خدارا! جامعہ پنجاب کو بچاؤ

عجیب کھیل جاری ہے۔ پنجاب کے کرپٹ مافیہ نے پنجاب یونیورسٹی کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ جناب چیف جسٹس کے احکامات انہوں نے ہوا میں اڑا دئیے۔ وہ ہر چیز میں اپنے مفادات دیکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو ادارے کی ساکھ کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہاں کے طلبا اور اساتذہ سے کوئی ہمدردی۔ حکومت کی طرف سے وائس چانسلر کی سلیکشن کے لئے جو سرچ کمیٹی بنائی گئی وہ ان لوگوں کے مقابلے میں کہ جو انٹرویو کے لئے آ رہے تھے، انتہائی بونے تھے۔بہت سے سینئر اساتذہ اس سرچ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے میں سبکی محسوس کر رہے تھے۔مگر اس سرچ کمیٹی نے ڈھٹائی سے کام کیا۔ ایک سو دو لوگوں نے اس پوسٹ کے لئے اپلائی کیااور اس لئے کیا کہ سب کو پتہ تھا کہ یہاں میرٹ کوئی نہیں ، فقط حوالہ ہی حوالہ ہے جسے کام کرنا ہے۔اس لئے سب نے اپلائی کر دیا اور حوالے کی تلاش میں چل پڑے۔ جو بہتر حوالہ تلاش کر گیا وہی کولمبس ٹھہرا اور کامیاب ہوا۔

پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر کا عہدہ ڈاکٹر مجاہد کامران کی دو دفعہ چار سالہ معیاد ختم کرنے پر خالی ہوا تھا۔اس وقت بنائی گئی سرچ کمیٹی نے ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر زکریا ذاکر اور ڈاکٹر ظفر معین ناصرکو سلیکٹ کیا۔ڈاکٹر مجاہد کامران حکومت کی مرضی سے ایک سال سے زیادہ عرصہ قائم مقام وائس چانسلر کے طور پر گزار گئے۔ہائی کورٹ کے آرڈر پر ان کی بجائے ڈاکٹر ظفر معین ناصر کو تعینات کیا گیا۔مگر مستقل کی بجائے انہیں قائم مقام وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔ہائی کورٹ کے حکم سے نالاں حکومت انہیں پہلے دن ہی سے خراب کرتی رہی اور تنگ آمد وہ استفیٰ دے کر چلے گئے۔سرچ کمیٹی نے جو لسٹ دی تھی وہ ایک آدمی کی تعیناتی کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔مگر حکومت نے اس لسٹ میں سے تیسرے امیدوار ڈاکٹر ذکریا ذاکر کو بغیر کسی اصول اپنے مفاد میں وائس چانسلر لگا دیا۔ تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جو ڈاکٹر زکریا ذاکر کے لئے جاری کیا گیا اس نوٹیفیکیشن سے بہت مختلف تھا جو ڈاکٹر ظفر معین ناصر کے لئے جاری ہوا۔ دونوں نوٹیفیکیشن کا تقابل حکومتی بد نیتی کو صاف ظاہر کرتا ہے۔ ڈاکٹر زکریا یونیورسٹی کو زمین کے معاملے میں سپریم کورٹ نے فارغ کر دیا اور حکومت کو ہدایت کی کہ سینئر پروفیسروں میں سے کسی ایک کو تعینات کرے۔یہ بھی پوچھا گیا کہ سینئر ترین پروفیسر ڈاکٹر تقی زاہد بٹ کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔

