سے سند علمیت لینے کے بعد اسومل نے اپنا نام بدل کر آسارام باپو رکھ لیا اور گھوم گھوم کر روحانی گفتگو کے ساتھ ساتھ خود بھی تربیت دینے لگے۔ اگست 2012میں گودھرا کے قریب ان کا ہیلی کاپٹر کریش ہو گیا جس میں اتفاق سے آسارام اور پائلٹ سمیت تمام مسافر محفوظ بچ گئے۔اگرچہ اس حادثے میں تمام کا بچ جانا محض ایک اتفاق تھا لیکن ان کے معتقدین نے اسے باپو کا معجزہ مان لیا۔ اس کے بعد ان کے ست سنگ میں شامل ہونے والوں کی تعداد دن دونی رات چوگنی ہوتی چلی گئی۔اگست 2013 میں آسارام کے اوپر جودھپور میں ان ہی کے آشرم میں ایک شوڈشیی (سولہ سال کی) کنواری لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر غیر معمولی بدسلوکی کے الزام لگے۔دو دن بعد اس نابالغ لڑکی کے والد نے دہلی جاکر پولیس میں اس سانحہ کی رپورٹ درج کرائی۔ پولیس نے عصمت دری سے متاثرہ کا طبی معائنہ کرایا اور جب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ رپورٹ جھوٹی نہیں ہے تب اس نے لڑکی کے قلمبند بیان کو لے کر سارا معاملہ راجستھان پولس کو منتقل کر دیا۔آخر کار یکم ستمبر 2013راجستھان پولیس نے آسارام کو گرفتار کیا اور ہوائی جہاز کے ذریعے جودھپور لے گئی۔آسارام نے نابالغ لڑکی کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس وقت کی مرکز میں حکمران کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہل گاندھی پر ہی ان کے خلاف سازش رچنے کا الزام لگا دیا۔لیکن مقدمہ چلتا رہا یہاں تک کہ آسارام کا جھوٹ کھل کے سامنے آگیا،الزام لگانے والی لڑکی جس کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی اس کی بات سچ ثابت ہوئی اور آسارام کو جودھپور کی عدالت نے عمر قید کی سزاسنائی ۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر لوگ ان باباؤں کے پاس جاتے کیوں ہیں؟وہیں سوال یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیڈران ان باباؤں کے پاس کیوں جاتے ہیں؟عام خیال یہ ہے کہ لوگ باباؤں کے پاس اس لیے جاتے ہیں کہ ہماری ذاتی زندگی کے مسائل حل ہوں اور سکون قلب حاصل ہو،ساتھ ہی وہ تمام مادی ضرورتیں پوری ہوں جو مطلوب ہیں۔گرچہ یہ مادی وسائل فراہم کرنا حکومتوں کا کام ہے لیکن جب یہ مادی ضرورتیں حکومتوں کی جانب سے پوری نہیں ہوتیں تو ایک جانب سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ان باباؤں کے ارد گرد جمع بھیڑ کو بطور ووٹر استعمال کرنے کے لیے باباؤں کے تلوے چھوتے ہیں تو وہیں عام لوگ بھی ان مذہبی گروؤں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ،جو خود اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہر ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔لہذا ایک عام انسان ان باباؤں کا رخ کرتا ہیاور پھر جس درجہ وہ ان باباؤں سے عقیدت رکھتا ہے ،یہ بابا بھی اسی درجہ عقدیت کی آڑ میں لوگوں کا استحصال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔اس درمیان ایک بڑی تعداد ان باباؤں کی ہوتی ہے جو ڈھونگی ہوتے ہیں اور چونکہ وہ ڈھونگ کے سہارے ہی اپنی اور دوسروں کی نیا پارکرنا اور کرانا چاہتے ہیں لہذا اخلاقی پابندیوں سے ہٹ کے وہ ہر اس طریقہ کو اختیار کرتے ہیں جس سے وہ لطف اندوز ہوسکیں۔یہی وجہ ہے کہ رام رحیم کے ڈیرے میں جو لڑکیوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی تھیں اسے عصمت دری نہیں بلکہ 'پتا جی کی معافی' کہا جاتا تھا ۔اسی طرح آسارام رام کے یہاں 'سمرپن 'کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ان دردناک ،عبرتناک اور تکلیف دہ حالات میں ہم تمام کے سامنے خوبصورت الفاظ کے سہارے بدترین کام انجام دیے جارہے ہیں ،وہیں دنیا سکون اور نجات کی تلاش میں بھٹک رہی ہے ۔اس کے باوجود ہم حقیقی تعلیمات رکھنے والے خواب خرگوش میں مست ہیں یا پھر ہم پر بھی دنیا سمیٹنے کی دھن سوار ہیں۔۔۔۔(جاری)۔

Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 145762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.