مولویوں پر اتنی تنقید ۔۔۔۔ آخر کیوں؟

پوری دنیا بالخصوص ہمارے معاشرے میں مولوی داڑھی پگڑی کو انتہائی حقیر گھٹیا اور حقارت زدہ معنوں میں لیا جاتا ہے ۔اس طبقے کو متنازعہ بنانے کے پیچھے کچھ عناصر کارفرماں ہیں جو ایک سٹریٹیجی اور پلاننگ کے ساتھ محنت کر رہے ہیں اور افسوس ہمارے کچھ سیکولر لبرل اور روشن خیال دوست ان کے آزاد نظریات کا آلہ کا ر بنے ہوئے ہیں اور ہمارے یہ آستین کے سانپ بڑی تگ و دو کے ساتھ اسلام کے نظریات کو منہدم کرنے میں ان کا برابر ساتھ دے رہے ہیں ۔ہمارے یہ سیکولر دوست پاکستان میں اسلامی نظریات کو ختم کرنے ریاستِ پاکستان کو سیکولر لبرل اور روشن خیال بنانے کی کوشش کر کے شایدپاکستان بنانے کے نظریے کی مکمل نفی کر رہے ہیں ۔مغرب کے کلچر سے مرعوب اور ان کی متابعت اختیار کرنے والے پاکستان میں مغرب جیسا کلچر دیکھنا چاہتے ہیں جس کلچر کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اب جو انہوں نے مغرب کے کلچر ( جو ان کے لیے آئیڈیل معاشرہ ہے ) کو پاکستان میں لانے لگے تو ان کو جو سب سے بڑی جو رکاوٹ نظر آئی اس کلچر کو نافذالعمل کرنے کے خلاف تو وہ تھے اسلام کے سپوت مولوی جو اس سیکولر ٹولے کی آنکھوں میں کھٹکتے تھے جو ان کی کسی بھی پلاننگ کو کامیاب نہیں ہونے دیتے تھے کیونکہ یہی دینی طبقہ ہی صحیح معنوں میں جانتا ہے کہ پاکستان کو ایک خالص اسلامی نظریے کی بنیاد کے تحت حاصل کیا گیا ہے اور اس ریاست پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بناناہے لہذا یہی دینی طبقہ ان روشن خیال سیکولر ٹولے کی پلاننگ کے آگے ڈھال بن گیا اور آج بھی یہ سیکولر اور روشن خیال لابی مولویوں کے خلاف زہر اگل رہی ہے اور اوپر بیٹھے ذی اقتدار لوگ اس ٹولے کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں ۔

اگر عالم تاریخ میں نظر دوڑائی جائے تو طاقتور قومیں کمزور قوموں پر فتح پا کر ان کو اپنا غلام بنا لیتی تھیں لیکن دور جدید میں طاقتور قومیں کمزور قوموں کے علاقوں کو فتح کیے بغیر ہی اپنا غلام بنا لیا ہے یعنی ذ ہنی غلامی اور یہ غلامی جسمانی غلامی سے بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ذہنی غلامی کا شکار قومیں کی نہ تو اپنی کوئی سوچ ہوتی ہے اور نہ وہ حالات کو اپنی نظروں سے دیکھتی ہیں اور وہ اپنی سوچوں کا رخ ادھر ہی کر لیتی ہیں جدھر ان کے آقا چاہتے ہیں ۔ذہنی غلامی کا شکار قومیں اچھے کو برا اور برے اچھا ،نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع ،دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست سمجھ رہی ہوتی ہیں اور اسی ذہنی غلامی نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے دور کر دیا ہے کہ وہ حالات کو قرآن و سنت سے پرکھتے لیکن ہمارے کچھ پڑھے لکھے جاہلوں نے حالات کو مغربی انداز فکر سے پرکھا ۔ معاشرے میں قومیں اس وقت تک اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہیں جب ان کے اپنے نظریات اپنے افکاراپنے کلچر اور اپنے عقیدے سے گہرا تعلق ہو گا جب قومیں اپنے نظریات کو اپنے افکا ر اور اپنے عقیدے کو پس پشت ڈال دیتی ہیں تو یقینا زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے ۔

