تقویٰ کی بنیاد پر حیاتِ اجتماعی کی تشکیل
اجتماعی حیات کے لئے الٰہی قوانین
خداوند تبارک وتعالیٰ نے انسان کی حیات ِاجتماعی کے لئے جو معین قوانین
مقرر کیے ہیں ،جن کی اساس پر یہ حیات گزرنی ہے اور اپنے انجام کوپہنچنی ہے
اور اس نے مختلف شکلیں اپنانی ہیں۔ جنہیں قرآن میں سننِ الٰہی سے تعبیر
کیاگیاہے،اس حیاتِ اجتماعی کی تشکیل میں سننِ خد ا یا معین قوانین موجود
ہیں ۔ جس طرح سے ہر مجموعہ جوترکیب کے ذ ریعے سے تشکیل پاتا ہے جیسے افراد
کی ترکیب ،اجزاء کی ترکیب اور اعضاء کی ترکیب کے ملنے سے وجودمیں آتاہے اور
اس کے معین قوانین ہیں۔ اسی طرح انسان کی حیاتِ اجتماعی کے بھی معین قوانین
ہیں چونکہ یہ بھی ایک مجموعی واجتماعی حیات ہے۔
ضمنی و مجموعی حیات کا رابطہ
جمعی حیات کامطلب یہ ہے کہ انسان کی انفرادی حیات کی طرح ایک اورزندگی ہے
جوانسان دوسروں کے ساتھ مل کر اس زندگی کے تحت حیات بسر کررہاہوتاہے۔جس طرح
ایک انسان کے جسم میں ہر عضواپنی ضمنی حیات بھی رکھتاہے اور کل کے ساتھ
وابستہ ہونے کی وجہ سے ،ایک مجموعی حیات کابھی حصہ ہے،پس انسان کاہر عضو
،ہاتھ پائوں اور دیگر اعضاء وجوارح دو حیات رکھتے ہیں۔ ایک ضمنی حیات اس
حیثیت سے کہ یہ جزء وعضوہیں اور ایک اپنی مجموعی وترکیبی حیات جو کل پیکر
یا بدن کی حیات کا ایک حصہ ہے کہ اگر حیاتِ کل کا خاتمہ ہوجائے توضمنی حیات
خود ہی ختم ہے،نابودہوجاتی ہے۔
ضمنی حیات کا انحصار مجموعی حیات پر:
اگر انسان کے بدن کی مجموعی حیات ختم ہوجائے توہاتھ پائوں کی حیات اس کے
ضمن میں خودہی ختم ہوجاتی ہے اور اگر فقط ہاتھ یا ایک عضواپنی حیات کھو
بیٹھے تواس سے کل کی حیات متاثرتوہوتی ہے لیکن نابود نہیں ہوتی،پس کل کی
حیات ،جزء کے خاتمے کاسبب بنتی ہے لیکن جزء کی حیات ،کل کے خاتمے کاسبب
نہیں بنتی بلکہ اس کے اندر نقص کاسبب بنتی ہے۔ اس کا ایک او ر قانون یہ ہے
کہ یہ حیات مختلف اجزاء کے ملنے سے وجود میں آتی ہے۔ اس کی خاص ترکیب ہونی
چاہیے،اس ترکیب میں جو اس کاڈھانچہ بنناہے،عام زبان میں ہم سٹرکچر کے نام
سے جانتے ہیں۔ پس یہ ڈھانچہ یا سٹرکچر کچھ ارکان سے تشکیل پاتاہے۔
تشکیل ِ عمارت کیلئے ڈ ھانچے کی ضرورت:
جس طرح بلڈنگ کی مثال دی تھی۔ایک مجموعی عمارت جب قائم ہوتی ہے توپہلے اس
کاڈھانچہ وجودمیں آتاہے،پھر ڈھانچے کے اندر دوسری چیزیں اضافہ ہوتی ہیں۔ جس
سے عمارت کارآمد بن جاتی ہے لیکن جب اس کاڈھانچہ تشکیل پاتاہے تو اس ڈھانچے
کے کچھ بنیادی ارکان ہیں جیسے بیم،پلریا دیواروں پر اگرڈھانچہ قائم
ہوتودیواریں اوران ارکان کولازمی مواد کی ضرور ت ہے،جس مواد سے یہ ارکان
تشکیل پاتے ہیں اور ارکان جب کھڑے ہوجاتے ہیں توان ارکان کے آپس میں ملنے
اورایک دوسرے کے ربط سے ڈھانچہ تیارہوتاہے ،اگر ایک ستون ایک جگہ ہو اور
دوسراستون کسی اورجگہ ہو،ایک بیم ایک طرف ہو اور دوسری کسی او رجگہ او ران
کا آپس میں کوئی ربط بھی نہ ہو،نہ ہی یہ ستون آپس میں کہیں ملتے ہوں ،تواسے
ڈھانچہ نہیں کہتے اگرچہ یہ الگ الگ فردی طورپر بہت ساری چیزیں ہیں۔
تشکیل ڈھانچہ کیلئے ارکان کاوجودی ارتباط
جس طرح درخت جنگل کے اندر ساتھ ساتھ اگے ہوئے ہیں لیکن کسی شئی میں آپس میں
نہیں ملتے۔مل کر کوئی درخت،ترکیب ایجادنہیں کرتے،اس وجہ سے جنگل میں کوئی
ڈھانچہ نہیں بناتے ،یاکسی جگہ ریوڑ اگر ہو وہ جسمانی طورپر توایک دوسرے کے
قریب قریب ہیں لیکن ان کے مابین وجودی ارتباط نہیں ہے اس وجہ سے وہ ریوڑ
ڈھانچہ تشکیل نہیں دیتا ،ڈھانچے کے لئے ضروری ہے کہ یہ ارکان آپس میں ملے
ہوئے اورمتصل ہوں اور ان کا آپس میں وہ رابطہ نہ ہو جومکینیکل رابطہ ہوتاہے
اور مکینکل رابطہ ،وہ رابطہ ہوتاہے جو خود ایجادکیاجاتاہے ،جس طرح مشینوں
کے اندران کو مختلف پرزوں اور بلٹس کے ذریعے سے،آپس میں جوڑ دیاجاتاہے
اگروہ کھل جائیں تو رابطہ بھی ختم ہوجاتاہے۔
مکینکل ڈھانچہ حیاتی نشوونما سے خالی:
گاڑی کے مختلف اعضاء و اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ رابطہء وجودی نہیں رکھتے
جبکہ ان کا آپس میں مکینکل رابطہ ہے ،اس سے جو ترکیب وجودمیں آتی ہے اس سے
ایک مکینکل ڈھانچہ وجودمیں آتاہے کہ جس میں حیات نہیں ہوتی،مکینکل ڈھانچہ
فاقدِ حیات ہوتاہے،ا س سے ہم صرف مکینکل کام یا مکینکل فنگشن حاصل کرسکتے
ہیں لیکن اس سے اس پرحیاتی اثرات کی نشو ونما نہیں ہوتی ، پس جہاں بھی
مکینکل ڈھانچہ ہوگا ا س کے اندرپہلی علامت جومفقود ہے وہ حیات ہے اس میں
نشو ونما اوررشد نہیں ہے۔
اگر ایک چھوٹی سی گاڑی بناکر آپ اس کوپانی دیتے رہیں ،کھاد دیتے رہیں تو اس
سے بڑی گاڑی نہیں بنتی،ورنہ اگرمکینکل ڈھانچوں میں نشو ونماہوتی ،تویہ
چھوٹی چھوٹی گاڑیاں ابھی تک سب بڑے بڑے ٹرالر بنے ہوتے ،جبکہ یہ جتنی بنتی
ہے اتنی ہی رہتی ہے بلکہ بوسیدہ ہو کرختم ہوجاتی ہے۔
وجودی رابطہ باعث حیات و رشد
پس اس جگہ نشوونما ہوتی ہے کہ جہاں پر مختلف اجزائے ترکیبی ا یک دوسرے کے
ساتھ وجودی رابطے کے اندر منسلک ہوں ، ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہوں اوران
کے اندر فقط مکینکل رابطہ نہ ہو بلکہ ان کے درمیان حیاتی یا وجود ی رابطہ
ہواور وہ ایک دوسرے کے اوپر اثر انداز ہوں ،ایک دوسرے کے اوپر ان کی
تاثیرہو۔
بلڈنگ کی مثال حیاتِ اجتماعی کے لئے درست اور دقیق مثال نہیں ہے بلکہ ذہن
کو آمادہ کرنے کے لئے یہ مثال ہے ورنہ درست مثال انسان کے جسم و پیکر کی
ہے،جس میں نشو ونما موجود ہے یا ایک درخت کی مثال ہے جو قرآن مجید نے بھی
اس کی مثال دی ہے کہ اس کو ہم مشاہدہ کریں لیکن سمجھانے کے لئے عمارتی مثال
واضح اور روشن ہے اور مطلب کے سمجھنے کے لئے ذہنی فضا کوہموار کردیتی ہے کہ
اگر یہ ستون اور بیم آپس میں متصل نہ ہوں ، تو ان کے مجموعے کوڈھانچہ نہیں
کہتے،ڈھانچے کے لئے ضروری ہے کہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں۔
آئیڈ یالوجیکل معاشرے کا قیام:
حیات ِاجتماعی کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ حیاتِ اجتماعی میں جومجموعہ
بنامِ امت ،قوم یا سماج ومعاشرہ وجودمیں آتاہے یہ ایک ڈھانچے کے اوپر
استوار ہوتاہے۔ یعنی اجتماعی حیا ت کانظام اس کاایک ڈھانچہ ہے جس کے اوپریہ
کھڑاہواہے،وہ ڈھانچہ اپنے ارکان پر استوارہے،اس کادارومدار ان ارکان و
ستونوں کے اوپرہے،ستون اجتماعی حیات ایک معین مواد سے بنے ہیں ،یہیں پر
سننِ الٰہی مفروض ہے،انسان کی حیاتِ اجتماعی میں یہیں سے سننِ الٰہی لاگو
ہوجاتی ہیں۔
ان ارکان کے لئے استعمال ہونے والے مواد میں اگرآئیڈیالوجی ہے ، اور اس
آئیڈیالوجی کے نتیجے میں وہ ارکان پیداہوئے ہوں اور ان ارکان کے متصل ہونے
سے ایک اجتماعی ڈھانچہ قا ئم ہواور اس کے اندرنظام وجودمیں آیاہوتویہ ایک
