حد میں رہیں

تاریخ گواہ ہے کہ جب انسان کو فطری شعور کا ادراک ہوا یعنی اس پرحیوانیت اور انسانیت کا فرق کھلا تو سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضے کی تکمیل اور عریانی کے احساس سے پریشان ہو کر انسان نے پتوں سے اپنی شرم گاہوں کو چھپایا اورپھر رفتہ رفتہ پتوں کا لباس زیب تن کرنے لگا مگر اب جبکہ انسان مکمل طور پر با شعور ہو چکا ہے ،شخصی اور اجتماعی زندگی کے اسرار رو رموز سے آگاہی ہوچکی ہے ،دنیاوی اور اُخروی زندگی کے فرق کو سمجھ چکا ہے ،حقیقی منزل سے بھی آگاہ ہے کہ جہالت اورپتھر کے زمانے سے نکل چکا ہے تو اب اسے جسم کے حصوں کو نمایاں کرنا اور عریاں لباس زیب تن کرنا اچھا لگتا ہے بلکہ یہاں تک کہ بعض طبقات کے نزدیک عریانیت تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کی پہچان بن چکی ہے ۔مرد قول و فعل میں بیباک اور خواتین لباس و ظاہر داری میں آزاد نظر آنا وقت کی ضرورت سمجھتی ہیں حالانکہ ہم اس وطن میں رہتے ہیں جس کے مقصد حصول ہی یہ تھا کہ مسلمان اپنی اسلامی اقدارو روایات کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔مگر بد قسمتی سے گذشتہ پندرہ بیس سال سے ہمارا آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہو گیا ہے کہ ہماری زبان ،اقدار ، روایات ،رسومات اور تہوار سبھی مغربیت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور لباس میں ـ’’ برینڈ‘‘ کے نام پر فحاشی و بے حیائی اور چور بازاری کا بازار گرم ہے ۔ایسے میں فائدہ تو کچھ نہیں ہوا البتہ نقصان بہت ہوچکا ہے کہ جس کا ازالہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔آج چادر اور چادر دیواری کا تقدس تقریباً پامال ہو چکا ہے ۔ بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ جنس کوئی بھی ہو مرد یا عورت درندگی اور حیوانیت کو جسم چاہیے وہ چھوٹا ہو یا بڑا بس نبض چلنی چاہیے اس پر طرہ فحش ویڈیو ریکارڈنگ نے پورے پاکستان کو دہلا کر رکھ دیا ہے ۔

مگر ہمارے میڈیا چینلز اور لبرلز نے یہاں پر بس نہیں کی بلکہ ـ’’می ٹو ‘‘ کے نام پر ’’سیکس ڈیبیٹ ‘‘شروع کر رکھی ہے جس میں ٹی وی اور فلم سے تعلق رکھنے والی خواتین سر عام اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہراساں کئے جانے اور جنسی زیادتی کے قصے سناتی ہیں یعنی شرم و حیا کے سارے پردے تار تار کر دئیے گئے ہیں ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان جرائم کو سرانجام دینے کی تعلیم و تربیت کی جا رہی ہے ۔

ان سنگین افسوسناک حالات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس جناب شوکت عزیز صدیقی نے رمضان کے دوران ٹی وی چینلز پر ہر قسم کے نیلام گھر اور مارننگ شوز پر پابندی عائد کر نے کا حکم نامہ صرف لائق تحسین ہی نہیں بلکہ مبارک اقدام ہے ۔ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق کسی چینل پررمضان المبارک کے دوران سرکس اور نیلام گھر نہیں ہوگا جبکہ ہر چینل پر پانچ وقت اذان نشر کرنا لازم ہوگا ۔جسٹس جناب شوکت صدیقی نے کہا کہ اگر یہی کچھ کرنا ہے جو ہورہا ہے تو پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوریہ کا لفظ ہٹا دیں ۔اسلام کا تمسخر اڑانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے ۔اسلامی تشخص اور عقائد کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔مزید عدالت نے پیمرا سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے کہ پاکستان میں 117 چینلز میں سے کتنے اذان نشر کرتے ہیں ؟ان سب کا بتایا جائے اور جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے ٹی وی پروگراموں میں فحاشی نہ دکھانے کا حکم دیتے ہوئے ایوارڈز شوز میں خواتین کے لباس کو نا قابل قبول قرار دیا ہے انھوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ برقع پہن کر آجائیں مگر بے حیائی کی اجازت بھی نہیں دیں گے ۔

