ماہِ رمضان اور شعائر اسلام کا تمسخر و مذاق

’’شعائر‘‘ جمع ہے ’’شعیرہ‘‘ کی اور ’’شعیرہ‘‘ کہتے ہیں فرض،عبادت اوررسم کو ،تو ’’شعائر اسلام‘‘ کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ فرض عبادت یا ہر وہ سنت طریقہ کہ جس کے بجالانے کا اسلام نے مسلمانوں کو پابند بنایا ہے ’’شعیرہ‘‘ کہلاتا ہے اور اس کے مجموعے کو ’’شعائر‘‘ کہا جاتا ہے اور جب اِن کی نسبت اسلام کی طرف کی جائے تو پھر انہیں ’’شعائر اسلام‘‘ کہاجاتا ہے۔

دنیا کے ہر مہذب مذہب اور اور ہر سنجیدہ قوم میں کسی بھی مذہب کے ’’شعائر‘‘ کا تمسخر کرنے، پھبتی کسنے اور مذاق اڑانے کو نہایت ہی ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایسے شخص کو پرلے درجے کا احمق، جاہل اور بے وقوف خیال کیا جاتا ہے۔

اس وقت اسلام دنیا کے تین اہم اور بڑے مذاہب میں سے ایک اہم ترین اور بڑا مذہب شمار کیا جاتا ہے ، یہی وہ فطرتی مذہب ہے جس کی فطرت پر اﷲ تعالیٰ نے تمام نوعِ بنی آدم کو پیدا کیا ۔ آج اس کی رفعت و عظمت،حقانیت و صداقت اور امانت و دیانت کا مسلمانوں کو چھوڑیئے غیر مسلموں کو بھی اعتراف ہے اور بھی اس کی حقانیت و صداقت کے گن گاتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہر زمانے میں، ہر مذہب و قوم میں چند ایسے شریر اور لااُبالی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں جو کسی بھی مذہب کے شعائر و رسومات کا ٹھٹھا کرتے ہیں، اُن کا تمسخر اڑاتے ہیں اور اُن پر آوازیں کستے ہیں ، ایسے شرپسند عناصر اگر غیر مذہب لوگ ہوں پھر تو اتنا دکھ نہیں ہوتا، لیکن اگر اپنے ہی مذہب کے لوگ ہوں، اپنے ہی دین کے افراد ہوں اور اپنے آپ کے بارے میں اُس دین اور اس مذہب کے پابند ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہوں تو ایسے عاقبت نا اندیش ، جاہل اور بے وقوف لوگوں پر جتنا بھی غیض و غضب اور غم و غصہ کا اظہار کیا جائے کم ہے۔