خاص معاشرہ بنے گا۔
ایمان کی حقیقت:
قرآن کے بقول کہ یہ انسانی معاشرہ ایک خاص شکل،خاص روپ،خاص حلیے اور خاص
شناخت کامعاشرہ بنے گا ،یہ دوسرے معاشروں سے مختلف ہوگا۔اگر اس کے موادمیں
توحیدی آئیڈیالوجی وایمان ہو۔جس طرح قرآن مجید تشکیلِ امت کا آغاز ایمان سے
کرتا ہے۔ایمان سے مراد ذہنیت نہیں ہے چونکہ ہمارے ذہنوں میں جو ایمان کی
شکل بیٹھی ہوئی ہے،ہم اسی کوہی ایمان سمجھتے ہیں۔ نہیں !اس کاایمان سے کوئی
تعلق نہیں ہے۔
ذہنی کیفیت ایمان نہیں ہے
عموماً لوگ جس کوایمان کہتے ہیں ،یہ مختلف ذہنی کیفیات ہیں جس طرح کوئی
تلقینات سننے سے،باتیں سننے سے،میڈیا سے کسی کے بارے میں سننے سے انسان کی
ایک ذہنی کیفیت بن جاتی ہے۔ یہ ذہنیت ہے جیسے بہت سارے لوگوں کے بارے میں
ہماری ذہنیت ہے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں۔ جس طرح شیعوں کی یہ ذہنی کیفیت ہے کہ
ہر وہ آدمی جس کاپانچہ گٹوں سے اوپر ہے اور اس کی داڑھی لمبی ہے وہ وہابی
ہے او روہ شیعوں کا دشمن ہے۔یہ ہماری ایک ذہنی کیفیت بنا دی گئی ہے ورنہ
عملاً ایسے نہیں ہے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کاپانچہ اوپر اورداڑھی بڑی
ہوتی ہے ،جبکہ یہ شیعوں کے دوست ہیں ،چہ بسا خودیہ شیعہ ہی ہوتے ہیں۔ کسی
شخص کوبھی جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کے بارے میں فورا ً ہماری یہ ذہنیت قائم
ہوجاتی ہے۔
یہ ایمان نہیں ہے بلکہ یہ ذہنی کیفیات ہیں۔ جیسے اس وقت ہماری ہر چیزکے
بارے میں ایک ذہنی کیفیت ہے،قیامت کے بارے میں ،خداکے بارے میں ،آئمہ کے
بارے میں ذہنی کیفیات ہیں پس یہ سب کچھ ایمان نہیں کہلاتا بلکہ ایمان کی
تعریف میں یہ چیز شامل ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کی ذہنی کیفیات ونفسیاتی
حالتیں ہیں جو مختلف وجوہات اورمختلف عوامل کے تحت انسان پر طاری ہوتی رہتی
ہیں۔
معلومات دینی ایمان نہیں ہے
مختلف معلومات کوبھی ایمان نہیں کہتے،جیسے ہمیں ابھی بہت ساری معلومات ہیں
،اسلام کے بارے میں ،قرآن کے بارے میں ،انبیاء ؑوآئمہ ؑکے بارے میں ،امامت
ونبوت کے بارے میں ،حتیٰ معلوماتِ توحیدی بھی ایمان نہیں کہلاتیں ،ایمان
ایک الگ چیزہے۔پس ہم ایما ن کو اپنی ذہنیت کیفیت کے ساتھ نہ سمجھیں اوراس
کے ساتھ مثال نہ دیں جیسے جب ہم کہتے ہیں ایمانی معاشرہ یعنی اس ذہنی کیفیت
والے لوگ جس سرزمین پر رہتے ہوں وہ انسانی معاشرہ کہلاتاہے، ایمانی معاشرہ
نہیں کہلاتا۔
اسلامی و ایمانی معاشرے کی حقیقت
ایمانی معاشرے کی خاص صفت ہے،آئیڈیالوجیکل معاشرہ ،جس معاشرے کے پاس،ایک
منظم فکری نظام ہو، جوپوری حیات ِبشرکے بارے میں اس کی راہنمائی کررہاہو
اوراس شئی پراس کا ایمان ہو۔اگر وہ توحیدی والٰہی ہو،اس آئیڈیالوجی سے جو
اقدار وجودمیں آتی ہیں ،یہ ستون ہیں ،اورجب یہ اقدار آپس میں متصل وجڑجاتی
ہیں تو ان سے ایک نظام پیداہوتاہے اس کوہم الٰہی معاشرہ اوراسلامی وایمانی
معاشرہ کہتے ہیں لیکن اگربنیا دوڈھانچے میں یہ آئیڈیالوجی شامل نہ ہو بلکہ
کلچر ہو اور کلچرکے اندرسے نکلی ہوئی خرافا ت ستون کی حیثیت رکھتی ہوں ،اس
سے معاشرہ تو بن جائے گالیکن اس پہلے معاشرے سے یہ معاشرہ ذاتاً بہت ہی
مختلف ہوگا۔
الٰہی و غیر الٰہی معاشرے میں فرق:
انسان اور جانورمیں جتنا فرق ہے،اتناہی فرق الٰہی اورغیر الٰہی معاشرے میں
ہے،جیسے بھینس اورانسان میں کتنا فرق ہے!بعض جہات سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان
میں مشابہت ہے جیسے یہ دونوں کھاتے ہیں ،دونوں سوتے ہیں ،دونوں تولیدِ نسل
کرتے ہیں ،لیکن ذات دونوں کی الگ ہے، دونوں کی نوعیت الگ ہے،ماہیت وحقیقت
دونوں کی الگ ہے۔ اسی طرح ا جتماعی حیات کے لئے یا اجتماعی حیات کے ذریعے
جو معاشرے وجودمیں آتے ہیں ،ان کی ماہیت مختلف ہوتی ہے، حقیقت مختلف ہوتی
ہے،ہر چند بعض شعبوں میں ہمیں ان میں مشابہت نظر آتی ہے،اِس معاشرے میں
تولیدِ نسل ہورہی ہے ،اس معاشرے میں بھی تولیدِ نسل ہے،اس معاشرے میں کھانا
پیناہے،اس معاشرے میں بھی کھانا پیناہے،اس معاشرے میں کھیتی باڑی ہے،اس
معاشرے میں بھی کھیتی باڑی ہے لیکن ذاتاََوحقیقتاً یہ معاشرے مختلف ہوتے
ہیں ۔
معاشرے کی تشکیل میں سنن الٰہی کا کردار
سننِ الٰہی کے مطابق جب معاشرے کاوجود تشکیل پارہاہوتاہے۔جس طرح بچہ رحمِ
مادرمیں بن رہاہوتاہے۔پہلے اس کاڈھانچہ بنتاہے،اس ڈھانچے کی تشکیل میں ہی
سننِ الٰہی کارفرماہوتی ہیں اوراس کی مختلف شکلیں بن جاتی ہیں۔ بعض بچے
پیداہوتے ہیں اپاہج وناقص پیداہوتے ہیں ،بعض بچے صحیح وسالم پیداہوتے ہیں
،رحمِ مادرمیں جب ان کاوجود تشکیل پارہاہوتاہے،تومختلف اجزاء و اعضاء
پیداہوکے ا ٓپس میں مل کرایک مجموعہ بنارہے ہوتے ہیں وہیں پر سننِ الٰہی
حکم فرماہیں کہ اس ڈھانچے میں اگر ابتداء میں خلل آگیا،اگر یہ کام ہوا تو
اس قسم کاڈھانچہ بنے گا،جیسے بچہ ناقص الخلقت ہوگا،ناقص العقل ہوگا،ناقص
الایمان یاناقص الاخلاق بچہ ہوگا،بچے اسی طرح کے پیداہورہے ہیں ،جبکہ ہمیں
صرف وہ بچے نمایاں نظر آتے ہیں جو پیداہوں تو ہاتھ صحیح نہیں ،پائوں صحیح
نہیں ،ناک، کان صحیح نہیں ہے،پھران کے بارے میں چرچاہوجاتاہے کہ یہ ناقص
الخلقت ہے۔
اولاد میں ظاہری و باطنی نقائص
لیکن کتنے بچے پیداہوتے ہیں جوناقص الاخلاق ہیں ،ناقص الایمان وناقص العقل
ہیں۔ اس لئے کہ جب یہ بچہ وجودمیں آرہاہوتاہے تو اس کے وجودی ڈھانچے کی
تشکیل میں سننِ الٰہی کوچونکہ درست نہیں سمجھتے لہٰذا بچے پیدائشی طورپرہی
بعض چیزیں لے کر پیداہوتے ہیں جیساکہ روایات کے اندریہ اشارات موجودہیں کہ
اگر ماں باپ اس طرح کی حرکا ت کریں گے تو اس طرح کا بچہ بنے گا،اگر اس طرح
کی ذہنیت ہوگی تواس طرح کابچہ بنے گا،اگریہ اعمال انجام دیں گے تو اس طرح
کا بچہ ،اگر یہ اعمال انجا م دیں گے تو اس طرح کا بچہ پیداہوگا،جیسے پاگل
ہوگا،بہت سارے اثرات ہیں جو بتائے گئے ہیں۔ اجتماعی زندگی بھی اسی طرح سے
ہے جس طرح بچہ ماں کے رحم میں بنتاہے،ایک معاشرہ بھی اسی طرح سے وجودمیں
آتاہے اور جنم لیتاہے اس سٹرکچرمیں جو چیز کارفرماہے۔
پاکستانی معاشرے کی بنیاد آبائی کلچر:
بہت سارے معاشرے ہیں جن کی بنیادوں میں آبائی رسم ورواج موجود ہیں ، جیسے
پاکستانی معاشرہ جو آبائی کلچر کی بنیاد پروجودمیں آیاہے،اگرچہ اسلام کے
شعار سے وجود میں آیا ہے لیکن آئیڈیالوجی اس کی بنیادوں میں کار فرما نہیں
ہوئی ، چونکہ کوئی ایسامعمار موجود نہیں تھا جو ایسا مواد فراہم کرتا۔علامہ
اقبالؒ اس معاشرے کی تشکیل کیلئے سارا مواد پیش کرکے گئے تھے لیکن اس وقت
اس کوسمجھنے والاکوئی نہیں تھااورجو اُس وقت تھے اُنہوں نے سمجھاکہ یہ صرف
قوالوں کیلئے شاعری ہے،اس کا معاشرہ، مملکت، نظام یا امت سے کوئی تعلق نہیں
!
