زمانہ خیر القرون میں صحابہ کرام و تابعین عظام میں رمضان
المبارک کے مقدس اور بابرکت دنوں میں جس طرح دن بھر روزہ رکھنے کا بڑی سختی
سے معمول تھا اِسی طرح رمضان المبارک کی مبارک اور نورانی راتوں میں قیام
اللیل ( تراویح) پڑھنے کا بھی بڑی شدت سے معمول تھا۔ رمضان المبارک کے دن
جس طرح بڑے مقدس اور بابرکت شمار کئے جاتے تھے اسی طرح اُس کی راتیں بھی
بڑی مبارک اور نورانی شمار کی جاتی تھیں، ایسے میں اگر کوئی شخص رمضان
المبارک میں دن کو روزہ رکھے لیکن رات کو تراویح کی نماز نہ پڑھے تو اُس کا
روزہ ناقص ہے، اِس لئے کہ رمضان دن رات کے تمام لمحات کے مجموعہ کا نام ہے
اور دن تو ویسے بھی رات کا تابع ہوتا ہے، اِس سے معلوم ہوا کہ رمضان
المبارک کے دنوں کی جو اہمیت ہے وہی اُس کی راتوں کی بھی ہے۔
چنانچہ اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اور قرآن شریف دونوں بندہ کے لئے
شفاعت کرتے ۔ روزہ عرض کرتا ہے کہ یا اﷲ! میں نے اِس کو دن میں کھانے پینے
سے روکے رکھا،میری شفاعت قبول کیجئے! اور قرآن شریف کہتا ہے کہ یا اﷲ! میں
نے اِس کو رات کو سونے سے روکے رکھا ،میری شفاعت قبول کیجئے! پس دونوں کی
شفاعت قبول کی جاتی ہے۔(مسند احمد)
حضرت عبد الرحمان بن فوع رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان المبارک کے
روزے فرض قرار دیئے اور میں نے رمضان المبارک کی رات میں قیام (تراویح) کو
سنت قرار دیا، پس جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے
اخلاص کے ساتھ رمضان المبارک کا روزہ رکھا اور (رات میں) اُس کا قیام
کیا(یعنی تراویح پڑھیں) تو اپنے گناہوں سے اِس طرح سے نکل جائے گاگویا اُس
کی ماں نے آج اُس کو جنا ہے۔ (سنن نسائی)
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اِس سے
معلوم ہوا کہ تراویح کا ارشاد بھی خود حق سبحانہ وتقدس کی طرف سے ہے ۔ پھر
جن روایات میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس (تراویح) کو اپنی طرف
منسوب فرماکر اِس کو سنت قرار دیا ہے تو اِس سے مراد تاکید ہے، اسی وجہ سے
سب ائمہ اِس کے سنت ہونے پر متفق ہیں۔ (فضائل رمضان بتغیرما) شیخ عبد الحق
محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ تراویح میں دو سنتیں الگ الگ ہیں ،
تمام کلام اﷲ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا یہ ایک مستقل سنت ہے، اور
پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے ۔ (ماثبت بالسنہ عن احکام السنہ)
چنانچہ ہمارے اسلاف حضرات صحابہ، تابعین، تبع تابعین اورائمہ مجتہدین نے
مذکورہ بالا احادیث پر مکمل طرح سے عمل کرکے اُمت کے لئے ایک بہترین مثال
قائم کی اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس بارے میں جو بشارات ارشاد
فرمائیں اُن پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم مسجد
نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں رمضان المبارک میں رات کو تراویح کی نماز چھوٹی
چھوٹی جماعتوں کی شکل میں ادا کیا کرتے تھے، جس کو قرآن مجید کا کچھ حصہ
حفظ یاد ہوتاتھا اُس کے ساتھ پانچ چھ افراد یا اِس سے کم و بیش جمع ہوجاتے،
پھر مل کر جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھا کرتے تھے۔پھر اسی دوران حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک رات مجھے حکم فرمایا کہ میں اِن کے لئے اپنے حجرے
کے دروازے کے قریب (باجماعت تراویح کے لئے) ایک چٹائی بچھا دیا کروں،
چنانچہ میں نے یہ کام کردیا ، پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم عشاء کی نمماز