آپ اسلام کے دیگر شعائر کو فی الحال ر ہنے دیجئے! سردست آپ صرف رمضان المبارک کے شعیرہ ہی کو لے لیجیے! اس وقت ہم لوگ ماہِ رمضان جیسے مقدس اور بابرکت مہینے سے گزر رہے ہیں ، پاکیزہ ایام ، پرنور لمحات،مبارک ساعتیں، نورانی راتیں ہمیں میسر ہیں،لیکن یہ بات بہت افسوس سے کہی جاتی ہے کہ ہمارا مسلمانوں کا ایک بڑا پڑھا لکھا اَن پڑھ طبقہ ’’فلسفۂ رمضان‘‘ سے غیر مطمئن، نالاں اور شاکی ہے۔روزہ رکھنا تو درکنار روزہ رکھنے والے دیگر افراد بھی اُن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ سال کے گیارہ مہینے، چوبیس گھنٹے ہر وقت منہ مارنے والے لبرل اور ملحد قسم کے یہ لوگ ماہِ رمضان میں جب بازاروں میں اشیائے خورد و نوش سرعام بکنا نہیں دیکھتے ، خفیہ خرید کر کسی اوٹ میں چھپے بغیر بآسانی کھا نہیں سکتے،اور عوام الناس کو اپنا روزہ دار ہونا باور نہیں کراسکتے تو پھریہ لوگ کفریہ نظریات اپنانے لگتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ روزہ رکھنا قدامت پسندی اور دقیا نوسی ہے، روزہ تو وہ رکھے جس کے گھر میں کھانے پینے کو کچھ نہ ہو، اورہمیں بھوکا مارنے سے اﷲ کو کیا ملتا ہے یا جیسے آج کل سحری و افطاری کے وقت ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر رمضان نشریات کے نام سے مارننگ شوز،نیلام گھر، سرکس،ناچ گانے اور مختلف قسم کے فحش اشتہارات وغیرہ چلائے جاتے ہیں، تو یاد رکھنا چاہیے کہ دین کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا تمسخر اور مذاق اڑانا بھی کفر کا سبب ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص عمر بھر نماز نہ پڑھے، کبھی بھی روزہ نہ رکھے، اسی طرح اور کوئی فرض ادا نہ کرے، بشرطے کہ اس کا منکر نہ ہو وہ کافر نہیں، جس فرض کو ادا نہیں کرتا اس کا گناہ ہوتا ہے اور جو اعمال ادا کرتا ہے ان کا اجر ملتا ہے، لیکن دین کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ بات کا تمسخر بھی کفر ہے، جس سے اور بھی تمام عمر کے نماز، روزہ نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، یہ بات بہت زیادہ قابل لحاظ رکھنی چاہیے اورروزہ کے متعلق کوئی بھی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص روزہ کا تمسخر نہ بھی کرے تب بھی بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ نہ رکھنے والا بڑا گناہ گار اور فاسق ہے، حتیٰ کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ جو شخص رمضان میں علیٰ الاعلان بغیر کسی شرعی عذر کے کھائے پیئے اس کو قتل کردیا جائے، لیکن قتل پر اگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے قدرت نہ ہو کہ یہ کام امیر المؤمنین کا ہے تو اس فرض سے کوئی بھی سبک دوش نہیں کہ اس کی اس ناپاک حرکت پر نفرت کا اظہار کرے اور اس سے کم تو ایمان کا کوئی درجہ ہی نہیں کہ اس کو دل سے برا سمجھے۔ (فضائل رمضان بتغیر)

یہ امر نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ ہم میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مردم شماری میں مسلمان شمار ہوتے ہیں، لیکن ارکانِ اسلام میں سے کسی ایک رکن (کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کے کرنے والے بھی نہیں ہیں، سرکاری کاغذات میں وہ مسلمان لکھے جاتے ہیں، مگر اﷲ کی فہرست میں وہ مسلمان شمار نہیں ہوتے۔ جس طرح کلمہ، نماز، حج، زکوٰۃ اسلام کے پانچ اہم ترین ارکان ہیں اسی طرح روزہ بھی ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم ترین رکن ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں آتا ہے کہ اسلام کی بنیاد تین چیزپر ہے کلمہ شہادت اور نماز، روزہ، جو شخص ان میں سے ایک بھی چھوڑ دے وہ کافر ہے، اس کا خون کردینا حلال ہے۔ علماء نے ان جیسی روایات کو انکار کے ساتھ مقید کیا ہو یا کوئی تاویل فرمائی ہو، مگر اس سے انکار نہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات ایسے لوگوں کے بارے میں سخت سے سخت وارد ہوئے ہیں۔

بہرحال اس بار یہ خبر خوش آئند ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محترم جناب شوکت عزیزصدیقی نے امسال رمضان المبارک میں رمضان نشریات کے نام پر مارننگ شوز،نیلام گھر، سرکس، ناچ گانے اور مختلف قسم کے فحش اشتہارات وغیرہ نشر کرنے پر تمام ٹی وی چینلوں پر پابندی عائد کردی ہے اور کہا ہے کہ اس بار رمضان المبارک میں کسی بھی ٹی وی چینل پر کوئی مارننگ شو، کوئی نیلام گھر، کوئی سرکس، کوئی ناچ گانا اور کوئی فحش اشتہار شائع نہیں ہوگا، بلکہ ان کی جگہ پانچ وقت کی اذان نشر کی جائے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ اسلام کا تمسخر اور مذاق اڑانے کی اجازت ہم کسی کو بھی نہیں دیں گے، اس لئے کہ اسلامی تشخص اور عقائد کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 7 Articles with 5317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.