پاکستانی معاشرے کو تشکیل دینے میں آباء و اجداد ہی کا کرداررہا ہے اور
آباء و اجداد بھی مشترک رہے ہیں اگرچہ ان کے اندر بھی مختلف نشیب و فراز
رہے ہیں۔ یہاں پرتین چار قوموں کے آباء و اجدادمشترک ہیں جیسے ہندوئوں
،مسلمانوں او رسکھوں کے آباء و اجداد ایک جیسے ہیں لہٰذا رسومات بھی ایک
جیسی ہی ہیں ،صرف مندر،ٹیمپل اور مسجدمیں جاتے ہوئے الگ ہوجاتے ہیں باقی سب
یکساں ہیں۔ سب کی زندگی، نظام اور اجتماعی حیات ایک جیسی ہے چونکہ کسی کی
بنیاد میں آئیڈیالوجی شامل نہیں بلکہ کلچر شامل ہے لہٰذا بنیاد ی طورپریہ
معاشرہ نہ ہندوہے،نہ مسلمان ہے اورنہ سکھ ، بلکہ آبائی کلچرکی بنیاد پر
وجودمیں آیاہے جبکہ یہ ہمارا کلچر بھی خرافاتی کلچرہے۔
ہندو کلچر کی خرافات
اس وقت پوری دنیامیں جتنی بھی تہذیبیں ہیں ان سب کا اگر مطالعہ کیاجائے تو
سبھی خرافاتی ہیں ،خرافات کاعمل دخل ہے لیکن جتنی خرافات ہندی کلچر کے اندر
موجودہیں اتنی کسی اور کلچرمیں نہیں ہیں۔ ان کی پوری حیاتِ اجتماعی خرافات
کے اوپرہے، بھوت، پری،بد روحیں ،چڑیل اور اس طرح کے مسائل انسان کی عملی
زندگی میں دخیل ہیں ،لہٰذا آج ہندی کلچر کی حیاتِ اجتماعی ان قوتوں کے
اختیارمیں ہے اورجوتحولات، تبدیلیاں اورحادثات ہوتے ہیں وہ سب ان کے ذمے
ہوتے ہیں کہ انہوں نے کروائے ہیں اور ان کو ہی راضی کرنے کے لئے کوشش کرتے
ہیں۔ ہندومذہب میں ابھی بھی ان امور کو باقی رکھنے کیلئے سالانہ کسی انسان
کو قربان کیاجاتاہے۔
گذشتہ سال بھی یہ ماجراہواتھاکہ انھوں نے قرعہ نکالا ایک بچی کے نام آیااور
پھراس بچی کو ذبح کرنے والے تھے کہ فورسز پہنچ گئیں اور بچی کو بچالیا
گیا۔بہرکیف یہ عمل ابھی تک ان کے ہاں جاری ہے۔ جس کے اثرات ساری ذیلی شاخوں
پر ہیں یعنی ہندی تہذیب کی جو ذیلی شاخیں ہیں ان سب کے اوپر اس کلچر کے
اثرات موجودہیں لہٰذا یہ اجتماعی حیات اس سے متاثر ہے،جیسے بسنت ہے یاہولی
کھیلتے ہیں ،ایک دوسرے پررنگ ڈالتے ہیں ،یہ انہی موجوداتِ افسانوی کو راضی
کرنے کے لئے ہے،انہی کے فرمان پریہ سب کچھ ہوتاہے،اب ان کی دیکھادیکھی میں
مسلمان بھی یہ سارے کام انجام دیتے ہیں۔
ہر قوم کا اپنا کلچر:
اسی طرح سے ایرانیوں کا بھی اپنا ایک کلچر ہے اوربعض اُس پر اصرار بھی کرتے
ہیں بلکہ کچھ تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے اسلام کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے
لئے ہماراڈھائی ہزار سالہ پراناپورش مذہب کا کلچر کافی ہے۔اسی طرح سے
یونانی کلچرہے یا دیگر اقوام جو زمین پر آبادہیں اسی نظا م کے تحت ان کے
معاشرے وجودمیں آئے ہیں۔
مغربی معاشرے کی نئی بنیاد:
اس زمانے میں ایک نئی سوسائٹی مغربی معاشرے کے نام سے قائم ہوئی ہے،اگرچہ
وہ بھی کلچر ل معاشرہ ہے لیکن قدیم خرافاتی بنیاد وں سے اس نے فاصلہ لے
لیا،اس میں تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ قدیم مغربی قوموں کی عجیب و غریب تاریخ ہے
جبکہ فرانسیسی جوزیادہ قدیمی بھی نہیں ہے یعنی آج سے ڈیڑھ ،دوسوسال پہلے تک
یہ اسی وحشیانہ تہذیب کا حصہ تھی اوریورپ کے اندردیگراقوام بھی آبادہیں
جبکہ ہماری نظروں میں سب انگریزہیں ،ہر یورپی انگریز نہیں ہوتا۔ برطانیہ
میں کئی قومیں رہتی ہیں جن میں سے ایک قوم کانام انگریز ہے جن کی زبان
انگریزی ہے ورنہ وہاں پر بہت ساری اور قومیں بھی آباد ہیں ،برطانیہ کئی
ریاستوں یا کئی قوموں کامجموعہ ہے جو انگریز نہیں کہلاتے،ہماری نظروں میں
جو بھی گوری چمڑی والاہے وہ سارے انگریز کہلاتے ہیں۔
یہ قومیں وہ ہیں کہ جن کے آبائی کلچر خرافاتی تھے لیکن یورپ میں جوتحول
آیا،اُس سے یہ بدل گئیں اورایک نئی بنیاد بنائی،مغربی سوسائٹی جو آج
موجودہے،انہوں نے سابقہ تہذیب کاڈھانچہ بدلا ،پہلے ڈھانچے کے لئے جو مواد
اورنظریہ تھااس کو بدلا ، یعنی پہلے جو آبائی طور طریقے تھے ان کوچھوڑ
کرانہوں نے دوسرے امورکواپنی بنیاد قرار دیا۔
معاشرے کے بارے میں قرآنی نظریہ:
قرآن مجید کی نظریاسنتِ الٰہی یہ ہے کہ جب بھی ایک معاشرہ تشکیل پاتاہے
تواس معاشرے کی تشکیل کے عمل ، اس کانظام بننے سے پہلے اس کا ڈھانچہ بنتاہے
،ڈھانچہ اس کے ارکان پر استوارہوتاہے اور ارکان کسی خاص مواد سے تشکیل پاتے
ہیں۔ اور وہ موادآئیڈیالوجی ہے یا آبائی طور طریقہ یاکوئی اس کے متبادل
انسان کی کوئی نئی فکر ہے،ممکن ہے کوئی فلسفی فکرہو،کوئی اقتصادی فکرہو یا
کوئی اورتہذیبی فکریعنی کوئی بھی چیز بنیاد بن سکتی ہے اورجس طرح کی بنیاد
ہوگی اسی طرح کا معاشرہ وجودمیں آئے گا،اسی طرح کے اس کے ارکان ہوں گے،ان
ارکان کے اوپراسی طرح کانظام وجودمیں آئے گااو ران معاشروں کی ماہیت و
حقیقت ایک دوسرے سے مختلف ہوگی چونکہ ان کے ڈھانچے مختلف ہیں۔
ہر نظام قابل تبدیل ہے!
ہر نظام بدل سکتاہے،یوں نہیں کہ اگر ایک دفعہ نظام بن گیا ہے توپھر قیامت
تک یہی رہے گا،نہیں ! انسان اس کوتوڑکر نیا نظام اور نیا معاشرہ قائم
کرسکتاہے۔ہم اس کو دو حالتوں میں فرض کرسکتے ہیں۔ ایک قرآنی اور الٰہی
معاشرہ جس کی بنیاد توحیدی آئیڈیالوجی پر ہواور ایک غیر توحیدی معاشرہ جس
کی بنیاد توحیدی آئیڈیالوجی کے علاوہ کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے۔غیر توحیدی
معاشرے کی مختلف شکلیں ہیں ،ہر ایک کو زیرِ بحث نہیں لا سکتے، اس لئے صرف
دوعنوانوں کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
الٰہی معاشرہ یا توحیدی اورایمانی معاشرہ وہ معاشرہ کہلاتا ہے جس کی بنیاد
میں توحید اور ایمان شامل ہوں ،اب توحید و ایمان اوراِن اُمور سے مراد وہ
حالتیں نہ ہوں جو اِس وقت ہمارے ذہنوں میں قائم ہیں۔
صوفیانہ و خانقاہی دین
شاید اس وقت دنیا میں توحیدی معاشرہ کہیں بھی نہ ہو چونکہ توحیدی معاشرے کی
ایک اپنی خاص علامت ہے۔ البتہ کچھ معاشرے ایسے ہیں جو توحیدی بن سکتے ہیں
یا توحیدی معاشروں کے قریب ہیں ،ان کووہاں تک پہنچنے کیلئے ایک جہت چاہیے
تاکہ وہ توحیدی مرحلے تک آسانی سے پہنچ جائیں۔ چونکہ ہم نے دین کونظامِ
حیات کے طورپرنہیں لیا بلکہ ہمارے پاس جو دین ہے وہ صوفیانہ دین ہے، یعنی
اس وقت تمام طبقات کے اندر صوفیانہ دین رائج ہے۔ صوفیانہ دین سے مرادیہ ہے
کہ دین فقط آپ کی آخرت کے لئے ہے ،اس کا دنیا سے اصلاً کوئی تعلق نہیں ہے
اور دین کا فائدہ بھی آپ کے لئے فقط معنویت ہے باقی معیشت ،نظام اورسیاست
وغیرہ کادین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کو خانقاہی دین بھی کہتے ہیں جس
کاانسانی زندگی سے ذرّہ برابر کوئی ربط نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق نظامِ
دنیوی دین کی راہ میں مزاحم ہے لہٰذادنیا کوچھوڑ دو تاکہ تمہاری زندگی میں
دینی معنویت پیداہوسکے۔
مکتبی دین سے دوری
اس وقت ہم اس صوفیانہ تصورِ دین کے دیندار ہیں۔ دین کو بصورتِ آئیڈیالوجی
یا بصورت ِ ڈاکٹرائن اختیار نہیں کیاگیا،ڈاکٹرائن یعنی دین انسان کی حیاتِ
اجتماعی کالائحۂ عمل نہیں ہے اور دین نظام نہیں بنا، دین کو نظام کے طورپر
نہ علماء نے لیا اورنہ ہی غیر علماء نے لیاجبکہ انبیاءؑ دین کی اس حالت کے
مبلغ تھے کہ جو انسان کی حیاتِ اجتماعی کی بنیاد بنے اوراس اساس پریہ نظام
وجود میں آئے اور اس حیاتِ اجتماعی کی آغوش میں حیاتِ انفراد ی بھی وجودمیں
آئے اور وہ ترقی کرے اور اپنے مقا م تک پہنچے لیکن یہ کام نہیں ہوا ،بلکہ
اس پرتوجہ ہی نہیں دی گئی!
دین و دنیا میں جُدائی:
مسیحیت کے اوپر بھی یہی حالت غالب آگئی،پہلے مسیحیت اس کاشکارہوئی یعنی وہ
معنویت اور اس قسم کی چیزوں سے کنارہ کش ہونا اور دور ہوجانا،یہ حالت
مسیحیت کے اوپر پہلے بھی تھی لیکن یہ گذشتہ دو سو سالوں میں طاری ہوئی ،جب
سے مغربیوں نے اپنا راستہ دین سے جداکیااوراپنی اجتماعی شناخت بدلی اور
اپناڈھانچہ تبدیل کیا،اس وقت انھوں نے دین کو زندگی سے اٹھاکرباہرکردیا۔
لہٰذاجتنے بھی چرچ ہیں وہ باہرجنگلوں میں ہیں چونکہ وہ ریاضتوں کے لئے ہیں
،چرچ میں کوئی بھی دنیوی کام نہیں ہونا صرف دعاکرنی ہے اوراپنے گناہوں کا
اعتراف کرناہے او ر فقط اتوار کے دن وہاں جاناہے اورپھر واپس آجاناہے جبکہ
کوئی اور کام چرچ سے مربوط نہیں۔ جب مسلمانوں نے مسیحیت کویہ کام کرتے ہوئے
دیکھاتو وہی حالت اب مسلمانوں کی مساجد کی بھی بن گئی ہے کہ عملی
طورپرمسلمانوں نے بھی ایسا ہی صوفیانہ دین یا مسیحی حالت کا دین اپنالیاہے۔
غرض یہ کہ دین کو آسمانی کتابوں اور انبیاءؑ کے حوالے سے جو حیثیت حاصل تھی
کہ حیاتِ انسانی کی بنیاد،مجریٰ ،راستہ اور ایک ہموار زمین بنے تاکہ اس کے
اوپر حیاتِ بشر ی قائم ہو،وہ حالت دین سے لے لی گئی اور اس کو چھوڑ دیاگیا۔
فہم قرآن کیلئے شناخت قرآن کی ضرورت
انسان کی اجتماعی حیات کیلئے سننِ الٰہی کو قرآن مجید سے سمجھنے میں
جومشکلات در پیش ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارے لئے قرآن مجید کوئی
متعارف کتاب نہیں ہے، یعنی تعلیماتِ قرآن،مضامینِ قرآن،اصولِ قرآن،زبانِ
قرآن اورلہجۂ قرآن سے ہم آشنا نہیں ہیں۔ لہٰذا اس آمادگی کو پیدا کرنے
کیلئے پہلے شناختِ قرآن اور آدابِ فہم قرآن جس پر پہلے بحث ہوچکی ہے اور اس
کی ڈی وی ڈیز بھی موجود ہیں اور اُن کی کتابیں بھی چھپ چکی ہیں ۔ جنہوں نے
شناختِ قرآن کی مکمل بحث سنی ہوئی ہے یا پڑھی ہے ان کے لئے مشکل نہیں ہے
چونکہ ابھی قرآن مجید کے بارے میں ایک مناسب ذہن بن گیاہے اوراسی طرح سے
آدابِ فہمِ قرآن کی جس نے بحث سنی ہے یا کتاب پڑھی ہے اُس کیلئے آسانی ہوگی
کہ اس میں قرآن فہمی کے آداب بیان ہوئے ہیں۔ یہ بحثیں باقاعدہ ایک چَین
اورآپس میں مربوط ہیں اورتدریجاً بحث سننِ الٰہی تک پہنچی ہے۔
جب تک قرآن کے بارے میں ہماری نگاہ درست نہ ہوتواس وقت تک ہم قرآن مجید سے
یہ ابحاث استخراج نہیں کرسکتے،جب قرآن کوسمجھنے کے اصول ہی معلوم نہ ہوں کہ
کن اصولوں کے تحت ہم نے قرآن مجید کوسمجھناہے تو اس وقت تک یہ بحثیں مفید
نہیں ہوتیں !
