پہلا رُخ تو سب کے سامنے آئینہ ہو چکا، نجی سکولوں
کے متاثرین کی درخواستوں پر اعلیٰ عدالتیں اپنے فیصلے صادر کر چکیں۔ گرمیوں
کی چھٹیوں کی فیس کا تنازع دو تین برس قبل ہی کُھل کر سامنے آیا۔ پرائیویٹ
سکولوں کی لوٹ مار وغیرہ کے قصے تو بہت پرانے ہیں، جن لوگوں کے بچے اِن
سکولوں میں زیر تعلیم ہیں وہ کسی نہ کسی مقام پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے
رہتے ہیں۔، بہت سے لوگ اپنے سکول کے تعلیمی معیار سے مطمئن ہوتے ہیں، مگر
وہاں کی فیسوں کے انداز سے اختلاف رکھتے ہیں۔بلا شبہ بہت سے سکول مختلف
حیلوں سے والدین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، اول تو اُن کی فیسیں کمر توڑ
قسم کی ہوتی ہیں، اوپر سے مختلف مدّات کے نام پر فیس وصول کی جاتی ہے،
ڈونیشن کے نام پر بھی ہزاروں روپے دھر لئے جاتے ہیں، مہنگے سلیبس کے ساتھ
ساتھ سکول سے متعلقہ بہت سی اشیاء کے لئے دوکانیں مقرر ہیں، (یہ کام ڈسپلن
کے لئے کسی حد تک ضروری ہے) ان سے کمیشن وصول کیا جاتا ہے، جس سے دکاندار
والدین کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ بڑے شہروں میں ایسے سکول بھی
ہیں جو ڈالروں میں فیس وصول کرتے ہیں، بعض سکولوں میں فیس ماہانہ کی بجائے
سہ ماہی یا کچھ مہینوں کی اکٹھی لی جاتی ہے۔ دوسری طرف امیر والدین مہنگے
سکولوں میں بچے داخل کروانا اپنی شان تصور کرتے ہیں۔
والدین کی جیب پر ہزاروں روپے کا بوجھ پڑتا ہے تو اُن کی چیخیں نکل جاتی
ہیں، تعلیمی سال کے آغاز میں کتابوں، یونیفارم، بیگ وغیرہ پر اخراجات اٹھتے
ہیں تو دو تین ماہ بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں تین ماہ کی اکٹھی فیس کا
معاملہ سر پر آجاتا ہے۔ والدین پہلا خرچہ تو کرتے ہیں، مگر چھٹیوں کے موقع
پر انہوں نے عدالت کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ کیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ
عدالت نے سکولوں کو تین ماہ کی اکٹھی فیس لینے سے منع کردیا۔ ایک خیال یہ
بھی ظاہر کیا گیا کہ عدالت نے چھٹیوں کی فیس سرے سے ختم کردی ہے، جس سے
فریقین میں نئی کشمکش شروع ہوگئی۔ ہر کوئی اپنا اپنا مطلب نکالنے کے لئے
عدالت کے فیصلے کی نقل اٹھائے پھرتا ہے۔ ماحول میں تناؤ اور کشیدگی پائی
جاتی ہے۔والدین کا موقف ہے کہ جب چھٹیوں میں بچے سکول جاتے نہیں تو فیس
کیسی؟ سکول والوں کا کہنا یہ ہے کہ اول تو فیس سال بھر کی طے ہوتی ہے نہ کہ
پڑھائی والے دنوں کی، اگر یہ سلسلہ دیہاڑی داری کا ہے تو چھٹیاں تو اور بھی
بہت سی ہوتی ہیں۔ ویسے بھی جن سکولوں کی عمارات کرایہ پر ہیں، اور ان میں
سے بہت سے لوگوں کے گھر بھی ذاتی نہیں ہیں، ان کا روز گار یہی سکول ہی ہے،
اساتذہ کو چھٹیوں کی تنخواہ بھی دینی ہے، (اب سکولوں کی اکثریت اساتذہ کو
چھٹیوں کی تنخواہ ادا کرتی ہے) بجلی کے بل بھی آنے ہیں، چھٹیوں کے اختتام
پر کچھ تعمیر و مرمت وغیرہ پر بھی اخراجات اٹھتے ہیں، تو یہ تمام اخراجات
کہاں سے پورے کئے جائیں؟
دراصل الجھن کی صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب ایک دوسرے کے بارے میں
غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ بڑے سکولوں والے بہت حد تک ’لوٹ مار‘ میں ملوث
ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس وہی والدین آتے ہیں، جن کی جیب گرم ہے۔ مگر
یہاں ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی
اکثریت کم فیس اور کم وسائل پر مشتمل ہے۔ ان کی عمارتیں کرایہ پر ہیں، ان