اب جبکہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے ان اقدام کو بہت سراہا اور فیصلوں کو پاکستان کے لیے مبارک قرار دیا کیونکہ بحثیت مسلمان اپنی بیوی ،بیٹی بہن کی عریانی اور فحاشی کوئی بھی پسند نہیں کرتامگر لبرلز کی طرف سے اس اقدام پر گھٹیا جواز پیش کئے گئے کہ یہ 2018 ہے، ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ ہم نے کیا پہننا ہے ـ۔ـ’’ہمارا جسم ہماری مرضی‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے اسلامی معاشرے کا چہرہ بگاڑ رکھا ہے ۔یہ چند وہ ناسور لوگ ہیں جواسلام کی دوسری بڑی ریاست کو’’ سیکس فری سٹی‘‘ بنانے پر تلے ہوئے ہیں تاکہ ان کی آزاد منش طبیعت کو مزید آزادی مل سکے کیونکہ اسی فیصد سیکس اسکینڈل میں ایسے ہی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب کی دلدادہ یہ مغربی کٹھ پتلیاں اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلسل ملکی وقار، اقدار و روایات کی دھجیاں اڑا رہی ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہیں بلکہ اسے ترقی و خوشحالی اور آرٹ و فن کی بحالی قرار دیا جاتا ہے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ’’ اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں بے حیائی پھیلا دو ۔‘‘

