بے شرمی اور جھوٹ کی بھی انتہا ہوتی ہیں لیکن یہ جھوٹ اور
بے شرمی رمضان المبارک میں عروج پر ہیں جس کا شکار خیبر پختونخوا کے عوام
ہیں کسی زمانے میں انٹرویوز میں سیاستدان اتنے دھڑلے سے جھوٹ بولتے تھے اور
پھر سالوں بعد ان کے جھوٹ کا پتہ چلتا تھااس وقت کچھ شرم اور حیاء کا دور
تھاسو سیاستدان معافیاں اپنے حلقوں میں جاتے ہوئے ووٹرز سے مانگتے . اب تو
ماشاء اللہ ہمارے خیبر پختونخوا میں اتنی تبدیلی آگئی ہیں کہ بے شرمی اور
جھوٹ پر فخر کرتے ہیں اور پھر اسے اپنے چہرہ کتاب ) فیس بک( پر ڈالتے بھی
ہیں . اس کے ساتھ اتنی تبدیلی یہاں بھی آگئی ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ
ضلعی اور انتظامی افسران بھی جھوٹ کی غلاظت کو اتنے خوبصورت ورق میں پیش
کرکے اپنا کام نکالتے ہیں کہ کبھی کبھار ہمیں بطور صحافی بھی شرم آتی ہے کہ
یہ تو صحافیوں سے بھی دو ہاتھ جھوٹ میں آگے ہیں .
رمضان المبارک کی آمد کیساتھ پورے ملک میں سستا بازار لگانے کا سلسلہ شروع
کیا جاتا ہے لیکن مجال ہے جو پشاور سمیت صوبے کے کسی بھی علاقے میں گذشتہ
تین سالوں سے کوئی سستا بازار لگا ہو.مزے کی بات تو یہ ہے کہ بلدیاتی
انتخابات کے آغاز میں نئے بننے والے بلدیاتی نمائندوں نے ہل جل کی تھی اور
شہریوں کو کچھ چیزیں سستی ملتی تھی لیکن اب تو ماشاء اللہ کچھ بھی نہیں.ہاں
چیکنگ کرنے والے فوڈ انسپکٹرز بھی ہیں قیمتیں چیک کرنے والے پرائس کمیٹیاں
بھی ہیں جن کی تنخواہیں اس صوبے کے غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کرتے ہیں
لیکن کام ان سے دو ٹکے کا نہیں لیا جاتا نہ ہی عوام کے ٹکڑوں پر پلنے والے
یہ حرام خور سرکاری افسران اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں کہ کہیں پر جا کر
قیمتیں چیک کریں ، مہنگائی کے بارے میں عوام سے پوچھیں لیکن مجال ہے کہ یہ
لوگ اپنے ائیر کنڈیشنر دفاتر سے نکل آئیں انکے روئیوں سے لگتا ہے کہ ان کے
پاؤں پر مہندی لگی ہوتی ہیں جس کے اترنے کا خطرہ ہوتا ہے تبھی یہ لوگ اپنے
دفاتر سے نہیں نکلتے.
