ایک ضرب عضب اور ازخود نوٹس جنسی دہشتگردوں کے لیے بھی

قصور کی معصوم بچی زینب کی ساتھ جنسی زیادتی اور اس بعد دردناک قتل نے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے لوگوں کے دلوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ چھ سالہ زینب انصاری جو اللہ کی عظیم کتاب قرآن سیکھنے جا رہی تھی۔ 4 جنوری،2017 کو شام کے وقت اغوا کیا گیا۔ ننھی کلی کی میت 9 جنوری اسی کے اپنے ہی گھر کے پاس ایک کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ وہ صبح پاکستان کی تاریخ میں انسانیت کی تاریک صبح تھی۔ایک ننھی سی بچی کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنا کر، پھر بھی ظالموں کا دل نہ بھرا تو اسے قتل کر دیا۔ اور ظلم کی انتہا میں اس کی میت کوڑے میں پھینک دی۔ نجانے کتنی معصوم کلیاں زینب کیس سامنے آنے سے پہلے بھی اس شیطاینت کی بھینٹ چڑھتی رہیں۔ اس دن پاکستان کے ہر شہری کا دل پھٹنے کو آ رہا تھا۔ ہر چہرے پر ایک شرمندگی، ندامت اور غصہ تھا۔ جیسے ہر شخص کا چہرہ کہہ رہا ہو کہ، زینب ہم سب تمہارے قاتل ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو نہیں بچا سکتے۔ یہ تو ایک المناک واقعہ تھا جس نے پاکستانیوں کو اندر تک جھنجوڑا۔ زینب کا قاتل چونکہ اب پکڑا گیا ہے اور اپنے انجام کو بھی پہنچے گا۔ اس کا نام لینا بھی میں زینب نام کی توہین سمجھتی ہوں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب کا شروع ہو چکا تھا۔ اور ابھی تک چل رہا ہے۔ گو کہ میرے دیس کے بچے اب محفوظ نہیں رہے۔ جن سے وہ محفوظ نہیں وہ بھی میرے ہی دیس کے لوگ ہیں۔ زینب کیس سامنے آنے کے بعد پتہ چلا جی، کہ گیارہ مزید بچیوں کے کیس پہلے سے پولیس کو رپورٹ کیے جا چکے تھے۔ مگر اس ملک کی پولیس کا حال تو ایک ایک پاکستانی کو پتہ ہے اس بارے میں الفاظ ضائع کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔ قصور کو بابا بلھے شاہ کی دھرتی کہا جاتا ہے۔ وہ بلھے شاہ جنہوں نے اپنے علم سے روشن دیے جلاے۔ اسی قصور شہر میں کتنے ننھے اور معصوم بچوں کو نوچ نوچ کر قتل کیا جاتا رہا، ان کی زندگیوں سے کھیلا جاتا رہا۔ عجیب سا لگتا ہے کہ ریاست اور عدالتوں کا رخ اس معاملے کی طرف کیوں نہیں جاتا؟ اتنی بے حسی تو کافروں کے ملکوں میں بھی نہیں ہوتی جتنی یہ مسلمان ریاست دیکھا رہی ہے۔ قصور میں 2014-2015 میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے واقعات کا ایک بہت بڑا اسکینڈل سامنے آیا۔ جس میں 12 بچیوں کا قتل ہوا، سب کی عمریں پانچ سے آٹھ سال کی تھیں۔ ایک نجی این۔جی۔او ساحل جو بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے، اس کے مطابق بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے 1،764 کیس سال 2017 کے شروع میں رپورٹ ہوے۔ ادارے کے مطابق 2017 میں صرف پنجاب میں 62% جنسی ہراساں کے کیس رپورٹ ہوئے۔

ساحل این۔جی۔او کے مطابق جنوری 2017 سے جون تک پنجاب میں 62%، سندھ 27%، 76، 58, 42 اور نو کیس بلوچستان، فاٹا، کے۔پی۔کے اور آزاد جموں کشمیر سے رپورٹ ہوے۔ جس میں 74% دیہی علاقوں سے جب کہ 2016 میں شہری علاقوں میں ایسے واقعات میں 10% اضافہ ہوا۔

ظلم کی داستان دیکھیے یہ کام بھی نجی ادارے کر رہے ہیں۔ جو کام ریاست کے کرنے کے ہیں وہاں نجی این۔جی۔اوز کر رہی ہیں۔