اس میں کوئی دو رائے نہیں فحاشی کو عام کرنے کے لیے مارننگ شوز کے نام پر منظم طریقے سے مہم چلائی گئی ۔اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی اساس کو ہلا دیا گیا ۔سرعام مخلوط ڈانس ، غیر اخلاقی گفتگو ،غیر محرموں کا ہاتھ پکڑ کر ان کی بانہوں میں جھولنا ،نہایت بے تکلفی سے باتیں کرنا اور بیہودہ ڈائیلاگز سے اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں ۔ٹوٹکوں کے نام پر مرد وں کاخواتین کو سر عام میک اپ کرنا اور جادو ٹونہ کے نام پرمذموم جنسی واقعات کو سر عام پیش کرنا، میاں بیوی کے تعلقات ،بچے ،وقفہ ،طلاق ،حلالہ ،متعہ اور ہر عملی بے حیائی کو زیربحث ہی نہیں لایا گیا بلکہ مخصوص انداز میں پرفارم کر کے دکھایا گیا۔کبھی آپ نے سوچا کہ یہ کیسی راہنمائی تھی ؟ یہ کونسا سبق تھا جو سکھایا جاتا رہا ہے ؟ یہ کیسا علم تھا جو نوجوان نسل کو دیا گیا ؟ پھر غیر مستند بکاؤ مولوی صاحبان اور مفتیوں کو بٹھا کر فحش سوالات کی کالز لیکر رہے سہے تہذیبی کپڑے بھی اتار دئیے گئے مگر اسلامی نظریاتی کونسل ،مذہبی جماعتیں اورحکومت خاموش تماشا ئی بنی رہی ۔اگر کسی نے مذمت بھی کی تو لفاظی ہی لفاظی تھی حالانکہ حقائق تلخ تھے ۔ کسی کو معاشرتی گراوٹ نظر نہیں آئی۔۔۔؟یہی متحدہ مجلس عمل جو آج اسلام کے نام پر ایک ہوچکی ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی دھرنا نہیں دیا ، آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی جلوس نکالا ۔۔؟ اور جب دوران رمضان گیمز شوز کے نام پر بیہودگی کا بازار گرم ہوا تو لکھاریوں نے یہ سوچ کر صفحے کالے کر ڈالے :
’’یہ اور بات ہے کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں ہے ۔۔مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے ‘‘اہل ایمان دل ہی دل میں کڑھتے رہے اور آسمان سے اترنے والی فرشتوں کی جماعت کا انتظار کرتے رہے جبکہ کرپٹ عناصر عوام کو الجھا اور بہلا کر ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف رہے یقینا سب برابر کے قصوروار ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے بے حیائی ، فحاشی وعریانی کے کام کرنا ہی صرف حرام قرار نہیں دئیے بلکہ بلکہ ان کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے ۔قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر بے حیائی اور فحاشی کی مذمت کی گئی ہے ۔وَلا تقر بو الفواحشِ مَا ظاہَرَمنھاَوَمَا بَطن ’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ(خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں ۔اور برائی پھیلانے والوں کے بارے سورہ نور میں ارشاد ہوتا ہے :بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا و آخرت کا دردناک عذاب ہے ۔اور اﷲ ایسے لوگوں کو جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیاء بھی ایمان ہی کی ایک شاخ ہے ۔بد قسمتی سے آج اکثر کی آنکھ میں حیا ء نہیں رہی کیونکہ سر عام ٹی وی پر ریٹنگ کے نام پر ڈراموں ، مارننگ شوز ،ٹاک شوز اور دیگر پروگراموں میں ہو شربا مناظر ، باہمی میل ملاپ ، بیہودہ جملوں ، بازاری زبان اور رقص و سرود نے حیاداری کا احساس ہی چھین لیا ہے جو حیا اور بے حیائی میں فرق کر سکتا تھا ۔المیہ تو یہ ہے کہ آج ہمیں سب کچھ عام لگتا ہے کہ یہ وہ زہر وہ نغمہ و سرور ہے جو ہمارے رگ و پے میں گھس گیا ہے ، ا پنی زینت عام کر کے اور حسن کی نمائش کرنے والی خواتین رول ماڈل بن گئیں ہیں کیونکہ عورت اور غریب کی مجبوری کو بیچ کر ریٹنگ کمانا میڈیا کا نظریہ بن چکا ہے کیونکہ پہلے پہل پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کسی نہ کسی صحت مند نکتہ نظر کے حامی ہوتے تھے مگر اب ان کی اکثریت کمرشل ازم کی حامی ہے بریں سبب یہ کہنا مناسب ہوگا کہ میڈیا بھی مغربی یلغار کی زد میں آچکا ہے مگر ۔۔یاد رکھیں ! آپ جن کے نقش قد م پرچل رہے ہیں وہاں ٹیکنالوجی ہے ، رعنائی ہے ، خوبصورتی ہے ، آزادی ہے مگر اُخروی زندگی نہیں ہے ۔ یورپی اور امریکی ممالک میں جا کر دیکھیں کہ وہاں کیسے لڑکیاں نیلام ہو رہی ہیں ،وہاں کی عورت نہ بیٹی ، نہ بہن، نہ بیوی اور نہ ہی ماں ہے ۔اس کی حیثیت بسا اوقات ایک ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے ۔بھارت یہ زہر چکھ چکا ہے اور ریکارڈ پر ہے کہ وہاں عورت کی عزت محفوظ نہیں رہی اور پولیس اور انتظامیہ بھی بے بس ہے۔ آپ ایسی زندگی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس کی منزل خسارہ ،بربادی اور پکڑ ہے ۔آپ ایسی ہی آزادی چاہتے ہیں ؟ ان کے پاس تو کوئی راہبر نہیں کوئی ہادی نہیں کوئی منزل نہیں جبکہ اہل ایمان کے پاس توراہبر ہے ، نبی ہے ، قرآن ہے ، حدیث ہے ،سنتوں بھری عملی زندگی ہے اور منزل بھی طے ہے ۔نا عاقبت اندیشوں کیوں بھول گئے ہو کہ یہ دنیا عارضی ہے حقیقی زندگی بہت کھٹن ہے ۔اور یہ وقت کی پکار ہے کہ اب لفاظی نہیں چلے گی اب عمل کی ضرورت ہے! جو لوگ بے حیائی ، فحاشی ،عریانی اور بے راہ روی میں حدیں پار کر چکے ہیں وہ خدا ،سنت رسول ؐ اور سنت امہات المومنین کو پیش نگاہ رکھیں ۔ خدا کی قسم ایک دن قبر میں جانا ضرور ہے اور روز محشر مالک یوم الدین کے سامنے پیش ہو کر اپنی زندگی کے نامہ اعمال کے مطابق دوزخ یا جنت کی صورت انعام ملے گا ۔اگر ہمارا پورا معاشرہ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی طرف بڑھنے لگے گا تو یقیناوہ دن دور نہیں کہ ہم ایسے لوگوں سے بھی نجات حاصل کر لیں کہ جن کا کاروبار ہی سیاست ہے ۔اور ان کی سیاست کا مقصد بھی اقتدار اوراختیار حاصل کر کے ملکی وسائل کی لوٹ مار یا بندر بانٹ ہے ۔انھیں خدا اور رسولؐ کی کسی نافرمانی سے کوئی بحث نہیں ۔انھیں صرف ووٹ درکار ہے خواہ اﷲ ناراض ہو یا ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جائے ۔اس دوڑ میں نام نہاد سیاسی علماء و زعماء بھی آج پیشہ ور سیاستدان بن چکے ہیں اور اس لیبل کو قابلیت سمجھتے ہیں ۔دین سے سیاست کو جدا کرنے سے چنگیزی ضرور آتی ہے مگر آج تو یہ سب دینی راہنما اپنے مفادات کیلئے صرف اس لیے سر عام جھوٹ اور منافقت کی سیاست کے سہولت کار بن چکے ہیں خواہ کتنی ہی زیادہ چنگیزی بڑھ جائے ۔حتہ کہ بعض تو اس حد تک بدنام ہو چکے ہیں کہ ان کا نام ہی کافی ہے ۔لگتا ہے آج سیاست کا مطلب وسائل اور اختیار برائے لوٹ مار ہے اور یہ کہ معذرت بھی نہیں کرتے ،زیادتی اور بے راہ روی سے باز نہیں آتے حتہ کہ ہر غلط بات پر بھی ڈٹ جاتے ہیں خواہ جہاز ہی ڈوب جائے ،عوام مر جائیں یا خدا ناراض ہوجائے ۔یقینا یہ سب کچھ قابل مذمت ہے ہر کسی کو حد میں رہ کر زندگی گزارنی چاہیے ۔

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 103215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.