کی آمدنی محدود ہے، یعنی بچت اس قدر نہیں کہ وہ دو ماہ کے کرائے بھر سکیں
اور اساتذہ کی تنخواہ بھی اپنے پلّے سے دے سکیں، اور اپنا گھر بھی چلا سکیں۔
ان کا ہر مہینہ ’’تازہ کمائی‘‘ والا ہوتا ہے، بچتوں کی کہانیاں نہیں ہوتیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ سکولوں کی بھاری اکثریت فیس کے کسی تعطل کی بنا پر اپنا
سفرِ زیست چند روز بھی جاری نہیں رکھ سکتی تو بے جا نہ ہوگا۔ حتیٰ کہ دو
ڈھائی ہزار روپے فیس لینے والے سکول بھی اپنی بقا کی جنگ ہی لڑ رہے ہوتے
ہیں، یا یوں کہیے کہ بس اپنا سلسلہ شب وروز جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو
سکول مالک ہر ماہ کے آخر میں دامن خالی کر بیٹھتا ہے، اسے چھٹیوں میں
لاکھوں روپے بھرنے پڑیں گے تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔ عدالت (اور حکومت)
کا یہ حکم فطری طور پر قابلِ قبول ہے کہ تین ماہ کی اکٹھی فیس وصول نہ کی
جائے تاکہ والدین پر بے جا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ
چھٹیوں میں فیس دینے بہت ہی کم لوگ آتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام
درمیانے سکولوں والوں کے لاکھوں روپے فیس کی مد میں بقایا جات موجود ہیں ،
بہت سے لوگ کئی ماہ فیس نہیں دیتے ، زیادہ تقاضا کرنے پر کسی اور سکول کا
انتخاب کر لیتے ہیں۔
والدین اور سکول والوں کا فیس کے معاملے میں ٹکراؤ عجیب ہے، والدین بچہ
سکول میں داخل کرواتے وقت تمام قواعدو ضوابط سے آگاہ تو ہوتے ہی ہیں، ایسے
سکول میں بچے کیوں داخل کرواتے ہیں جہاں ان کی مالی یا اخلاقی ہم آہنگی
نہیں ہوتی؟ سکول سے آخر کسی خاندان کا روز گار بھی وابستہ ہوتا ہے، اس لئے
اسے کاروبار تو کہا ہی جائے گا، مگر جب اپنی قوم مہنگے پھلوں اور مہنگے چکن
کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں تو مہنگے اور لوٹ مار کرنے والے سکولوں کا کیوں
نہیں؟ انسان کا پورا کاروبارِ زندگی اپنی جیب کو دیکھ کر ہی چلتا ہے، تو
سکول بھی ایسے کا انتخاب ہونا چاہیے، جو اپنی مالی حالت سے مطابقت رکھتا
ہو۔ پرائیویٹ سکولوں اور بچوں کے والدین کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے،
محاذ آرائی کا ماحول گرم ہوتا جارہا ہے، ایک دوسرے کے خلاف منصوبہ بندیاں
ہو رہی ہیں، استاد کے احترام کا تصور نفرتوں میں تحلیل ہو چکا ہے، ’’میرا
سکول‘‘ کا تاثر اپنا وجود کھو چکا ہے، سکول اور اپنے استاد پر فخر کا زمانہ
لد چکا ہے۔ اب گھروں میں سکول والوں کے خلاف منصوبہ بندی ہو رہی ہوتی ہے،
جس سے بچے کے ذہن میں بھی نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ
شِیر وشکر ہو کر کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کو مخالف فریق تصور کرکے
تعلیمی سلسلہ جاری رکھا جا رہا ہے۔ اب والدین سکول کی کسی بھی کمزوری کو
برداشت نہیں کرتے،جہاں اخلاق اور اصلاح سے کام چلایا جاسکتا ہے، اب والدین
لڑنے ، الجھنے ، دھمکیاں دینے سکول جاتے ہیں۔ بات بات پر سکول کے خلاف
درخواستیں گزارتے ہیں۔بہرحال نہ سکول بچوں کے بغیر چلتے ہیں اور نہ بچوں کا
سکول کے بغیر گزارہ ہے، اس لئے سکول والوں اور والدین کو ایک دوسرے کی
مخالفت میں محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے کام
کرنا چاہیے۔ سکول اضافی لوٹ مار سے گریز کریں اور والدین چھٹیوں کا ایشو
اتنا نہ بڑھائیں کہ سکول چلانا ہی ناممکن ہو جائے، (کیونکہ تمام سکول برابر
نہیں) مل کر چلنے میں دونوں کی بہتری ہے۔ |