سینارٹی میں پہلے ڈاکٹر تقی زاہد بٹ اور دوسرے ڈاکٹر شاہد کمال پروفیشنل ٹیچر اور اپنی طرز کے منفرد لوگ ہیں۔ وہ دونوں کسی دباؤ کی پرواہ نہیں کرتے۔حکومتی لوگوں کو ان دونوں سے کوئی امید نہ ہونے کے سبب لسٹ کو تین لوگوں تک محدود کرنے کی بجائے غیر رو ایتی انداز میں پانچ تک بڑھا دیا گیا اور چوتھے نمبر پر موجود ڈاکٹر ناصرہ جبین کو قائم مقام وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا حالانکہ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ڈاکٹر ناصرہ ایک دھیمے مزاج کی بہترین منتظم اور تمام حلقوں میں مقبول خاتون ہیں ۔ یونیورسٹی کے تمام حلقوں نے ان کی تعیناتی کو سراہا گیااور وہ بہت خوش اسلوبی سے کام کر رہی تھیں۔مگرحکومت نے جاتے جاتے ڈاکٹر نیاز کو مستقل وائس چانسلر تعینات کر دیا ہے۔ یہ تعیناتی اتنی عجلت میں کی گئی اور میرٹ کی دھجیاں اس انداز میں اڑائی گئیں کہ چند باتیں ہر ذہن میں گردش کرنے لگی ہیں۔ان باتوں کا جواب تو سپریم کورٹ ہی لے سکتا ہے لیکن پنجاب کی اس سب سے بڑی جامعہ کے ساتھ جو افسوسناک سلوک ہو رہا ہے اسے جاننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل اس جامعہ سے وابستہ ہے۔

جہاں تک کوالیفیکیشن کا تعلق ہے پنجاب یونیورسٹی کے تمام سینئر پروفیسر حضرات ہم پلہ ہیں۔سرچ کمیٹی کو یونیورسٹی کے حالات اور کسی شخص کی سینارٹی اور انتظامی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان سینئرز میں سے بہتر کا انتخاب کرنا تھا۔ مگر اس پوسٹ کے لئے ایک سو دو (102) لوگوں کا اپلائی کرنا اس چیز کا آئینہ دار ہے کہ سب کو پتہ تھا کہ اس سلیکشن میں میرٹ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ میرٹ صرف اور صرف آپ کی سیاسی وابستگی اور سیاسی حوالہ ہے اس لئے سب لوگ اس بھاگ دوڑ میں شامل ہو گئے۔سرچ کمیٹی کے ارکان پنجاب یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ سے بہت جونیئر ہیں اور چیئر مین صاحب کا تعلیم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ باقی لوگوں کے بارے اس سے زیادہ کیا کہا جائے کہ اصولی خدمت گار ہیں اور ہر کام حکومتی خدمت کے لئے اس کی ہدایت پر کرتے ہیں۔ڈاکٹر ناصرہ کو تین سینئر پروفیسروں پر ترجیع دی گئی کہ وہ انتظامی لحاظ سے بہتر اور یونیورسٹی اساتذہ کے لئے زیادہ قابل قبول تھیں۔ اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ایک سو دو (102) لوگوں میں سے چھبیس (26) شاٹ لسٹ کئے گئے۔ مزے کی بات کہ ڈاکٹر شاہد کمال جنہیں پہلے نظر انداز کیا گیا تھا اس لسٹ میں موجود تھے مگر ڈاکٹر ناصرہ جو پہلے ان سے بہتر تھیں ان نئی لسٹ میں شامل نہ کی گئیں حالانکہ سرچ کمیٹی وہی تھی۔کمیٹی نے پہلے دن بیس آدمیوں کے انٹریو کئے۔ چھ آدمی اگلے دن انٹریو کئے اور بقیہ لوگوں کے احتجاج کے ڈر سے اسی دن خانہ پری کے لئے ڈاکٹر تقی زاہد بٹ اور ڈاکٹر ناصرہ جبین سمیت کچھ مزید انٹریو کئے گئے اور یہ تعداد اڑتیس(38) کر دی گئی۔ ان میں ایک آدھ کے سوا باقیوں کو انٹریو کے نام پر فقط ٹرخانے کا کام کیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو میرٹ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ انہوں نے ہر چیزطے کی ہوئی تھی۔ ایک شخص جو پہلے آٹھ سال وائس چانسلر رہا اور حکومتی عناصر کے ہاتھوں کھیلتا رہا جس کی وفاداری پر انہیں پورا یقین تھا اسے ایک بہتر جامعہ میں لگا کر اپنے مفاد حاصل کرنا ہی حکومت کا مطمع نظر تھا ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک موجود وائس چانسلر کو نظر انداز کر دیں جسے آپ خود میرٹ پر لانے کے دعوے دار ہوں۔ آخری تین منتخب لوگوں میں ڈاکٹر زکریا ذاکر کو رکھا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر نکالے گئے شخص کو آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کا احترام تو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ جسے سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا ہے اسے شاٹ لسٹ ہی نہ کیا جاتا۔ ڈاکٹر منصور سرور IT میں یقیناً ایک بڑا نام ہے اور شائد سرچ کمیٹی کے رکن آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر سیف سے بہت بہتر۔ اپنے پاس کوئی تگڑا حوالہ نہ ہونے کی سبب کسی IT جیسی یونیورسٹی جس میں پانچ سات سو طالبعلم ہوں ، کے وائس چانسلر نہیں لگ سکے مگر پنجاب یونیورسٹی میں تو وہ بہت جونیئر ہیں وہ کیسے اس لسٹ میں شامل کئے گئے ؟ شاید اس لئے کہ جونیئر کہہ کر نظر انداز کرنا آسان ہوتا ہے۔جب مستحق لوگوں کو یوں ٹیکنیکل انداز میں باہر کر دیا جائے تو آخری تین منتخب لوگوں میں سے ڈاکٹر نیاز کا انتخاب بڑا جائز لگتا ہے۔ ڈاکٹر نیاز پر الزام ہے کہ وہ مخصوص مذہبی نظریات کے بندے ہیں مگر یہ غلط ہے ان کے جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ مخصوص ذاتی مفادات کے بندے ہیں اور ذاتی مفاد میں کسی حد تک جا سکتے ہیں یہی ان کا میرٹ ہے۔