پڑھنے کے بعد اُس چٹائی کی طرف تشریف لائیاور لوگوں کو رات کے ایک لمبے حصے
تک تراویح پڑھائی ، دوسرے دن بھی یہی عمل ہوا، تیسرے دن حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم عشاء کی نماز پڑھا کر گھر تشریف لے آئے اور اُدھر مسجد لوگوں سے کھچا
کھچ بھر گئی اور صبح تک بھری ہی رہی، صبح کو حضور صلی اﷲ علیہ تشریف لائے
اور لوگوں سے فرمایا کہ میں نے اِس لئے ایسا کیا ہے کہ کہیں تراویح کی نماز
تم پر فرض ہی نہ کردی جائے اور پھر تم ایسے اعمال کے مکلف بن جاؤ جن پر (فرضوں
کی طرح) ہمیشگی کی تم میں طاقت نہ ہو۔ (مسند احمد)
حضرت عبد الرحمان بن عبد قاری رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات
میں میں حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے ساتھ مسجد میں گیا، لوگ مختلف
ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، کوئی اپنی اپنی نماز پڑھ رہا تھااور ایک جماعت
اُس کے ساتھ پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال یہ
ہورہا ہے کہ اگر میں اِن سب کو ایک حافظ قرآن کے پیچھے کھڑا کردوں تو یہ
زیادہ بہتر رہے گا۔ پھر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اِس کا پختہ ارادہ کرلیااور
اِن سب کو حضرت ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ کے پیچھے جمع کردیا۔ پھر میں حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ دوسری رات پھر گیا ، لوگ اپنے قاری (حضرت ابی بن
کعب رضی اﷲ عنہ) کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا
یہ نیا عمل بہت اچھا ہے، لیکن تم شروع رات میں تو تراویح پڑھتے اور آخررات
میں تہجد چھوڑ کر سوجاتے ہو، میرے نزدیک تہجد تراویح سے افضل ہے۔ (بخاری،
مؤطا، ابن خزیمہ)
حضرت نوفل بن ایاس ہذلی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر بن خطاب
رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں رمضان المبارک میں مختلف جماعتوں میں تراویح پڑھا
کرتے تھے، ایک جماعت یہاں تراویح پڑھ رہی ہے اور ایک وہاں، جس امام کی آواز
زیادہ اچھی ہوتی لوگ اُس کی طرف زیادہ چلے جاتے۔ اِس پر حضرت عمر رضی اﷲ
عنہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں لوگوں نے قرآن کو گانے کی چیز بنالیا ہے۔
غور سے سنو! اﷲ کی قسم! میرا بس چلا تو اِس صورتِ حال کو ضرور بدل دوں گا،
چنانچہ تین ہی دن کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابی بن کعب کو حکم
دیا اور اُنہوں نے تمام لوگوں کو اکٹھا کرکے تراویح کی نماز پڑھائی، پھر
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے آخری صف میں کھڑے ہوکر فرمایا ہے کہ (تراویح کا اِس
طرح ایک جماعت بن کر پڑھنا) ہے تو ایک نیا عمل لیکن ہے بہت عمدہ۔ (طبقات
ابن سعد)
حضرت عمر بن عبد اﷲ عنسی رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب اور
حضرت تمیم داری رضی اﷲ عنہما حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی جگہ کھڑے ہوکر مردوں
کو تراویح کی نماز باری باری پڑھایا کرتے تھے۔ اور حضرت ابو اسحاق ہمدانی
رحمۃ اﷲ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ رمضان المبارک
کی پہلی رات میں باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ قندیلیں روشن ہیں اور اﷲ کی
کتاب پڑھی جارہی ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اے ابن خطاب! جیسے تم
نے اﷲ تعالیٰ کی مسجدوں کو قرآن سے منور کیا ہے ایسے ہی اﷲ تعالیٰ تمہاری
قبر کو منور فرمائے۔ (کنز العمال)
|