مسلمانوں کی سوشیالوجی سے دوری
حیاتِ اجتماعی قرآن مجید کا ایک متروک اور فراموش شدہ موضوع ہے اور
مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے اس کو اہمیت دی ہے لہٰذاآپ سوشیالوجی میں
دیکھیں تو دوسرے لوگ ہم سے آگے ہیں حالانکہ ابن خلدون جو اس علم کابانی ہے
جس نے انسان کی حیاتِ اجتماعی کو زیرِ بحث لایالیکن مسلمانوں نے اتناہی کام
کیا جتنا ابن ِ خلدون نے چار سو سال پہلے کیاتھا،مسلمانوں کے پاس وہی میراث
ہے، پھر چار سو سالوں میں مسلمانوں نے اس میں کوئی چیز اضافہ نہیں کی
کیونکہ مسلمانوں کو کسی اور چیز کے پیچھے لگا دیاگیا! یعنی غیر مسلم خود
اصل چیز کی طرف گئے اور کافی حد تک انہوں نے ترقی بھی کی۔ جیسے انھوں نے
فرقہ واریت سے متعلق کافی مواد جمع کرلیا کہ ایک دوسرے کو کافر کہنے کے لئے
بقدرِکافی مواد ہے۔مسلمان کوانہوں نے دلیلوں سے ثابت کیاکہ یہ کافر ہیں۔
مسلمانوں میں تکفیری سوچ:
اگرہم تمام مسلمان فرقوں کی کتابیں پڑھیں تو کوئی مسلمان، مسلمان ثابت نہیں
ہوتا، جیسے آپ اگر سلفیوں کی کتابیں پڑھیں تو سوائے ان کے کوئی بھی مسلمان
نہیں ہے،اسی طرح جتنی بھی فرقہ ورانہ باتیں ہیں ان کو اگر انسان پڑھے
توسوائے ان کے کوئی اورمسلمان نہیں ہے اور اگر سب کوپڑھ کے دیکھیں تو آپ اس
نتیجے پہ پہنچیں گے کہ روئے زمین پر کوئی بھی مسلمان نہیں ہے۔صدیوں سے
مسلمان یہی کام کر رہے ہیں
سوشل سائنسز اسلامی معاشرے کی ضرورت
بہت سارے شعبے ہیں کہ جن کے اندر مسلمانوں نے کافی کام کیاہے اور بقدرِکافی
مواد ہے۔ حتیٰ ٹیکنالوجی میں کافی ترقی کی ہے لیکن سوشیالوجی میں مسلمان
کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہیں ،اتناہی مواد ہے جتنا ابن خلدون نے بیان
کیاہے لیکن آج جتنے ماہرین صاحبِ نظرہیں ، یعنی جو سوسائٹی اورامت سازی کے
معمار ہیں وہ صرف مغر بی ہیں ،مسلمانوں کے پاس صرف مغربی کتابوں کے ترجمے
موجودہیں۔
ایران میں جتنی سوشل سائنسز رائج تھی اُس کومعطل کردیاگیاہے اور رہبرِمعظم
نے حکم دیاہے کہ مغربی کتابیں ترجمہ کر کے مت پڑھائوبلکہ خود بیٹھ کرسوشل
سائنسز ڈیزائن کرو تاکہ اس کی بنیاد پرمعاشرہ سازی ہواور اسلامی سوسائٹی
قائم ہو۔ابھی کانفرنسیں ہورہی ہیں اوران کانفرنسوں میں لوگوں کوبلاتے ہیں
لیکن وہ فقط چلوکباب کھاکر چلے جاتے ہیں ،حالانکہ ان کانفرنسوں میں کسی
مقصد کیلئے بلایاجاتاہے لیکن عملاً باہر سے جانے والے وہاں جاکر اپنا کوئی
رول ادا نہیں کرتے۔بہرکیف یہ ایک کوشش ہے جس کا ابھی آغازہوا ہے چونکہ
اسلامی حکومت ابھی بنی ہے اوراسلامی حکومت کویہ احساس ہواہے کہ معاشرے کی
بنیاد اسلامی ہونا ضروری ہے اورمعاشرے کی بنیا دکے لئے ہمارے پاس معاشرتی
فکری نظام کا ڈھانچہ ہوناضروری ہے،ہم اس ڈھانچے میں کہاں سے شروع کریں ؟جو
کچھ راہنمائی تھی وہ مغربیوں نے کی ہوئی تھی کہ یہ معاشرہ اس طرح سے
بنتاہے۔
غلط راہوں پر نیکیاں
ایک عادت جس کے ہم خوگر ہوچکے ہیں اور وہ یہ کہ ہم کسی بھی ماحول میں بس
نیک کام کریں ۔ یعنی آپ ماحو ل،معاشرہ، نظام اوربنیادی ڈھانچے کو نہ دیکھیں
بلکہ جیسا بھی معاشرہ ہو اُس میں نیک کام کریں۔ جیسے بت کدہ ہو، مسجد ہو یا
شراب خانہ ہو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بس لوٹا اور مصلیٰ لو اور نماز
پڑھنا شروع کر دو۔ احکامِ دین میں یہ ہے کہ جہاں پر شراب پی جارہی ہو وہاں
پر آپ اپنا حلال کاکھانابھی نہیں کھاسکتے،عبادت تو دورکی بات ہے اس محفل
میں آپ حلال کھانابھی نہیں کھا سکتے۔ یہ بطور ِ نمونہ ہے کہ آپ شراب خوار
سوسائٹی میں نہیں رہ سکتے لیکن ہم جو شراب خانوں میں نیکی کرنے کے عادی ہیں
کہ جہاں بھی ہو بس نیکی کرو!اگر کوئی قاتل قتل کررہاہے اور اس کی چھری کند
ہوگئی ہے تو آپ یہاں بھی نیکی کرو کہ چھری لاکراس کے ہاتھ میں دو تاکہ وہ
یہ کام جلدی کرے،ہم ایسی نیکیاں انجام دینے کے عادی ہوگئے ہیں یعنی اس سے
قطعِ نظرکہ سوسائٹی کیسی ہونی چاہیے؟اورہمارے فرائض کیا ہیں ؟ جبکہ ہم فقط
نیکیوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔
ظاہری زینت سے دھوکہ نہ کھائیں :
ہمیں جب یہ پتہ ہے کہ بلڈنگ ڈھانچے کے لحاظ سے بوسیدہ ہے لیکن ہم اس
پرجھنڈیاں لگاکے اور اس پررنگ کراکے اُسی کواچھا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ بوسیدہ عمارتوں کو تزئینات کے ذریعے خوبصورت بنانا ایک عملی پیچیدگی
ہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے راہنمائی کی ہے کہ یہ بھی ایک تباہ کن عمل
ہے۔ایسی بوسیدہ عمارتیں جن کے ستون گلے ہوئے ہوں انہیں پر رنگ وروغن کرنا
اورجھنڈیاں لگاکے خوبصورت کرتے رہنابھی تباہی کی طرف جاناہے۔ ہم اجتماعی
طور پر اس کے بھی خوگر ہیں کہ بوسیدہ معاشرے کی تزئینات کرتے رہیں اوریہ
قرآن مجید نے بتادیا ہے کہ کچھ لوگ اجتماعی زندگی کے بوسیدہ ڈھانچے کو
خوبصورت کرنے میں مشغول ہیں ،جب اس طرح تزئین کرتے ہیں تو اس سے ایک پوری
نسل دھوکے میں آجاتی ہے،وہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ ٹھیک ٹھاک عمارت ہے اوررہنے
کے قابل ہے او راس میں رہائش اختیارکرلیتے ہیں جبکہ وہ اس سے بے خبر ہیں کہ
ان زینتوں کے نیچے بوسیدگی ہے اور ان زینتوں کے نیچے ناپائیداری ہے
اب ان چیزوں کومدنظررکھنا ہے کہ ہم قرآن مجید سے کتنے اجنبی ہیں ! حیاتِ
اجتماعی کے موضوع سے نا آشنا ہیں ،بغیر الٰہی نظام کے نیکیاں کرنے کے عادی
ہیں اور فقط اصلاحات کے ذریعے بوسیدہ نظام کی تزئین کرکے اُس میں زندگی بسر
کرنے کے خوگر ہوگئے ہیں۔
غلط راہ پر نیکیاں کرنے والوں کی صفت
اصل میں سبیل سب سے مہم ہے۔غلط راہوں پرنیکیاں کرنے والے عموماً ان لوگوں
کی جو اللہ کی راہ میں ہیں اور جب وہ غلطیاں کرتے ہیں توان کے عیب نکالتے
رہتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کی راہ پر ہیں ، ان سے غلطیاں بھی ہوتی رہتی ہیں ،وہ
کوئی معصوم تونہیں ہیں اورمعصوم نہ ہونے کی وجہ سے ہی غلطیاں سرزدہوجاتی
ہیں جبکہ یہ جا ن بوجھ کرغلطی نہیں کرتے اوروہ لوگ جوخداکی راہ میں نہیں
ہیں بلکہ غیر اللہ کی راہ پر نیکیاں کررہے ہیں یہ متکبرلوگ ہوتے ہیں ،یہ
لوگوں کوبتاناچاہتے ہیں کہ د یکھوہمارے جیسا نیک کوئی بھی نہیں ہے اورآپ کی
راہ درست نہیں ہے، اور یہ لوگ اللہ کی راہ میں جانے والوں کے اشتباہات اور
غلطیاں ڈھونڈتے ہیں اور پھر دنیاکے سامنے برملاکرتے ہیں۔ جیسے اس وقت یہی
کام ہورہاہے کہ وہ تمام لوگ جو انقلابی راہ سے دور ہیں ،جوخطِ ولایتِ فقیہ
سے الگ،کسی اور خط پر جارہے ہیں ،ان کا سارا وقت انقلابیوں اورنظامِ ولایتِ
فقیہ میں غلطیاں نکالنے میں گزر جاتا ہے۔
باتقویٰ افراد سے راہ خدا پر غلطی کا امکان
اللہ تعالیٰ کی راہ کو اختیارکرنے والے غلطیاں کرتے ہیں ،امام خمینی ؒخود
فرماتے تھے کہ ہم غلطیاں کرتے ہیں ،ہم کوئی معصوم تونہیں ہیں لہٰذاآپ بجائے
اعتراض کرنے کے آکرتعاون کرواوران کی نشاندہی کرو تاکہ ان غلطیوں
کودورکیاجاسکے۔اسی طرح رہبرِ معظم دام ظلہ العالیٰ نے بارہااس چیز کی
نشاندہی کی ہے کہ غلطیاں سرز د ہوتی ہیں ، یوں نہیں کہ جو بھی سبیلِ خداپر
ہیں ا ن سے غلطیاں سرز د نہیں ہوتیں لیکن راہ راہِ خداہے۔کیاآپ یہ سمجھتے
ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ساری امت میں سے کوئی بھی غلطی نہیں
کرتاتھا ؟ایسی بات نہیں ہے ، وہ بھی غلطیاں کرتے تھے،اس لئے پھررسول اللہ
ﷺسے ڈانٹ پڑتی تھی۔
امیر المومنین ؑ کی اپنے اصحاب کو سرزنش
امیرالمومنینؑ کے زمانے میں کیالوگ غلطیاں نہیں کرتے تھے؟کرتے تھے۔ اسی لئے
امیرالمومنینؑ سے ڈانٹ بھی کھاتے تھے ،کتنے ایسے گورنرتھے جو امیرالمومنینؑ
نے برخاست کیے اوران کی سخت سرزنش کی۔نہج البلاغہ میں خطوط موجودہیں ،انہیں
سست اوربے کا رعنصرکہا،ہرطرح سے ان کوسمجھایا جوکچھ آپ ؑفرماسکتے تھے ،پس
غلطیاں ہوتی ہیں ،یوں نہیں کہ راہِ خدا میں کوئی لغزش نہیں کھاتا اورگرتا
نہیں ہے،گرتاہے لیکن خدا اس کواٹھالیتاہے۔یہ ہمارا کلچر بن چکاہے کہ راہ مت
دیکھو بلکہ نیکی دیکھوکہ کہیں بھی بیٹھ کر میں نیکی انجا م دوں !
مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی سازش:
خدا وندتعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ مبارکۂ توبہ میں ایک بہت ہی اہم ماجرا
بیان کیا ہے جس کے ضمن میں ایک بہت ہی اہم موضوع چھیڑا ہے،اور خدا وندتبارک
وتعالیٰ نے قیامت تک کے لئے اس ماجرا کوچھیڑاہے۔ وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ
نے اپنے زمانے میں کچھ مسجدیں مدینہ میں بنائی تھیں لیکن ایک مسجد ان لوگوں
نے بنائی جوبظاہرتو مسلمان تھے لیکن آپؐ نے اس مسجد کانام مسجدِضرار رکھا
یعنی مضر ، نقصان دہ اورتباہ کن مسجد۔سورہ مبارکہ توبہ آیت نمبر ۱۰۷ میں ہے
کہ
’’ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِیقًا
بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ۔۔۔‘‘
یعنی مومنین کے درمیان ضرر ،کفر،فرقہ واریت،گروہ بندی،تقسیم اورجھگڑا ڈالنے
کے لئے کچھ لوگوں نے مسجد بنائی۔
’’وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اﷲَ وَرَسُولَہٗ مِنْ قَبْلُ
وَلَیَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَی۔۔۔‘‘
یہ کیوں کیا؟اس لئے کہ وہ لوگ جو دشمنِ خدا ہیں ان کی مدد کے لئے انہوں نے
ایک جگہ بنائی جبکہ قسمیں کھاکرکہتے تھے کہ ہمارا مقصد بہت نیک ہے،ہمار
ابہت ہی اچھامقصد ہے،یہ مسجد ہم نے اسلام کی تقویت اوررسول اللہ ﷺکی مضبوطی
کے لئے بنائی ہے۔
’’۔۔۔وَاﷲُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ ‘‘
اورخداگواہی دیتاہے کہ یہ مسجد بنانے والے جھوٹے ہیں۔
مسجد ضرار کے مقابلے میں اللّٰہ کا رد عمل:
یہ قابلِ غور نکتہ ہے کہ کیوں ایک مسجد کے لئے خدا وندتعالیٰ کوردِ عمل
دکھانے کی ضرورت پڑی؟پہلے خداوندتعالیٰ نے ردِ عمل دکھایااور پھر رسول اللہ
ﷺکویہ حکم دیا کہ اب آپ بھی میدان میں اتریں ،اس مسجد کے بارے میں اللہ
تعالیٰ نے کیوں اتنا شدید ردِ عمل دکھایا؟اس لئے کہ یہ کام پوری تاریخ میں
ہوں گے،یہ اسلام کے خلاف بننے والی پہلی مسجد تھی اور اس کے بعداسلام کے
خلاف بننے والی مسجدیں بہت زیادہ ہوں گی۔اس لئے اس موضوع کواہمیت دے کے
قرآن مجید میں یہ ذکرکیاگیاکہ آپ ایسی مساجد کی طرف متوجہ رہو!چونکہ اس وقت
مدرسے نہیں تھے،رسول اللہ ﷺ اور آئمہ ؑ کے ادوارمیں مدرسے نہیں تھے بلکہ
فقط تبلیغ تھی ،مدرسے بعد میں قائم ہوناشروع ہوئے ورنہ مدرسے کابھی نام
آجاتا۔
مسجد ضرار نمونہ ہے،ہر دینی مرکز کیلئے!
پس یہ مسجدِ ضرار بعنوانِ نمونہ ہے۔ قیامت تک مساجدِ ضرار،مدارسِ
ضرار،احزابِ ضرار،انجمنِ ضرار،حسینیہ ٔ ضرار ،امام بارگاہِ ضراراورنمازِ
باجماعتِ ضرار،نماز ِ جمعۂ ضرار،مجالسِ ضرار اور عزاداریٔ ضرارہو سکتے ہیں۔
یعنی دین کے نام پراور دینی عناوین سے ہی دین کونقصان پہنچانے کے لئے یہ
سارے کام ہوں گے۔پس علمائے ضرارپیدا ہوں گے۔ اصل میں قرآن مجید تعارف
کروانا چاہ رہاتھا اورفقط یہ نہیں بتاناچاہ رہاتھا کہ مدینے میں ایک سنٹر
قائم ہواہے اور وہ اگرختم ہوگیا تو سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔یہ ایک ذہنیت
کی پیداوارہے اور وہ ذہنیت ہمیشہ رہنی ہیں ،جہاں بھی اسلامی معاشرہ ہوگا
وہاں یہ اذہان رہیں گے اور وہ دین کے خلاف دین ہی کے مراکز قائم کرکے ان
مراکز کے ذریعے سے پھر دین کوہی تباہ کریں گے۔
آج کا ضرار چینل!
یہ سارا کچھ دین کے نام پرہی ہوگا،جیسے دینی کتاب لکھیں گے،دینی ویب سائٹ
بنائیں گے ،دینی چینل یا مدرسہ قائم کریں گے لیکن یہ سارے ادارے ضرور ہوں
گے۔ آج بھی بہت سارے ایسے ضرارچینل ہیں جو دین کے نام پرہی ہیں ،جیسے یہی
چینل جس پر ذاکر نائیک آتاہے ،یہ امت کے اندر تفرقہ ڈالنے کے لئے بنایا گیا
ضرار چینل ہے اور اس کے مشابہ جتنے بھی چینلزہیں وہ سب ایسے ہی اذہان کے
قائم کردہ ہیں۔ یوں نہیں کہ شیعوں میں نہیں ہیں ،شیعوں نے بھی ایسے ضرار
چینل بنائے ہوئے ہیں اور لوگوں کو درست راہ سے منحرف کررہے ہیں۔ پس قرآن
مجید اس اہم موضوع کی طرف توجہ دلارہاہے کہ آپ نے ہوشیار رہناہے، یعنی ایسا
نہ ہو کہ جو بھی چیز دین کے نام پر بناکر دی جائے اُس کو چومتے رہو۔
دین کے مقابلے میں رسم و رواج کو اپنانا:
چندسال قبل صوبہ سرحد کے ایک علاقے میں جارہے تھے تو وہاں کا ایک مقامی
ڈرائیور بار بار دائیں بائیں کی عمارتوں کو دیکھتا اورآداب بجالاتا،جس طرح
پاکستانیوں کاطریقہ ہوتاہے اس طرح سے وہ آداب بجالاتا۔ ہرامت کا طریقۂ
کارمختلف ہوتاہے،ہندیوں کا الگ ہے ،ہندی ہاتھ جوڑ کر جھک جاتے ہیں ،جاپانی
بالکل نیچے جھک جاتے ہیں ، مغربی سر سے ٹوپی اتارتے ہیں اور اسی طرح ہر ایک
قوم کا آداب بجالانے کا اپناایک طریقہ ہے لیکن پاکستانی مسلمان جب مقدسات
کاآداب بجالاتے ہیں توچہرے کے تین چار حصوں کومس کرتے ہیں۔ اب اس کے
اندرکیامعنویت ہے ، اس کابھی اپناایک خاص مفہوم ہے۔ بہر کیف وہ گزرتے ہوئے
کئی عمارتوں کے آداب بجا لاتے اورپھر مجھے کہتے کہ آپ یہ کام کیوں نہیں
کرتے ؟میرے ذہن میں سوال تھاکہ ان سے پوچھوں کہ یہ کون سے متبرک مقاما ت
ہیں جن کا اتنا احترا م بجالارہے ہو؟ چونکہ میں وہاں پہلی مرتبہ جارہاتھا
وہاں کسی سے زیادہ آشنائی نہیں تھی۔
اس سے پہلے کہ میں ان سے پوچھتاکہ آپ یہ کام کیوں کررہے ہیں ؟انہوں نے پہل
کرکے مجھ سے پوچھ لیاکہ آپ ان کا احترام کیوں نہیں بجالاتے؟تب میں نے ان سے
پوچھا ان مقامات کے بارے میں مجھے کچھ بتائو تاکہ میں بھی ان کااحترام
بجالائوں ،انہوں نے بتایا کہ یہ زیارتیں ہیں جو راستے میں بنی ہوئی ہیں اور
ان کااحترام بجالانا ضروری ہے،اس کے بعد ہم نے بھی ویسے ہی احترام کرنا
شروع کردیا جہاں وہ احترام کرتے وہاں پر ہم بھی کردیتے۔اب چند جگہیں ایسی
ہیں کہ جہاں پر ہم احترام بجالائے مگر انہوں نے یہ کام نہیں کیا،میں نے ان
سے پوچھاکہ یہاں پر آپ نے کیوں نہیں کیا؟وہ کہنے لگے کہ یہ توکسی کی کوٹھی
ہے،یہ زیارت نہیں ہے اگرچہ شکل اس کی بھی ایسے بنی ہوئی ہے لیکن یہ زیارت
نہیں ہے۔اب ظاہر ہے کہ جس انسان کو پتہ نہ ہواوروہ اجنبی علاقے میں چلاجائے
اورہر چیز کاظاہراسلام ہو تووہ ہرایک کااحترام بجالائے گا۔
نام نہاد اسلامی مراکز سے دور رہنے کا حکم!
قرآن مجید نے اس موضوع کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے کہ مسجدِ ضراربہت ہی مہم
موضوع ہے چونکہ اسلام پر سخت ترین ضربیں نام نہاد اسلامی مراکز سے ہی لگ
جاتی ہیں۔ منافقین کاگروہ جو اسلام کے نام پرہوتاہے وہی اسلام پر سب سے
کاری ضرب لگاتاہے۔اس وقت شاید دشمنانِ دین نے تاریخ میں اتنامسلمانوں
کانقصان نہیں کیاجتنا ان ضرا ر گروپوں ، حزبوں اور پارٹیوں نے کیاہے۔اگلی
آیت میں رسول اللہ ﷺکویہ حکم ہے کہ
’’لاَتَقُمْ فِیہِ أَبَدًا۔۔۔‘‘
اے رسول !آپ نے اس مسجدمیں ہرگزقدم نہیں رکھنا، یعنی ابدی ممانعت ہے کہ
کبھی بھی اس میں قدم نہ رکھنا۔جبکہ وہ رسول اللہ ﷺکویہ کہتے تھے کہ آپؐ
آئیں ،اتحاد کامظاہرہ ہوگا،آپؐ ہمارے پاس آئیں اورہم آپؐ کے پاس،اس رفت و
آمد سے لوگ بہت خوش ہوں گے کہ رسول ﷺاور ان کے پیروان سب ایک ہیں ،اتحا دکی
خاطر آپ ہماری مسجد میں آئیں اورہم آپ کی مسجد میں آئیں گے لیکن
خداوندتعالیٰ نے فرمایاکہ خبردار ! اس مسجدِ ضرار میں قدم نہیں رکھنا۔
مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہونی چاہیے!