اس ذہنی غلام سیکولر روشن خیال ٹولے کا حال بھی یہی ہے کہ انہوں نے اسلامی روایات کا تاخت و تاراج کیا اپنے عقیدے سے منحرف ہوگئے اور انہوں نے کفریہ اصول و ضوابط کی غیر مشروط متابعت اختیار کر لی اور ان کا نشانہ بن گئے مولوی ۔ ان لوگو ں کو اپنے راسخ العقیدہ کے لوگوں میں برائیاں نظر آنے لگی اورانہوں نے دنیا کے سامنے آکر اپنے ذہن سے پیدا کردہ مافوق الفطرت اور تصور و تخیل سے بالا تر ایسے اسلامی نظریا ت کا پرچار کیا اورا سلام کی ایسی غلط تشریح کی کہ دنیا کو دینی طبقے میں شک و شبہات پید اہو گئے کہ انہوں نے بھی ان سیکولر ٹولے کے ساتھ مل کر مولوی طبقے پر لعن طعن شروع کر دی اور یہ طبقہ معاشرے میں ایک چور کی حیثیت اختیار کر گیا ۔

اگر تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیں کی ہم اپنے معاشرے میں ان مولویوں کو نفی کر دیں تو کیا ہو گا ؟ کیا کوئی آکسفورڈ یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی پروفیسر یا ہاورڈ یونیورسٹی کا لیکچرار یا بیکن ہاؤس کا پرو فیسر یا ایچی سن کالج کو کوئی لائق سپوت دینی فرائض سر انجام دے لے گا کیا وہ امامت کرا لے گا کیا وہ نماز تروایح یا نماز جنازہ پڑھا لے گا کیا وہ کوئی فتویٰ دے دے گا ؟یقینا ہر گز نہیں، تو پھر ان مولویوں کی اسلام کی خدمات کو مان لو اگر یہ طبقہ نہ ہو تا تو شر خیر پر غالب آجاتا باطل حق پر غالب آجاتا انسانیت ابلیسیت کی لونڈھی بن کر رہ جاتی معاشرے کا نظام بگڑ جاتا۔یہی وہ طبقہ ہے جس نے انسانیت کی تذلیل ہونے سے بچائی لیکن یہ سیکولر ٹولہ( جو اسلام کے دشمنوں کے ذہن سے سوچتے ہیں اور جدھر وہ رخ دیتے ہیں تو یہ سیکولر ٹولہ ادھر ہی اپنی سوچوں کو لے جاتا ہے) انسانیت کے خیر خواہ طبقے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے کیونکہ ان کی سوچ کے مطابق جب تک یہ دینی طبقہ ختم نہیں ہو گا تب تک ان کی سوچ کو ان کے نظریات کو نہ تو تقویت ملے گی نہ ان کی سوچ پروان چڑھے گی ۔

مسلمانوں کو اس فتنے کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہے اگر اس فتنے پر کو قابو نہ کیا گیا تو اسلام کا اصلی تصور مٹ جائے گا ۔ لہذا جو زہر اسلام کے دشمنوں لیکن حقیقتا اپنے ہی لوگوں نے اسلام اور مولویوں کے خلاف عام لوگوں کے ذہنوں میں بھرا ہے اس معاملے پر طیش پر آنے کی بجائے یا مولویوں کو برا بھلا کہنے کی بجائے آپ حقیقت کو جانئیے اﷲ نے آپ کو ذہن دیا ہے آپ موازنہ کریں حقیقت کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے ۔

Faisal Tufail
About the Author: Faisal Tufail Read More Articles by Faisal Tufail: 17 Articles with 27470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.