میں اس سے پہلے بھی بارہا اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ کسی صاحب علم کا انٹریو لینے کا اختیار اس شخص کو ہوتا جو اس سے زیادہ علم جانتا ہو۔ پنجاب یونیورسٹی ایک قدیم اور مستند یونیورسٹی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں قیادت کے لئے مردان کار مہیا کرتی ہے۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے انتخاب کے لئے انٹریو لینے والایہاں کے موجود سینئر پروفیسروں سے بہتر کہاں سے ملے گا۔ بہتر یہ ہے کہ پاکستان کی وہ تمام قدیمی یونیورسٹیاں جہاں پروفیسر حضرات کی تعداد بیس پچیس سے زیادہ ہو وہاں وائس چانسلر اسی یونیورسٹی کے سینئرز میں سے کسی کولگایا جائے اور انٹرویو کے چکر میں انہی یونیورسٹیوں کو ڈالا جائے جو نئی ہیں اور جہاں پروفیسر کم تعداد میں جوجود ہیں۔

ہر سیاسی حلقے کی پنجاب یونیورسٹی کی زمینوں، سینکڑوں ملازمتوں ، یونیورسٹی کی کالونی میں رہائش ہزاروں ووٹرز، چالیس ہزار طلبا، ہزاروں اساتذہ اور بہت سی دوسری چیزوں میں دلچسپی ہے ۔ وائس چانسلر ان کی پسند کا ہو اور ان کا آلہ کاربھی ہو تو سیاسی فائدے کی امید کی جاتی ہے۔یہ سب کھیل اسی لئے کھیلا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کو ا یک بار پھر اس کھلی دھاندلی کا نوٹس لینا ہو گا اور نگران حکومت کو ہدایت کرنا ہو گی کہ تعلیم سے متعلق سینئر لوگوں پر مشتمل سرچ کمیٹی بنا کرجامعہ پنجاب اور اس کے اساتذہ اور طلبا کو اس عذاب مسلسل سے نجات دلائے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500575 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More