’’ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ
تَقُومَ فِیہِ۔۔۔‘‘
وہ مسجد جوتقویٰ کی بنیاد پر روزِ اول سے قائم ہوئی ہے وہ زیادہ سزاوارہے
کہ اس کے اندر جاکر آپ عبادت کریں اور اس کو اپنا مرکز قرار دیں۔
’’۔۔۔فِیہِ رِجَالٌ یُحِبُّوْنَ أَنْ یَتَطَہَّرُوْا وَاﷲُ یُحِبُّ
الْمُطَّہِّرِینَ (۱۰۸)
وہ مسجد جو تقویٰ کی بنیاد پر ہے اور جودین کی بنیاد پر ہے،آپؐ اس کو مرکز
بنائیں اورجو ضرارہے اورجوناپاک نیت کی بناء پرمسلمانوں میں تفرقہ پھیلانے
کیلئے بنائی گئی ہے اس میں قدم نہ رکھیں۔ یعنی اُس چینل، اس ویب سائیٹ
اوراس کتاب کو اصلاً نہ کھولیں جو تفرقے کیلئے بنائی گئی ہو۔
یہ موضوع اس کی بنیادوں میں سے ایک ہے،مسجد کی تعمیر ہوئی اور وہ تعمیر
تقویٰء الٰہی پر نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے رسول اللہ ﷺسے کہہ دیاگیاکہ آپؐ
نے اس کے قریب نہیں جانااورآخر کار مسمار کردی گئی۔
ایک عام سنّتِ الٰہی:
اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک عام قانون بیان فرمایاہے جوہر جگہ لاگوہے ،خواہ وہ
کوئی مرکز بنایاجائے ،کوئی سیرت قائم کی جائے ،کوئی نظام بنایاجائے،کوئی
معاشرہ بنایا جائے یاکوئی حزب بنائی جائے، ہر جگہ یہ قانون لاگو ہے۔یہ ایک
عام قانون ہے، یعنی اس کے اندر کسی قسم کی قید نہیں ہے۔اہلِ علم کی اصطلاح
میں یہ مطلق ہے،یعنی آزاد اور عمومی قانون ہے۔ سورہ مبارکہ ’’التوبۃ‘‘ آیت
نمبر ۱۰۹اور۱۱۰ میں ہے کہ
أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی تَقْویٰ مِنَ اﷲِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ
أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ
فِی نَارِ جَہَنَّمَ وَاﷲُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (۱۰۹)
لاَیَزَالُ بُنْیَانُہُمْ الَّذِیْ بَنَوْا رِیبَۃً فِی قُلُوبِہِمْ إِلاَّ
أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُہُمْ وَاﷲُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ (۱۱۰)
مسجدِ ضرار کا ماجرا بھی بہت اہم ہے اور وہ لوگ جو غلط راہوں پر چل کر نیک
کام کرتے ہیں ان کے لئے مہم نہیں ہے، کہ مسجدِ ضرار ہو یامسجدِ نبوی
ہو،انہوں نے بس نیک کام کرناہے۔اگریہ نیک لوگ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ہوتے
اور آپؐمسجد گراتے تویہ سب آپؐ کے خلاف جلوس نکالتے کہ دیکھو آپؐنے مسجد
کوشہیدکردیا ہے! یقینا یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے خلاف ہوجاتے،چونکہ یہ وہ لوگ
ہیں جو غلط راہو ں پر نیک کام کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
فاسق کے دربار میں نیکی:
یزید کے ساتھ رہ کر نیک کام کرنے والے امام حسینؑ پر اعتراض کرتے تھے کہ
آپؑ نے قیام کیوں کیاہے؟ ہم نیک کام کررہے ہیں ،حج اداکر رہے ہیں ،نمازیں
پڑھ رہے ہیں اوربہت ساری نیکیاں کررہے ہیں پھر آپؑ حالات کیوں خراب کررہے
ہیں ؟ اسی طرح غلط راہوں پر نیک کام کرنے والے ہی امام خمینی ؒپر اعتراض
کرتے تھے کہ ٹھیک ٹھا ک سسٹم چل رہاتھا ،ہر کام اچھے طریقے سے
ہورہاتھا،کیوں خواہ مخواہ بیچ میں سے اٹھ کے شور ڈال دیاہے،چونکہ یہ لوگ
شاہ کے ساتھ مل کر دربار میں نیک کام کرتے تھے،شاہی دربار میں افطار
ہوتاتھاتوعلماء و غیر علماء سب شریک ہوتے تھے۔جیسے آج پاکستان میں امریکی
سفیرتمام علماء کو بلاکر افطار دیتا ہے اورشیعہ سنی سب جاتے ہیں اورایک
دوسرے کو وہاں پر روزے کے قبول ہونے کی دعابھی دیتے ہیں ،امریکی سفیر کوبھی
کہتے ہیں کہ اللہ آپ کی دعوت کو قبول فرمائے،آپ نے یہ احسن قدم اٹھایا۔
قرآن مجید کہہ رہاہے کہ نیکی کے لئے جگہ بھی دیکھو،روزے کی افطار کی جگہ
ضرارنہیں ہونی چاہیے ، تعلیم ایسے مدرسے سے حاصل کرو جو ضرار نہ ہو اورایسی
مجلس میں جائو جو ضرارنہ ہو بلکہ پاک ہو۔یہ موضوع اپنی جگہ مہم ہے لیکن اس
سے زیادہ اہم موضوع یہ مطلق قانو ن ہے۔
دو بنیادوں میں موازنہ:
سورۂ توبہ آیت نمبر۱۰۹ میں ہے کہ
’’أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ۔۔۔‘‘
قرآن مجیددو کاموں میں تقابل و موازنہ کررہاہے۔أسَّسَ بنانے اور تعمیرکرنے
کوکہتے ہیں ، مؤسس بنیاد رکھنے والے کو کہتے ہیں اساس بنیاد کوکہتے ہیں۔ اس
آیت میں ’’ہ‘‘ کی ضمیر من کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی جو بھی اپنی بنیاد کھڑی
کرے
أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی تَقْویٰ مِنَ اﷲِ وَرِضْوَانٍ
خَیْرٌ۔۔۔
جو بھی اپنی بنیادتقویٰ اوررضائے خداکی بناء پر رکھے،یعنی جو بھی اپنی
عمارت کی بنیادتقویٰ اور رضائے خدا وندتعالیٰ پر رکھے وہ بہتر ہے۔
۔۔۔أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْیَانَہٗ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ۔۔۔
یا وہ جواپنی عمارت کی بنیادکنارے پر رکھے! یعنی اس کنارے پر رکھے جو
گررہاہے، اگراس کامنظر دیکھناہے تو دریائوں کے کنارے پر ہوتا ہے کہ دریا
کناروں کو مسلسل کاٹتا ہے، یعنی وہ ایسی جگہ عمارت بنا رہا ہے جو مسلسل کٹ
کٹ کے گر رہی ہے ،اب یہ زمین جب گرے گی تویہ زمین کہاں جائے گی ؟
۔۔۔عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِی نَارِ جَہَنَّمَ۔ ۔۔
یہ دریا جو زمین کاٹ کے لے کے جارہاہے،اس کے اوپر اس نے عمارت بنائی ہے
اورجب یہ گرے گی تو عمارت بھی ساتھ جائے گی۔یعنی جب یہ گرے گی تو جہنم میں
جائے گا،یہ تباہی اورہلاکت میں چلاجائے گا۔
’’۔۔۔وَاﷲُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ (۱۰۹)
اورخداوندتعالیٰ نے یہ بتادیا کہ خداظالمین کی ہدایت نہیں کرتا۔
اب یہ ایک موازنہ ہے کہ دوقسم کی تعمیر کاذکرہے ، جو اپنی بنیادتقویٰ اور
رضائے الٰہی پر بناتاہے وہ بہترہے؟ یاجواپنی عمارت کی بنیاد ایسی زمین پر
بناتا ہے جو ناہموار اور مسلسل پھسل رہی ہے وہ بہترہے ؟یعنی وہ جو بننے سے
پہلے ہی گرجائے گی اور وہ جہنم میں چلی جائے گی وہ بہتر ہے ؟ یا وہ جو
تقویٰ کی بنیاد پر ہے وہ بہتر ہے؟اب ہم اس کیلئے تین مصداق فرض کرسکتے ہیں
اگرچہ تین سے زیادہ بھی ہیں۔
پہلا مصداق:
کسی ادارے یا نظام کی بنیاد:
ایک وہ جو اپنے عمل کی بنیادبناتاہے جس طرح آیت کے اندر بھی یہی مثال آرہی
ہے۔ایک عمل انجام دیتاہے، جیسے مسجد یامدرسہ بناتاہے لیکن اس کی بنیاد
تقویٰ پر نہیں رکھتا اور اس کی بنیادالٰہی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔آج دنیا میں
جتنے بھی دینی مراکزبنے ہوئے ہیں وہ مختلف نیتوں سے بنے ہوئے ہیں ،کچھ ایسے
ہیں جو ضدمیں بنے ہیں چونکہ انہوں نے بنایاہے لہٰذا ہم بھی بنائیں گے،کتنی
ایسی مساجد اور مراکز ہیں جو ایک دوسرے کی ضد میں بنے ہوئے ہیں۔ جیسے پورا
گروپ ایک ہی مسجدمیں نمازتو پڑھتاتھالیکن ان میں سے ایک گروہ الگ مزاج
رکھتاہے اور دوسرا گروہ کچھ اورمزاج رکھتا ہے، لہٰذا انھوں نے اپنی الگ الگ
انجمنیں بنائی ہیں ،جبکہ دونوں شیعہ ہیں لیکن اب ایک دوسرے کی ضدمیں آکر
بنارہے ہیں۔
انانیت و ضد کی بنیاد پر د ینی مراکز کا قیام
جو مراکز ضدمیں آکر بناتے ہیں ان کی بنیاد تقویٰ اورآئیڈیالوجی پرنہیں ہے
اوریہ دین کی ترویج کے لئے نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی انا کے لئے ہیں۔ اسی
پاکستان کی سر زمین پر ایک ایسا مدرسہ موجودہے جس کو دویا چندآدمیوں نے مل
کر شروع کیا بعد میں ان میں کسی وجہ سے اختلاف ہوا،ایک نے مدرسہ چھوڑ دیا
اور جا کر اس کی ضد میں دوسرامدرسہ بنایاکہ میں نے اُس کے مدرسے کو نیچا
دکھاناہے۔ ایسا ہوتا ہے مدرسے کے مقابلے میں مدرسہ،مسجد کے مقابلے میں مسجد
اوراما م بارگاہ کے مقابلے میں امام بارگاہ بناتے ہیں۔
بالفرض ایک آبادی میں سو شیعہ افرادرہتے ہیں ،اب وہاں پر سو افراد کے لئے
ایک ہی امام بارگاہ کافی ہے لیکن اسی گائوں میں اگر پانچ چھ امام بارگاہیں
موجودہوں تو معلوم ہوگا کہ یہ سب کچھ ضد میں ہواہے،ایک گروہ کو ذاکر پسندہے
اور دوسرے گروہ کو علماء ،بعض کو شہادتِ ثالثہ والے پسندہیں اور بعض فقط دو
شہادت والوں کو پسند کرتے ہیں ،اب بیچ میں دین کدھرجائے گا َ؟جبکہ یہ تو