رمضان المبارک کے آغاز میں خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور میں ضلعی
انتظامیہ نے سستا بازار کے بجائے یہ لارا لگا کر بس کی بتی کے پیچھے میڈیا
کو لگا دیا کہ ہم نے ہر بازار میں فیسلٹیشن سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا
اور باقاعدہ میڈیا پر بیانات بھی دئیے کہ ہم ہر دکان پر ہر چیز کی سرکاری
قیمت پر فروخت کویقینی بنائیں گے اور اس کیلئے علیحدہ اہلکاروں کی ڈیوٹیاں
لگائی گئی ہیں مگر رمضان المبارک کا پہلا عشرہ ختم ہونے کوگیا مگر فیسلٹیشن
سنٹر تو دور کی بات ،بازار میں کوئی صاحب دیکھنے کو نہیں ملتا کہ کون
قیمتیں چیک کررہاہے.ضلعی انتظامیہ نے پٹواریوں کی ڈیوٹیاں لگا دی تھی کہ
دوپہر دو بجے کے بعد رات آٹھ بجے تک بازار میں چیک اپ کرینگے یعنی آسان
الفاظ میں تبدیلی کے نام پر تبدیلی لانے والوں نے عوام کو پٹواریوں کے آسرے
پر چھوڑ دیا مگر یہ رمضان المبارک کی برکت ہے یا کچھ اور، پٹواریوں نے اس
معاملے پر ہڑتال کردی اور کہا کہ یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل نہیں اور نہ ہی
ان کیلئے افطاری کا کوئی انتظام کیا جاتا ہے اس لئے ہم یہ ڈیوٹی کرنے سے
قاصر ہے.حالانکہ پٹواری وہ واحد طبقہ ہے جو لوگوں کی جیبوں سے رقم نکالنے
میں ہر وقت کوشاں رہتے ہیں مگر رمضان المبارک میں شائد شیطانوں کی چھٹی پر
ان لوگوں کو بھی خدا یاد آتا ہے اس لئے یہ ڈیوٹی کرنے سے انکاری ہے اور
صوبائی دارالحکومت پشاور میں کہیں پر بھی قیمتیں کنٹرول میں نہیں آرہی.
سب سے مز ے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ میڈیا کو سرخ بتی کے پیچھے لگا کر
انتظامیہ خاموش ہوگئی ہیں اس میں زیادہ تر غلطی ہماری صحافیوں کی بھی ہیں
جو بریکنگ کی چکر میں سٹوری تو دے دیتے ہیں مگر پھر فالو اپ کا کوئی نظام
نہیں اور مارکیٹ میں دیکھنے کیلئے کوئی نہیں جاتا . کہ اعلان تو صاحبان نے
کردیا اب عمل کون کروا بھی رہا ہے یا نہیں . کچھ صحافی حضرات ماہانہ بھتے
کی چکر میں آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور کچھ بھرتیوں اور تعلقات بہتر ہونے کے
چکر میں ضلعی انتظامیہ سے سوال نہیں کرتے اس لئے ضلعی انتظامیہ یہ سوچتی
ہیں کہ سارے بکاؤ مال ہیں.خیر مارکیٹ کی مہنگائی کی طرف آتے ہیں. رمضان
المبارک میں چھاپوں کے نام پر مخصوص لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے اگر
انتظامی افسران روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹوں کا دورہ کریں اور بغیر کسی رو
رعایت کے کارروائی کریں تو پھر ممکن ہے صورتحال بہتر ہوجائے لیکن.کیا کریں
یہ پاپی پیٹ بڑا ہی گندا ہے.
ایک قصائی سے جس کی دکان پر تین سو بیس روپے فی کلو کا گوشت کا نرخنامہ
موجود ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد اس کے دکان سے ساڑھے تین سو میں گوشت لے
رہے تھے بقول ان صاحب کہ ان کی ایسوسی ایشن کے اہلکار انتظامیہ سے ملے ہوتے
ہیں اور سب کچھ میل ملاپ سے ہوتا ہے اگر حکم نہ مانیں تو پھر ہماری ہی
ایسوسی ایشن کے عہدیدار انتظامیہ کیساتھ مل کر ہم پر چھاپے مارتے ہیں اور
جرمانے ہمیں ادا کرنے پڑتے ہیں . اس لئے ہم سب کو خوش رکھتے ہیں انتظامیہ
کی من پسند افسران کے گھروں میں دودھ ، گوشت، چکن اور سبزیاں مفت دیدی جاتی
ہیں جبکہ ان سب چیزوں کا زور عام لوگوں سے نکالتے ہیں.بقول ان کے ریٹس کے
نرخنامے تو ہم نے لگا دئیے ہیں مگر ہم ساڑھے تین سو اور چار میں گوشت فروخت
کرتے ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ کاغذی کاروائی کیلئے بھی انہیں کچھ نہ کچھ
کرنا پڑے گا- |