تحریر: عالیہ ذوالقرنین، لاہور
اﷲ کریم نے انسان کو تخلیق کیا اور اسے ’’احسن التقویم‘‘ کے درجے پر فائز
کیا- لیکن کیا ہم جانتے ہیں کہ اس درجے تک پہنچنے کی پہلی سیڑھی یا پہلے
قدم کا انحصار صرف اور صرف اپنے خیالات اور سوچ کو معاشرے، لوگوں اور رویوں
کے بارے میں مثبت رکھنا ہے - اس دنیا میں جتنا اہم ہمارا عمل ہے، اس سے
کہیں زیادہ اہم ہمارے سوچنے کا انداز ہے۔ زندگی کا ہر اطمینان اور خوشی
مثبت انداز فکر میں پوشیدہ ہے۔ جس شخص کے پاس مثبت سوچ کا سرمایہ نہیں اس
کا کوئی عمل اسے خوشی اور کامیابی نہیں دے سکتا۔
چند دن پہلے نظر سے ایک واقعہ گزرا میرا خیال ہے کہ اس کا یہاں ذکر کرنا
مجھے میری بات سمجھانے میں آسانی پیدا کرے گا ’’ایک شخص نے اپنے مطالعے کے
کمرے میں قلم اٹھایا اور ایک کاغذ پر لکھا:
٭ گزشتہ سال میں ، میرا آپریشن ہوا اور پتا نکال دیا گیا، بڑھاپے میں ہونے
والے اس آپریشن کی وجہ سے مجھے کئی ہفتے تک بستر کا ہو کر رہنا پڑا۔ ٭ اسی
سال میں ہی میری عمر ساٹھ سال ہوئی اور مجھے اپنی پسندیدہ اور اہم ترین
ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ میں نے نشر و اشاعت کے اس ادارے میں اپنی زندگی
کے تیس قیمتی سال گزارے تھے۔ ٭ اسی سال ہی مجھے اپنے والد صاحب کی وفات کا
صدمہ اٹھانا پڑا۔ ٭ اسی سال میں ہی میرا بیٹا اپنے میڈیکل کے امتحان میں
فیل ہو گیا، وجہ اس کی کار کا حادثہ تھا جس میں زخمی ہو کر اْسے کئی ماہ تک
پلستر کرا کر گھر میں رہنا پڑا، کار کا تباہ ہوجانا علیحدہ سے نقصان تھا۔
صفحے کے نیچے اس نے لکھا، آہ، کیا ہی برا سال تھا یہ! مصنف کی بیوی کمرے
میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس کا خاوند غمزدہ چہرے کے ساتھ خاموش بیٹھا
خلاؤں کو گھور رہا تھا۔ اس نے خاوند کی پشت کے پیچھے کھڑے کھڑے ہی کاغذ پر
یہ سب کچھ لکھا دیکھ لیا۔ خاوند کو اس کے حال میں چھوڑ کر خاموشی سے باہر
نکل گئی۔ کچھ دیر کے بعد واپس اسی کمرے میں لوٹی تو اس نے ایک کاغذ تھام
رکھا تھا جسے لا کر اس نے خاموشی سے خاوند کے لکھے کاغذ کے برابر میں رکھ
دیا۔ خاوند نے کاغذ کو دیکھا تو اس پر لکھا تھا۔
٭ اس گزشتہ سال میں آخر کار مجھے اپنے پتے کے درد سے نجات مل گئی جس سے میں
سالوں کرب میں مبتلا رہا تھا۔٭ میں اپنی پوری صحت مندی اور سلامتی کے ساتھ
ساٹھ سال کا ہو گیا۔ سالوں کی ریاضت کے بعد مجھے اپنی ملازمت سے ریٹائرمنٹ
ملی ہے تو میں مکمل یکسوئی اور راحت کے ساتھ اپنے وقت کو کچھ بہتر لکھنے
کیلئے استعمال کر سکوں گا۔٭ اسی سال ہی میرے والد صاحب پچاسی سال کی عمر
میں بغیر کسی پر بوجھ بنے اور بغیر کسی بڑی تکلیف اور درد کے آرام کے ساتھ
اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ٭ اسی سال ہی اﷲ تعالیٰ نے میرے بیٹے کو ایک
نئی زندگی عطا فرما دی اور ایسے حادثے میں جس میں فولادی کار تباہ ہو گئی
تھی ، میرا بیٹا کسی معذوری سے بچ کر زندہ و سلامت رہا۔ آخر میں مصنف کی
بیوی نے یہ فقرہ لکھا ۔ واہ ایسا سال، جسے اﷲ نے رحمت بنا کر بھیجا اور
بخیرو خوبی گزرا۔
ذرا غور کیجئے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی ہیں مگر بالکل وہی حوادث اور
بالکل وہی احوال مگر نقطہ نظر کے انداز نے معاملات کو بالکل الگ کر دیا ۔
آئیے اب ذرا مثبت انداز فکر کے نتائج اور منفی سوچ کے نقصانات کا جائزہ
لیتے ہیں۔ مثبت انداز فکر سے لامتناہی خیالات پیدا ہوتے ہیں منفی سے
لامتناہی بہانے۔ مثبت دوسروں کی مدد جبکہ منفی دوسروں کی طرف سے مددکی امید
رہتی ہے۔ مثبت سے ہر مسئلے کے لیے کوئی نہ کوئی حل دکھتا ہے۔منفی سے ہر حل
میں کوئی نہ کوئی مسئلہ دکھتا ہے۔ مثبت انداز فکر حل مشکل لیکن ممکن،منفی
حل ممکن ہے لیکن مشکل کا کلیہ سمجھاتا ہے۔
مثبت کامیابی ایک احتساب ہے،منفی کامیابی ایک وعدہ، ضمانت ہے۔مثبت انداز
فکر خواب کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ منفی انداز فکر مایوسی سے چھٹکارا حاصل
کرنے کی ضرورت ہے۔ مثبت انداز فکر دوسروں کے ساتھ ایسابرتاؤ جیسا برتاؤ
دوسروں سے چاہتا ہے۔منفی انداز فکر دوسروں کو دھوکا اس سے پہلے دوسرے دھوکا
دیں۔ مثبت انداز فکر کام میں کامیابی دیکھتا ہے۔منفی انداز فکر کام میں درد
/ تکلیف دیکھتا ہے۔ مثبت انداز فکر مستقبل میں امکانات دیکھتا ہے۔منفی
انداز فکر مستقبل میں ناممکنات دیکھتا ہے۔ مثبت انداز فکر بولنے سے پہلے
سوچتا ہے۔ منفی انداز فکر بولنے کے بعد سوچتا ہے۔ مثبت انداز فکر نرم زبان
کے ساتھ مضبوط بحث۔ منفی انداز فکر مضبوط زبان کے ساتھ نرم بحث۔ مثبت انداز
فکر اقدار کو معمولی تکرار/جھگڑوں پر ترجیح دینا۔ منفی انداز فکر معمولی
تکرار/جھگڑوں کو اقدار پر ترجیح دینا۔ مثبت انداز فکر واقعات کو تشکیل دیتا
ہے۔ منفی انداز فکر واقعات سے تشکیل پاتا ہے۔
آئیے ہم اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ آئندہ ہر بات کا صرف مثبت پہلو سامنے رکھ
کر اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے۔
|