دینی مرکز تھا،امام بارگاہ دینی مرکز ہے لیکن چونکہ اس کی بنیادتقویٰ نہیں
ہے ،لہٰذاان سے کبھی بھی دین نہیں پھیلے گا بلکہ ان سے فقط تضاد اور دشمنی
پھیلے گی۔
دوسرا مصداق:
شخصیت کی بنیاد:
دوسرا مصداق جوا س سے برتر مصداق ہے وہ انسان کی اپنی شخصیت کی بنیاد ہے۔
چونکہ ہم میں سے ہر ایک کی اپنی ایک شخصیت ہے جوہم نے خود سے بنانی
ہے،شخصیت اللہ نہیں بناتا بلکہ شخصیت کامعمارخود انسان ہے۔خداوندتعالیٰ نے
ہماری روح بنادی،ہماراجسم بنادیااور باقی سارے کام ہمار ے حوالے کردیے کہ
یہ آپ نے خود بنانے ہیں ، یعنی شخصیت سازی ہمارا اپنا کام ہے۔
شخصیت سے مراد وہ صفات ہیں جو آپ کی شناخت بنیں گی اورجو آپ کا حقیقی روپ
بنے گا،الحمدللہ ہم میں سے ہر ایک کی شخصیت بنی ہوئی ہے،ہم نے اس کی طرف
توجہ ہی نہیں کی ہے کہ یہ کیسے بن گئی اور یہ بہت ہی خطرناک تصویرہے۔ہم
آئینہ دیکھتے ہیں لیکن آئینہ ہمیں ہماری شخصیت نہیں دکھاتا بلکہ صر ف ہمیں
ا پنی جلد دکھاتاہے لہٰذاہم چمڑی کے د ھوکے میں آجاتے ہیں ،جبکہ ہم نے چمڑی
کے دھوکے میں نہیں آنا چونکہ چمڑی شخصیت کی عکاس و ترجمان نہیں ہوتی،کتنی
خوبصورت جلدوں اور چمڑیوں کے نیچے خوفناک شخصیات موجودہوتی ہیں اورکتنی
نامرغوب جلدوں کے پیچھے بہت ہی حسین شخصیات موجود ہوتی ہیں۔
معیاری و غیر معیاری شخصیت کی بنیاد
شخصیت سازی ایک اہم ذمہ داری ہے اور ہدایت کاایک حصہ اس شعبے کے متعلق
ہے،انسا ن کو مواددیاگیاہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کی بنیاد رکھے۔ نظریہ
،اعتقاد،ایمان ،عملِ صالح،اخلاق ،اقدار، عادتیں اورصفات ،یہ سب انسان کی
شخصیت کے حصے ہیں۔ اس وقت ہمار ی شخصیت ایک کلچر نے بنائی ہے اورکلچر کے
پاس جومیٹریل ہے وہ کوئی اعلیٰ مواد نہیں ہے،کلچر جس دوکان سے میٹریل
خریدتاہے وہ رسومات ،خرافات اور عادات ہیں۔ پس ہماری شخصیت عادتوں سے بنی
ہوئی ہے،ہم عادتوں کے مرکب ہیں اورعادتیں ہی ہماری شناخت ہیں۔ جیسے ہمیں
کسی چیز سے جانا جاتاہے ؟کہتے ہیں کہ وہ آدمی جو بات بات پہ گالی دیتاہے،جس
کی عادت گالی دیناہے،یہ شناخت ہے!یا جیسے کہتے ہیں کہ وہ فلاں گستاخ ،ہٹ
دھرم اورزبان دراز آدمی۔یہ عادتیں ہماری شناخت بنی ہوئی ہیں۔ پس عادتیں بھی
انسان کی شخصیت بناتی ہیں او ر اقدار، اخلاقی صفات اور ملکاتِ حسنہ بھی
انسان کی شخصیت بناتی ہیں۔
تقویٰ ،شخصیت سازی کا دینی مواد:
شخصیت سازی کیلئے دین بھی مواد رکھتاہے اورکلچر بھی مواد رکھتاہے۔ ابھی
ہماری شخصیات کلچرل ہیں ،یعنی ہمارے وجود کی عمارت گھٹیامیٹریل سے بنی ہوئی
ہے چونکہ ہمارے والدین دین کی مارکیٹ میں کبھی گئے ہی نہیں ،ان کی رسائی
کلچر تک ہی ہوتی تھی،چونکہ خود بھی کلچرل تھے،لہٰذاہمیں بھی کلچرل
بنایا،یعنی ہمیں بھی رسوماتی،خرافاتی اورعادات پر مشتمل شخصیت کا مالک
انسان بنایا۔جبکہ دین انسان کوایک الگ شخصیت بناتاہے اورتقویٰ جس کانام اس
آیت کے اندر رکھاگیاہے کہ تقویٰ بھی اس سارے مواد کا عنوان ہے جسے ہم دینی
آئیڈیالوجی کہتے ہیں ،چونکہ آئیڈیالوجی خود ایک شخصیت بناتی ہے۔دینی
آئیڈیالوجی یعنی تقویٰ ،پس تقویٰ کی بنیادپر بننے والی شخصیت بہترہے یا وہ
شخصیت بہترہے جس نے اپنے آپ کوناپائیدار جہنم کے کنارے پر بنایاہے، جومسلسل
کٹ رہاہے اور عنقریب اس میدان سمیت گرے گا اور جہنم کی طرف جائے گا؟یہ بھی
ایک مصداق ہے۔
تیسرا مصداق:
سوسائٹی یا معاشرے کی بنیاد:
تیسرا مصداق جو مذکورہ دونوں مصادیق سے اہم ہے۔یعنی جس نے اپنی حیاتِ
اجتماعی،اپنامعاشرہ ،اپنی سوسائٹی اور ایک امت کی بنیاد تقویٰ پر رکھی
ہو۔جب امت کاڈھانچہ بن رہاتھا تو اس کے اندر اس نے تقویٰ کامواد استعمال
کیا۔ وہ امت جس کی بنیاد میں تقویٰ ہو وہ بہتر ہے یا وہ پارٹی بہتر ہے جس
کی بنیاد میں کوئی اور مواد ہو؟یعنی جس نے ایسی جگہ پارٹی کی بنیاد رکھی ہو
جو ناپائیدار ہو اور جو عنقریب اپنے باسیوں سمیت گرنے والی ہے؟وہ بہتر ہے
یا وہ امت بہتر ہے جس کی بنیاد تقویٰ اور رضائے الٰہی پر قائم ہوئی ہو؟
علامہ اقبالؒ کے بقول کہ
شاخِ نازک پہ بنا ہوا آشیاں
قرآن مجیدکے بقول ناپائیدار زمین پر بنی ہوئی امت وقوم کی عمارت جو عنقریب
زوال پذیرہوجائے گی اورجب زوال پذیرہوگی تواب یوں نہیں کہ دوبارہ پھر اس
کوکھڑاکیاجاسکتاہے بلکہ اس کے ساتھ ہی تباہی وہلاکت ہے اور اس کے بعدجہنم۔
پس قرآن مجید پہلے مرحلے میں موازنہ کرکے دوطریقے بتارہاہے۔ایک یہ کہ اگر
تم نے اپنی حیات فردی یااجتماعی حیات کی بنیاد تقویٰ ورضوانِ خداپر قائم کی
تویہ ایک انجام ہوگا اور دوّم یہ کہ اگرناپائیدار اساس پرآپ نے اس کی بنیاد
قائم کی تویہ عمارت ہمیشہ کے لئے ناپائیدار رہے گی،اس کے اندر کبھی بھی
ثبات ،سکون اوراطمینان نہیں آئے گا اوریہ مسلسل دریا کے کنارے کی طرح
کٹتاہوا جہنم میں چلاجائے گااور اس کا یہ انجام ہے۔
فردی و اجتماعی حیات کی دو بنیاد یں
پس حیاتِ اجتماعی اور حیاتِ فردی کی دو تصویریں ہیں ، یعنی تقویٰ اور رضائے
الٰہی پر بنیاد قائم کرنا یا ناپائیداربنیاد رکھ کر ہلاک ہونا۔انسان کویہ
بتادیاکہ یہ آپ کے اختیارمیں ہے کہ آپ جس اساس پر اپنی انفرادی واجتماعی
شخصیت یا مساجد اور مدارس کی بنیاد بنانا چاہتے ہو بنالو، اگرچہ ان کے
علاوہ بھی اس آیت کے مصادیق قابلِ فرض ہیں۔
حیاتِ طیّبہ کا وعدہ:
قرآن مجید نے پھر آگے بڑھ کرتھوڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے کہ توحیدی
وایمانی آئیڈیالوجی کی اساس پر جومعاشرہ وجودمیں آتاہے اس کی شکل کیاہوتی
ہے؟سورہِ نحل آیت ۹۷ میں اس کاایک اور مرحلہ ذکر ہواہے کہ
’’ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ
فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ
بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ‘‘ (النحل، ۹۶)
یہ سنت ِ خداہے کہ جو ایمان کاراستہ اختیارکرے گا اُسے حیاتِ طیبہ عطا کریں
گے۔اگرچہ بہت ساری آیات کے اندر ہے کہ انھیں جنت ملے گی، جس میں حوریں ہوں
گی، ہر طرح کے درخت اور دودھ کی نہریں ہوں گی لیکن اس آیت میں ایک اور چیز
بتائی جارہی ہے کہ
’’فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً ‘‘
ہم انہیں ہدیۂ حیاتِ طیبہ عطاکریں گے جوکہ سب سے بڑا ہدیہ ہے۔پاکستانیوں
کولشکرِ طیبہ ملاہے لیکن حیاتِ طیبہ کاابھی تک مزہ نہیں چکھا کہ حیاتِ طیبہ
کیاہوتی ہے ؟حیاتِ طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی عطا کریں گے یعنی وہی مدینۂ
فاضلہ ملے گی۔
پہلے ذکر ہوا ہے کہ سننِ الٰہی خاص شرائط کے ساتھ ہے کہ اگر تم یہ شرائط
ایجاد کرو گے تو تمہیں یہ نتائج نصیب ہوں گے،ان میں سے ایک یہ جملۂ شرطیہ
ہے کہ تم میں جو بھی عملِ صالح اپنائے ہم اُسے ہدیہ کے طور پرحیاتِ طیبہ
عطاکریں گے۔البتہ بعض نے اس کے لئے کوشش کی ہے کہ اس کوآخرت پہ جا کرمنتہی
کردیں ،جبکہ ایسا نہیں ہے یہ موت سے پہلے کا ہدیہ ہے۔یعنی یہ قرآنی مدینۂ
فاضلہ کا وعدہ ہے کہ ہم تمہیں حیاتِ طیبہ عطاکریں گے۔
’’۔۔۔ وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ‘‘
پھر عطف کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ہم اس کا اخروی جزا ء بھی دیں گے۔یعنی حیات
طیبہ کے ساتھ بونس میں اخروی جزاء بھی ملیگی۔
حیاتِ طیّبہ یعنی مدینۂ فاضلہ:
قرآ ن مجید نے سورہ ء اعراف آیت نمبر ۵۸میں پھر اسی مدینہ ء فاضلہ اورحیاتِ
طیبہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ
’’وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِإِذْنِ رَبِّہٖ وَالَّذِیْ
خَبُثَ لاَیَخْرُجُ إِلاَّ نَکِدًا کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ
یَشْکُرُوْنَ‘‘
قرآ ن مجید کہہ رہاہے کہ ہم مثال دے کر بات کرتے ہیں۔ بارہاکہا کہ قرآن
مجید بہت ہی آسان ہے چونکہ قرآن میں اللہ کا فرماناہے کہ
’’لَقَدْ یَسرْنَا الْقُرْآن‘‘
ہم نے قرآن مجید کو آسان اورقابلِ فہم بنا دیاہے ،پھر تم نے خودہی اس
کومشکل بنادیاہے۔جیسے ابھی اتنے قواعد وتجوید بنادیے ہیں کہ عام آدمی قرآن
مجید کا تلفظ ہی ادا نہیں کر سکتاقرآن مجید پڑھنے کے لئے بھی اسے پانچ سال
تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اپنا تلفظ درست کرسکے۔ اس کو تم نے خود مشکل
بنالیاہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجیدکوبہت آسان بنایاتھا اور وہ اس
لئے کہ قرآن مجید نے جتنے مطالب بیان کیے ہیں وہ کئی لہجوں میں بیان کیے
ہیں اور اللہ تعالیٰ نے سب سے آسان کام جو کیاہے وہ یہ کہ آسان مثالیں دے
کربیان کیاہے۔
پاک اور خبیث زمین کی مثال:
اس آیت میں بھی ایک مثال ہے کہ
’’وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِإِذْنِ رَبِّہٖ۔ ۔۔(سورہ
اعراف:۵۸)
اورپاک شہر ،پاک ملک یاپاک سوسائٹی جس میں اذنِ پروردگار سے ہر دم فصل اگتی
ہے،
وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَیَخْرُجُ إِلاَّ نَکِدًا۔۔۔
اور خبیث شہر، خبیث ملک یا خبیث معاشرہ جس میں بہت کم چیزنکلتی ہے۔ خبیث
زمین سے جب کوئی چیز اگتی ہے توبہت کم اگتی ہے اور جتنی اگتی ہے وہ بھی بے
فائدہ ہوتی ہے۔قرآن مجید نے یہ مثال اس لئے دی ہے تاکہ کسان، شہر، پڑھے
لکھے اور ان پڑھ سب کو سمجھ میں آجائے کہ ایک وہ زمین جو ہموار ہے جس میں
اذنِ خدا سے اعلیٰ قسم کی فصل اگتی ہے اور ایک وہ خبیث زمین ہے جس میں بہت
کم مقدارمیں فصل اگتی ہے اور وہ بھی بے فائدہ ہوتی ہے۔ درحقیقت قرآن مجید
یہ بتانا چاہتا ہے کہ ایک وہ معاشرہ ہے جس کی بنیاد میں تقویٰ اور رضائے
الٰہی ہے جو مدینۂ فاضلہ ہے اور ایک وہ معاشرہ ہے جس کی بنیاد غیر الٰہی
آئیڈیالوجی ہے ، وہ بلادِ خبیث ہے، جس میں دہشت گرداگتے ہیں۔
کلمۃ طیبہ وشجرۂ طیّبہ:
سورۂ مبارکۂ ابراہیم آیت نمبر ۲۴ میں پھر اسی پہلے نکتے کی طرف اشارہ ہوا
ہے۔ پہلے وہی ہدایت کی باتیں ہیں کہ شیطانی راہ یہ ہے اور الٰہی را ہ یہ
ہے،یہ دونوں راہیں بتاکرپھر اس کے بعد قرآن مجید نے آخرمیں یہ مثال پیش کی
ہے:
’’ أَلَمْ تَرَی کَیْفَ ضَرَبَ اﷲُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً۔۔۔‘‘
کیانہیں دیکھتے کہ خداوندتعالیٰ نے کلمۂ طیبہ کی کیسی مثال دی اور کیاعمدہ
، واضح اور روشن مثا ل دی؟قرآن مجیدمیں کلمہ کا معنٰی بھی خاص ہے اور اس کے
مصادیق معین ہیں ،اگرچہ کلمہ گفتگوکے لئے بھی استعما ل ہواہے،جبکہ موجوداتِ
تکوینی اور اصولوں وسنن کے لئے بھی استعمال ہواہے۔پس کلمہ کے بہت سارے
مصادیق ہیں۔ یہاں پر خدا وندتعالیٰ کا فرمانا ہے :
أَلَمْ تَرَی کَیْفَ ضَرَبَ اﷲُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ
طَیِّبَۃٍ۔ ۔۔‘‘
کیاتم نے نہیں دیکھا کہ خدانے کیسی مثال دی ؟اور کیا خوبصورت بات بتائی ہے
کہ کلمۂ طیبہ اور شجرۂ طیبہ’’پاک درخت‘‘ کی مثال دی ہے۔ اس شجرہ کی خصوصیت
کیا ہے ؟
انقلاب اسلامی ، شجرہ طیبہ کی بہترین مثال:
’’ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَائِ‘‘
اصل یعنی بنیاد بہت پائیدار ہے اور اس کی شاخیں آسمانوں میں ہیں ،یعنی اس
کی جڑیں زمین میں ثابت اور پائیدار ہیں اور اس کی شاخیں آسمانوں میں ہیں ۔
اس کی اور خوبی کیاہے؟
تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا۔ ۔۔‘‘
یہ پائیدار، مستحکم اور استوارشجرۂ طیبہ اذنِ پروردگار سے اپنا پھل ہر دم
اور ہر زمانے میں دے رہاہے،پورے عالم کے اوپرسایہ فگن ہے اور ہر دم اپناپھل
عطاکررہاہے۔ آج کے دور میں اس کی مثال انقلابِ اسلامی ہے کہ وہ ہر لمحہ
پوری دنیا کو پھل دے رہا ہے ، اسی طرح حوزاتِ علمیہ، جیسے حوزۂ علمیہ قم ،
حوزۂ علمیہ نجف اور دیگر علمی مراکز بھی اس کی مثالیں ہیں اور اس طرح کے
اور مصادیق و مثالیں بھی بنائی جا سکتی ہیں ۔
’’۔۔۔وَیَضْرِبُ اﷲُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ
(ابراہیم۔۲۵)
اور خداوندتعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں دیتاہے کہ شاید لوگ اب سمجھ جائیں !
معاشرتی زندگی کی دو حالتیں
اس کے بعد قرآن مجید پھر شجرۂ خبیثہ کی مثال دیتا ہے کہ
وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ
الْأَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ (ابراہیم۔۲۶)
شجرئہ خبیثہ کی مثال یہ کیاہے کہ وہ زمین میں گہرانہیں ہوتا ،اس کی بنیادیں
محکم ،ثابت اورپائیدار نہیں ہوتیں اوریہ شجرہ زمین کی اوپر والی تہہ سے ہی
باہر نکل آتاہے۔جس کوکوئی قرار ، استقرار اور استحکام حاصل نہیں ہے بلکہ
ایک ہوا کے جھونکے سے ہی اکھڑ جاتاہے۔
اس کیلئے وضاحت اور قرینہ موجودہے کہ اس سے مراد انسان کی اجتماعی حیات
ہے۔انسان کی معاشرتی زندگی یا شجرۂ طیبہ کی مانند ہے یاپھر شجرۂ خبیثہ کی
مانند۔ اگر استوار ،محکم اور پائیداربنیادوں پر ہو تویہ شجرۂ طیبہ ہے
اورہمیشہ آباد ہے لیکن اگر اس کی بنیاد ان بنیادوں پر نہ ہو تویہ شجرۂ
خبیثہ کی طر ح ہے۔شجرہِ خبیثہ کی علامت یہ ہے کہ یہ ناپائیدار ہے اور اس کو
قرار حاصل نہیں ہے۔
ایمانی معاشرہ نا قابل شکست:
قرآن مجیدکی اگلی آیت میں بیان ہواہے کہ
’’ یُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی
الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔ ۔۔‘‘
جولوگ ایمان لائے ہیں ،جنہوں نے اپنی بنیاد ایمان پر رکھی ہے،انہیں
خداوندتعالیٰ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ثبات عطاکرتاہے، یعنی ثباتِ
قدم،استحکام اورپائیداری عطاکرتاہے۔ اب اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ مرنے سے
پہلے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اجر ملتا ہے۔ بعض جگہ پرہے کہ
’’۔۔۔کَأَنَّہُمْ بُنیَانٌ مَرْصُوصٌ‘‘ (صف۔۴)
وہ معاشرہ جوسنتِ الٰہی کے مطابق اورتوحیدی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر قائم
ہوا ہوناقابل تسخیر و ناقابل شکست ہے لیکن وہ ناپائیدارمعاشرہ ہو ،جس کی
بنیادمیں یہ نہ ہو،اس کوکوئی ثبات نہیں ہے بلکہ ایک ہوا کاجھونکا بھی اسے
جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔ آج حیاتِ دنیوی میں ہمارے قدم اکھڑے ہوئے ہیں اوراس
میں پائیداری نہیں ہے۔ کیوں کہ یہی توسنتِ خداہے !
مومنین کیلئے دنیا وآخرت میں ثبات
’’۔۔۔ وَلاَتَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیحُکُمْ۔ ۔۔‘‘
(الانفال۔۴۶)
تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور تمہاری عزت جاتی رہے گی۔ جبکہ ہم نے ذہن میں
ایک غلط تصویررکھی ہوئی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل یہ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ
کے لاڈلے ہیں لہٰذاہم جو چاہے کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اللہ کا
کوئی لاڈلانہیں ہے ،اللہ نے قوانین بنائے ہیں اور تمہارا بھی ان قوانین کے
اوپرانجام ہوگا،بنی اسرائیل کے بعد اب ہم خود کو اللہ کے لاڈلے سمجھتے ہیں
۔ لیکن ہم غلط چلیں گے اورناپائیدار زندگی بنائیں گے تو ہمارا انجام بھی
اسی قانون کے مطابق ہوگا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کافرماناہے کہ میں دنیا میں
مومنین کو ثبات عطاکروں گا اورثباتِ دنیوی دلیل و علامت ہے کہ آخرت میں بھی
ان کو ثبات عطا ہوگا، ابھی دنیا میں توہمارا سب کچھ اکھڑاہواہے ،قدم اکھڑے
ہوئے ہیں ،سانس اکھڑی ہوئی ہے اورعزت وآبرو چلی گئی ہے پھر کس طرح ہم آخرت
کی تمنا لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ جنت میں پہنچ جا ئیں گے!
’’۔۔۔وَیُضِلُّ اﷲُ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اﷲُ مَا
یَشَائُ‘‘(ابراہیم۔۲۷)
او رخدا ظالمین کو گمراہ کرتاہے۔۔
قوانینِ خدا کے مطابق انجام:
نتیجہ یہ نکلا کہ خدا وند تبارک وتعالیٰ نے انسان کی اجتماعی حیات کیلئے
سنتیں مقرر کی ہیں کہ اگر ایک نظام یا ایک معاشرہ تقویٰ اور رضائے الٰہی کی
بنیاد پر قائم ہوگا تو پائیدارمعاشرہ بنے گا اور اگر ایسا نہ ہوتوپھراُس
صورت میں یہ ناپائیدار معاشرہ ہوگا اور معمولی حوادث بھی اس کو جڑسے اکھاڑ
پھینکیں گے چونکہ اس کے اندرکوئی پائیداری نہیں ہے یہ سنت ِ خدا ہے اور
سنتِ خدا ہمیشہ ثابت ہے۔
’’۔۔۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبْدِیلًا‘‘ (الاحزاب۔۶۲)
بے شک اپنے لئے حوالے دو کہ ہم بڑی لاڈلی اور استثنائی قوم ہیں اورخاص قسم
کے لوگ ہیں ، سنتِ خدا یہ ہے کہ کسی کو استثناء حاصل نہیں ہے۔
|