اس صدی میں جہاں ہم نے ترقی کی منازل تہہ کی ہیں وہاں ہم انسانیت کو بھی مات دے چکے ہیں۔ اب ایک سوالیہ نشان یہ ہے کہ ان تمام کیسوں میں کتنے جنسی درندوں کی جانچ پڑتال ہوئی۔ کتنے اپنے انجام کو پہنچے؟ جن بچوں کی میتیں کوڑے کچرے کے ڈھیروں سے ملیں۔ ان کے مجرم کہاں ہیں؟ میں تو کہتی ہوں کہ پاکستان میں ایک ایمرجنسی لگا دینی چاہیے۔ ملک گیر آپریشن ہونے چاہیے۔ آرمی ایک ضرب عضب آپریشن جنسی درندوں کے لیے بھی شروع کرے۔ پکڑ پکڑ کر ان کو سر عام پھانسی پر لٹکایا جاے۔ سر عام پھانسی پر لٹکانے سے یاد آیا اسلامیہ جمہوریہ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر بنا۔ جس کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کے نذرانے دیے۔ اس ملک میں سر عام پھانسی کا کوئی قانون سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک مجرم پکڑا اور دیکھا جا رہا ہے اسے کیسے سزا دی جاے۔ جہاں ملک کے بچے، ملک کا مستقبل، ان کے مجرموں کو سر عام پھانسی کا قانوں بنانے میں جھجک محسوس ہوتی ہو تو میرے خیال سے اس ملک کو پھر اللہ ہی سنبھال سکتا ہے۔ اس ریاست کے ادارے تو بری طرح مفلوج ہو چکے ہیں۔ سنا ہے آرمی نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ سنا ہے چیف جسٹس آف پاکستان نثار ثاقب اوپر سے لے کر نیچے تک، ہر ایک بڑی مگر مچھ اور چھوٹی مچلیوں کو پکڑ رہے ہیں۔ قانوں کے کٹہرے میں لا رہے ہیں۔ کیوں نا ان کو ایک پیغام دیا جاے، کہ خدارا چیف جسٹس صاحب! اس ملک کے بچوں پر ترس کھائیں اور ان کو انصاف دلائیں۔ خدارا چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ! اس ملک کے بچوں کی حفاظت کے لیے فوج مختص کریں۔ ریاستی اور صوبائی ادارے صرف ایک عمران کو پکڑ کر تالیاں بجاتے رہے اور یہ بھول گئے کہ اگر آج زینب کے ساتھ یہ ہوا ہے تو کل کو کسی اور بچی کے ساتھ بھی ہو گا۔ قصور اسکینڈل چھپانے والی حکومت ہمارے بچوں کو کیا خاک حفاظت دے گی؟ قصور کے وہ ڈھائی سو بچے اس ملک کو کیسے معاف کریں گے؟ ان میں بہت سے بچے آج بھی رو رو کر دہائی دیتے ہیں ہماری زندگیاں برباد ہو گئیں ہیں۔ چیف جسٹس صاحب! آپ کیوں ان بچوں کے پاس نہیں جاتے؟ چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ! آپ کیوں نہیں ان بچوں کے سر ہر ہاتھ رکھتے؟ کیا ایک ایٹمی ملک اپنے بچوں کو تحفظ نہیں دے سکتا؟ کیا بچوں کے تحفظ کا کوئی قانونی ادارہ نہیں بن سکتا؟ جو ان کے مجرموں کو۔فوراً تختہ دار تک لے جاے۔ کیا ضیا الحق اتنے ظالم تھے کہ انہوں نے ایک پاکستانی بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو سر عام پھانسی دینے کا حکم دیا اور باقیوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟ کیا انسانیت واپس آ سکتی ہے؟ اللہ فرشتے ہی بھیج دے اس ملک میں، تیری جنت کے پھول خطرے میں ہیں۔

جناب چیف جسٹس صاحب! ایک ازخود نوٹس جنسی درندوں کے خاتمے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ جناب آرمی چیف صاحب! ذرا ایک ضرب عضب ان جنسی دہشتگردوں کی طرف بھی ہونا چاہیے۔
 

Fauzia Wali
About the Author: Fauzia Wali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.