ہائے امی میں مر گئی۔

کراچی روشنیوں کا شہر۔
شہر قائد
غریب نواز شہر۔
اس شہر میں دہلی کالونی میں رمشا نامی لڑکی کو بہو ہونے کی سزا دی جاتی ہے ۔ شک ہے اس کو سسرال نے اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ اس کی گود میں چار ماہ کا معصوم بچہ بھی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ آٹھویں منزل سے گرتے ہوئے اس نے کیا سوچا ہوگا ؟
اس نے دیوانہ وار کوشش کی ہوگی کہ اس کا جگرگوشہ بچ جائے ۔اس نے اپنی ماں کو یاد کرکے "ہائے امی مر گئی " کی دہائی دی ہوگی ۔اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس کی لو میرج تھی ۔ کیا لو میرج کی قیمت حان سے چکانا پڑتی ہے ؟کیا اس کی ساس کا بیٹا اس کے پیار میں پاگل نہیں ہوا تھا ؟
پوسٹ مارٹم رپورٹ اس پر تشدد کی گواہ ہے اس کی گردن پر رسی کے نشانات بھی ہیں۔ پولیس نے ساس اور دیور کو گرفتار کر لیا ہے ۔مقتولہ کا میاں ملازمت کے لئے بیرون ملک مقیم تھا۔ میرا دل یہ خبر پڑھ کر زار زار رویا میں نے اپنی بیٹی کو بارہا گلے سے لگایا ۔میں خوف و ہراس کے دائرے میں بند ہوں ۔
کیا بیٹیوں کے ماں باپ خراج ادا کرنے کے لئے رہ گئے ہیں؟
رمشا کے آخری الفاظ میرے ذہن میں تو یہی آتے ہیں ۔
ساس میری تو ماں تو نہ بن سکی میری
پر کاش ساس تو بنتی میری ۔
تیرے بیٹے کے سنگ دل لگا کر میں نے اپنا بابل کا انگنا چھوڑا ۔
تیرے ہی وارث کو جنم دیا۔
پھر تو نے مجھے یہ کیسا پھل دیا؟
میں تمام والدین سے ہاتھ جوڑ کر التماس کرتی ہوں خدارا نفرتوں کی فصل مت بوئیں ۔جو بچیاں بہو بن کر آپکی چوکھٹ پر آتی ہیں ۔وہ کسی کے باغ کا پھول ہیں۔کسی کی آنکھ کا تارا ہیں ۔خدارا ان کو گالیاں دیتے وقت اپنی بیٹیوں کے چہرے یاد کرلیں ۔ان کو ایذا دیتے ہوئے سوچیں آپ کی کھیتی ان بہووں کے دم سے ہے ۔قرآن کریم کی وہ آیت یاد کریں
"جس دن دبائی ہوئی بیٹی پوچھے گئی کہ میرا قصور کیا تھا؟"
یہ بہوئیں بھی بیٹیاں ہیں ۔کاش اگر سمجھیں تو۔۔

 

Mona Shehzad
About the Author: Mona Shehzad Read More Articles by Mona Shehzad: 168 Articles with 281088 views I used to write with my maiden name during my student life. After marriage we came to Canada, I got occupied in making and bringing up of my family. .. View More